مقید جمہوریت

آج کے جدید دور میں ایک ماہ سے لاک ڈاؤن، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروس بند، اسکول تو دور کی بات اسپتالوں پر بھی تالے۔ یہ حالات ہیں مقبوضہ کشمیر کے۔

غور طلب مقام ہے کہ مودی کا ظلم و جبر کیوں اس حد تک بڑھ گیا ہے ؟ کیا سب اچانک ہوا ہے یا اس کے پس پردہ کوئی نیا نظریہ اور سوچ پنب رہی ہے؟

مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو صرف ایک خطے کی حد تک رہتے ہوئے محددو تناظر میں نہ دیکھیں بلکہ گہرائی میں جا کر مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک مکمل بین الاقوامی سوچ کارفرما ہے۔

آج ہم جس اس دور میں زندہ ہیں، ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربن نے اس کو مفید جمہوریت (illiberal democracy) کا نام دیا ہے۔ پھر اس نظریے کو جن رہنماؤں نے آگے بڑھایا ان میں خود ہنگری کے وزیراعظم اوربن، بھارتی وزیراعظم نریند مودی، روسی صدر ولادیمیر پوٹن، ترک صدر طیب اردوان، اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں۔

دراصل یہ تمام رہنما بھی اپنے مخالفین کو دبانے میں نریندر مودی سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ وہ بھی ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں، جو بھارتی وزیراعظم کشمیریوں کی آواز دبانے کے لئے بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔

یہ تمام رہنما سوشل میڈیا پر اپنے دشمنوں اور مخالفین کی تذلیل و تحقیر کرتے ہیں، اقلیتوں، پناہ گزینوں اور غریبوں کے خلاف متعصبانہ اور زہریلی زبان اور الفاظ استعمال کرتے ہیں، حتٰی کہ بعض معاملات میں تو جھوٹ کا سہارا تک لیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جھوٹ اس تسلسل اور ڈھٹائی سے بولو کہ سچ لگنے لگے۔

یہ تمام رہنما اپنے “مقید جمہوریت” نظریہ کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے اپنی سرحدوں پر باقاعدہ قانونی دیوار کھڑی کر دیتے ہیں، بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اپنی نفرت کی آگ بجھانے کے لئے قوم، نسل اور مذہب کی بنیاد پر اقلیتوں کو ملک سے بھی نکال دیتے ہیں۔

یہ عالمی رہنما زمینی حدود کے تنازعات میں دنیا کو اپنے فرضی دشمنوں کے خلاف انتہائی جارحانہ اقدامات کا جواز فراہم کرنے کے لئے حقائق کو یکسر توڑ مروڑ کو پیش کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔

“مقید جمہوریت” کو عملی جامہ پہنانے والے رہنماؤں کی فہرست میں پہلے نمبر پر وہ ہیں جنہوں نے پہلا قدم اٹھا کر سب کو راستہ دکھایا ہے۔ انہوں نے مارچ 2014 میں مشرقی یوکرائن پر حملہ اور قبضہ کر  کر کے دوسروں کے لئے قانونی اقدام کا راستہ کھول دیا۔

پھر دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اگرچہ اقوام متحدہ سمیت اقوام عالم کے زیادہ تر ممالک نے روس کے اس اقدام کو غیر قانونی قبضہ قرار دیا لیکن اس وقت پوٹن اور ان کے حواریوں نے اپنی اس جارحیت کو کریمیا کے عوام کو آزادی واپس دلانے کا نام دے ڈالا۔ امریکہ اور یورپ کی پابندیاں بھی سیاسی طور پر روس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں اور صدر پوٹن آج بھی اتنے ہی بے رحم اور پرعزم نظر آتے ہیں، جتنے پہلے تھے۔

اب بھارتی وزیراعظم مودی نے بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی اور غیر اخلاقی جارحانہ اقدامات کر کے ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں۔

سرینگر میں کرفیو کے نفاذ کو ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ بھارتی فورسز کی جانب سے پیلٹ گنز کے استعمال سے بے شمار لوگوں کی بینائی چلی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج رات گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور نوجوانوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ خواتین کی بھی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔

انڈین سکیورٹی اہلکار اپنی گاڑیوں کو گھروں سے دور کھڑا کر کے گلیوں میں پیدل آتے ہیں اور چھوٹے بچوں کو مارتے ہیں۔ گھروں پر پتھر برساتے ہیں اور کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیتے ہیں۔ بھارتی افواج کے اس ظلم کے بعد مقبوضہ وادی میں ہر طرف خاموشی چھائی ہے، پبلک ٹرانسپورٹ تک ناپید ہے۔ اسپتال بند ہیں اور لینڈ لائن بھی کام نہیں کرتا۔

بڈگام، شوپیان، کولگام اور دوسرے اضلاع میں بھی حالات کی سنگینی کم نہیں۔ خوف کا شکار بھارتی سرکار غیر ملکی میڈیا کو بھی درست حالات نہیں بتا رہی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس بھارتی جبر و بربریت پر عالمی برادری نے آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ دراصل ایک ایسے وقت میں جب دنیا کی توجہ امریکہ میں بڑھتےہوئے فائرنگ کے واقعات، برطانیہ میں بریگزیٹ کے معاملے پر بگڑتی سیاسی صورتحال اور عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی جیسے دیگر سنگین مسائل پر مرکوز تھی، بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں جا گھسی، اس معاملے پر بین الاقوامی سطح پر خاموشی چھائی ہے، کہیں سے اس ظلم و بربریت کےخلاف کوئی خاص آواز نہیں اٹھ رہی، پہلے روس اور اب بھارت کو موثر جواب نہ ملنے کا نتیجہ ہے کہ پہلے جو کچھ کریمیا میں ہوا،  وہی اب کشمیر میں ہو رہا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہےکہ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب ایک اور ” مقید جمہورریت” نافذ ہوجائے گی۔ اگرچہ نیتن یاہو اپنی بہت ہی اہم انتخابی مہم میں الجھے ہوئے ہیں، تاہم ممکن ہے کہ وہ مغربی کنارے پر قبضے کا فیصلہ کر لیں۔

اسرائیل کے فلسطین اور بھارت کے  کشمیر کے ساتھ جارحانہ رویے میں کچھ عوامل مماثلت رکھتے ہیں جن کا ذکر ناگزیر ہے۔

مقبوضہ کشمیر اور مغربی کنارہ برطانوی راج ختم ہونے کے بعد علیحدگی کی کوشش کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ مقبوضہ کشمیر اور مغربی کنارہ، دونوں ہی کے عوام کو بھارت اور اسرائیل نے نسلی بنیادوں پر ان کی خواہشات کے برعکس اپنا دشمن سمجھا اور حق سے محروم رکھا۔

دونوں رہنماؤں یعنی مودی اور نیتن یاہو نے مسلمانوں کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کی۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اب اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں رہا کہ بھارت اور اسرائیل کو امریکی صدر ٹرمپ کا تعاون حاصل ہے اور وہ بس خاموشی تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔

فرض کر لیتے ہیں کہ نیتن یاہو نے اپنے اعلان پر عمل کرتے ہوئے مغربی کنارے پر قبضہ کر کے وہاں کی 3 ملین آبادی کو یرغمال بنا لیا تو پھر صدر ٹرمپ کیا کریں گے؟

کیا امریکی صدر خود اور ان کےساتھی “مقید جمہوریت” کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے خاموش بیٹھے رہیں گے اور دنیا کو واضح طور پر بتا دیں گے کہ اب ایسا ہی ہو گا اور دنیا اب ایسے چلےگی، اب غالب گمان تو یہی ہے کہ شاید ایسا ہی ہو گا۔
اس لئے ہم سب پر فرض ہے کہ جب اور جہاں “مقید جمہوریت” کے حامی غیر جمہوری اور غیر قانونی طریقے سے اپنے اقتدار اور طاقت کو وسیع کرنے کی کوشش کریں، ہم ان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں۔

پسے ہوئے طبقات کی آواز بننے کے لئے اس سول سائٹی، تنظیموں اور شہریوں سے مکمل تعاون کرنا ہو گا جو قوم اور نسلی تعصبات سے بالاتر ہو کر اپنے ملکوں میں مساوات لانے کے لئے لڑ رہی ہیں۔ آئیے۔ یہ آواز بھی آواز بلند کریں کہ جمہوری ملک اپنے آئین میں دیئے گئے مقدس اصولوں کی مکمل پاسداری کریں کیونکہ نام نہاد “مقید جمہوریت” کے علمبردار ان ملکوں کا آئین ہی غربت و افلاس، نسل پرستی کے خاتمے اور عوام کا استحصال روکتا ہے ۔ “مقید جمہوریت ” نظریے کے تحت پہلے کشمیر اور پھر فلسطین کے تناظر میں یہ کہنا بجا بنتا ہے کہ

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

ٹاپ اسٹوریز