ڈیجیٹایز اردو

آوازہ

اس زمانے میں لوہے اور سیمنٹ کا جنگل ابھی چھدرا تھا، لہٰذا شام ڈھلے جب ہم جامعہ کراچی سے نکلتے تو ہماری نگاہ سفاری پارک سے نکلتی ہوئی کہیں نیپا کے آس پاس جا ٹھہرتی ۔دیکھنے کو بے شمار چیزیں تھیں مگر جو چیز سب سے نمایاں دکھتی یا کم از کم مجھے دکھائی دیتی، وہ ایک عمارت تھی جس کی پیشانی پر لکھا ہوتا، ”اردو لغت بورڈ“۔ ان تین الفاظ میں سے ایک لفظ کے ساتھ ذراسا نظریاتی اختلاف بھی تھا یعنی یہ کہ اردو اور لغت اردو الفاظ ہیں تو ان کے ساتھ بورڈ کا انگریزی لفظ کا دم چھلا کیوں، مجلس لغت اردو کیوں نہیں؟ مگر جب کسی نے یہ بتایا کہ قانون سازی کے جھمیلوں میں اس طرح کے لطیفے ہو جاتے ہیں تو اختلاف کی سنگینی ذرا کم ہو گئی۔ اس ادارے کے ساتھ اپنی یہ پہلی واقفیت تھی، دوسرا تعارف ابرار بھائی کے توسط سے ہوا۔

ابرار بھائی اسلامی تاریخ کے آدمی تھے، صبح شام کتابوں میں گم رہتے اور ہر شام یونیورسٹی روڈ کے پہلو میں ناریل کے باغ میں ٹہلتے ہوئے کوئی نہ کوئی چونکا دینے والی بات کہتے۔ مسلم تاریخ سے اس قدر گہری دلچسپی کے ساتھ ساتھ ان کی دلچسپی کا ایک میدان اور بھی تھا۔ یہ راز اس روز کھلا جب ایک شب وہ لدے پھندے گھر پہنچے اور ہانپتے کانپتے رکشے سے کچھ بھاری بھرکم کتابیں اتاریں۔ یہ جلدیں اردو لغت کی تھیں، پہلی جلد ہاتھ میں لی تو دیکھتا ہی رہ گیا، الف مقصورہ تا ایہاں، اوہاں۔ یہ الفاظ پڑھ کر تھوڑی حیرت بھی ہوئی لیکن جب شائع کرنے والے ادارے کا نام پڑھا تو دلچسپی میں اضافہ ہو گیا بلکہ یوں کہیے کہ اس دن کے بعد سے یہ جلدیں ابرار بھائی سے زیادہ میرے استعمال میں آنے لگیں۔ اس ادارے کے ساتھ تعلق کا ایک واقعہ تو یہ ہے، دوسرے واقعے کا تعلق کم از کم دو دہائی بعد سے ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب صدر ممنون حسین کا آذر بائیجان کے دورے کا پروگرام بنا تو میزبان ملک نے ازراہ محبت بہت سی دیگر مصروفیات کے علاوہ باکو اسٹیٹ یونیورسٹی کا پروگرام بھی رکھ دیا جس کا شعبہ اردو اس دورے کے سلسلے میں خاص طور پر کئی ہفتے سے تیاریوں مصروف تھا۔ اس پر سوال پیدا ہوا کہ بچوں کے لیے تحفے میں کیا لے کر جایا جائے۔ ایوان صدر کے احباب کئی روز تک تجاویز سوچتے رہے لیکن کسی بات پر دل ٹُھک نہ سکا۔ اسی دم میرے ذہن میں ابرار بھائی کا خیال آیا نیز ان کی لغت کی بھاری بھرم جلدوں کا۔ یہ تجویز پیش ہوئی اور آناً فاناً منظور بھی کر لی گئی لیکن جب تاریخی اصول پر مرتب کی گئی اس لغات کی بائیس جلدوں کے حصول کا مرحلہ آیا تو دن میں تارے دکھائی دے گئے۔

معلوم ہوا کہ ادارے کا تو کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ ایک زمانے سے اس کا کوئی سربراہ ہی مقرر نہیں کیا گیا، مختلف ذمہ داران کو اضافی چارج دے کر کام چلایا جا رہا ہے۔ رہا وہ کام جس کے لیے یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا تو وہ بھی ٹھپ پڑا ہے۔ لغت کی بھی کوئی جلد تھی، کوئی نہیں تھی لیکن آفرین ہے اس دور کے قائم مقام ذمہ داران پر جنھوں نے اِدھر اُدھر سے پکڑ دھکڑ کر کے دو سیٹ مکمل کر ہی دیے۔ باکو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے طلبہ و اساتذہ لغت کا تحفہ پا کر کتنے خوش ہوئے؟ اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتے ہیں جنھوں نے وہ منظر دیکھا۔ یہ تحفہ وصول کرتے ہوئے صدر شعبہ کی آواز بھرا گئی اور انھوں نے کہا: ”جنابِ صدر ِعالی مقام! آپ نے اس یونیورسٹی کے لیے جس تحفے کا انتخاب کیا ہے، مجھے کوئی شبہ نہیں ہے کہ آنے والی نسلیں اس سے استفادہ کرتی رہیں گی اور اہل پاکستان کو اچھے الفاظ میں یاد کرتی رہیں گی جس کے ماہرینِ لسانیات نے اتنا عظیم کارنامہ انجام دیا“۔

صدر مملکت نے انتظام تجارت کے مضمون میں ماسٹر ڈگری حاصل کر رکھی ہے جسے عرف عام میں ایم بی اے کہا جاتا ہے۔ یہ ڈگری انھوں نے تب حاصل کی تھی جب انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں ابھی قائم ہی ہوا تھا اور اس ادارے میں امریکی اساتذہ پڑھایا کرتے تھے۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے خالص پیشہ ورانہ شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی زبان و ادب جیسے موضوعات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی لیکن ممنون صاحب کا مزاج مختلف ہے، انھیں اساتذہ اور دور حاضر کے شعرا کے بلا مبالغہ ہزاروں اشعار ازبر ہیں جن کا وہ اپنی گفتگو میں نہایت برمحل استعمال کرتے ہیں۔

مرکزی اردو لغت بورڈ سے باکو اسٹیٹ یونیورسٹی کے لیے لغت کے حصول کے سلسلے میں اس ادارے کے معاملات ان کے علم میں آ ہی چکے تھے، بس باکو سے واپسی کے بعد ان کے سر پر یہ دھن سوار ہو گئی کہ اس ادارے کو بحال کرنا ہے تاکہ یہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر سکے۔ یہی فکر تھی جس کے بروئے کار آنے سے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن بھی وجود میں آیا اور مرکزی اردو لغت بورڈ تو ایسا بحال ہوا کہ دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔

ادارے کا ترجمان اردو نامہ بروقت شائع ہونے لگا۔ کتابوں کے تبادلے کو ادارہ جاتی حیثیت دے کر عام آدمی کا تعلق اس علمی ادارے سے جوڑ دیا گیا اور غالب، یگانہ اور جوش جسے شعرا کے فرہنگ شائع کیے، اکابر اردو کے خصوصی گوشے قائم ہوئے اور دیوار رفتگاں قائم کر کے خادمین اردو کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ خوشی ہے کہ یہ خوش گوارسلسلہ اب بھی جاری ہے۔

لغت ہی نہیں دیگر علمی اور تحقیقی مواد کتابی شکل میں اشاعت ایک بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن فی زمانہ معاملات مختلف ہو چکے ہیں۔ اینڈرائیڈ ٹیکنالوجی نے دنیا ہی بدل ڈالی ہے۔ بحال شدہ اور بدلے ہوئے اردو لغت بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری نے نئے عہد کے تقاضوں کو سمجھا اور اردو کو اس عہد میں شامل کرنے کی شعوری اور عملی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج جو شخص اینڈرائیڈ فون تک رسائی رکھتا ہے، بائیس جلدوں، بائیس ہزار صفحات اور چھبیس لاکھ الفاظ پر مشتمل یہ لغت اس کے ہاتھ میں آ گئی ہے، مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ دنیا کی ہر جدید لغت کی طرح یہ بولتی ہوئی ایپلیکشن ہے۔

یہ لغت اصل میں اس زمانے میں شائع ہوئی تھی جب کاتب قلم سے لکھا کرتا یا پھر خط نسخ میں الفاظ جوڑ کر پرانے زمانوں کی ٹریڈل مشین کو کام میں لایا جاتا۔ اشاعت کے اس طریقے میں خامی یہ تھی کہ صفحات میں اضافہ ہو جاتا اور دیکھنے میں دیدہ زیب بھی نہ لگتا۔ موبائل فون ایپلیکشن کے کارنامے کی طرح یہ کریڈٹ بھی عقیل عباس جعفری کو جاتا ہے کہ انھوں نے بائیس ہزار صفحات پر مشتمل لغت کی کمپوزنگ کا بیڑا اٹھایا جس کے نتیجے میں اس کی ضخامت میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گئی۔

یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ ایک عمومی رویے کے مطابق وہ چند کارنامے کر کے مطمئن نہیں ہو گئے بلکہ اب انھوں نے اردو انسائیکلو پیڈیا، برقی کتب خانوں کے قیام، سمعی کتابوں کی اشاعت، اردو اشاعت کے املا کی درستگی کے سوفٹ وئیر کی تیاری کے علاوہ دیگر جدید زبانوں کی طرح الفاظ کو شناخت کر کے اسے تحریر کے قالب میں ڈھالنے کے سوفٹ وئیر کی تیاری پر کمر ہمت کس لی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگرانھیں وقت اور مہلت میسر آ گئی تو یہ منصوبے نہ صرف پایہ تکمیل کو پہنچیں گے بلکہ ہم اپنی زبان کو ایک نئی آب و تاب کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرسکیں گے،ان شااللہ۔

ٹاپ اسٹوریز