وفاقی کراچی

آوازہ

موجودہ ایم کیو ایم کے سب سے نفیس چہرے اور اس حکومت کے قانونی دماغ بیرسٹر فروغ نسیم نے آئین کی دفعہ 149(4) کے نفاذ کی بات کہی تو خلد آشیانی پیر پگارا یاد آگئے۔ سید علی مردان شاہ المعروف پیر صاحب پگارا شریف (موجودہ پیر پگارا کے والد گرامی) جب حیات تھے تو ان سے ملاقات اور گفتگو کوایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ سیاست کی بیٹ کرنے والے صحافی اس مقصد کے لیے خصوصی جتن کیا کرتے ۔۔۔ جو مراد پانے میں کامیاب ہو جاتے، ساتھیوں میں ان کی اہمیت بڑھ جاتی۔ ان سطور کے لکھنے والے کی خواہش اس کے سوا تھی۔ اس لیے قبلہ پیر صاحب کے ایک مصاحب، جن سے اکثر گپ شپ رہا کرتی، انٹرویو کے لیے کہہ کر بھول گیا۔

چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ بلاوا آ گیا۔ پیر صاحب سے بات کرنا کچھ ایسا آسان نہیں تھا۔ سوال کرنے والا سوال تو کر بیٹھتا، اس کے بعد معاملات اس کے ہاتھ میں نہ رہتے، پیر صاحب اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ یہ عین ممکن تھا کہ پیر صاحب جواب میں کوئی ایسی بات کہہ دیں جس پر سوال کرنے والا بغلیں جھانکنے لگے اور مزید کوئی سوال نہ کر سکے۔ اس لیے جب کبھی صحافیوں کے ساتھ بات چیت کا موقع آتا، کوشش کی جاتی کہ نہایت سینئر اور ان کا ڈکشن سمجھنے والی ساتھی ہی ان سے بات چیت کا آغاز کریں۔ ان میں سب سے نمایاں تو جناب عارف الحق عارف ہوا کرتے۔ وہ نہ ہوتے تو منیر الدین ان کا منصب سنبھالتے۔ اس نشست میں یہ دونوں احباب موجود نہ تھے، اس لیے ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ آپ اکثر فرمایا کرتے ہیں کہ کراچی کو وفاقی علاقہ قرار دیا جائے۔ اس سے آپ کی مراد کیا ہے؟ یہ سوال کر کے میں تھوڑا سنبھل کر بیٹھ گیا۔ عین ممکن تھا کہ وہ جواب میں ایک شریر سی مسکراہٹ سوال کرنے والے پر ڈالیں اور کہیں،

”اڑے بابا تیرے کو اس سے کیامسئلہ ہے؟“

یہ میری خوش نصیبی تھی کہ پیر صاحب نے ایسی کوئی بات نہ کہی بلکہ نہایت سنجیدگی اور بڑے نپے تلے الفاظ میں سوال کا جواب دیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب کراچی کی بدامنی کسی طور تھم نہیں رہی تھی۔ ہر آنے والا دن کسی نئے سانحے کی خبر دیتا تھا۔ کاروبار زندگی کی انجام دہی کے لیے لوگ گھر سے نکلتے تو یہ سوچ کر نکلتے کہ جانے واپسی بھی نصیب ہو پائے گی کہ نہیں ۔۔ لہٰذا وہ گھر سے وضو کر کے نکلا کرتے۔ پیر صاحب کا فرمانا اس ضمن میں یہ تھا کہ کراچی کو وفاق کی تحویل میں دیے بغیر اس مسئلے کا حل ممکن نہیں کیونکہ یہ شہر فطری طور پر وفاقی علاقہ ہے، نیز یہ جو صوبے میں لسانی اضطراب کا چلن ہے اور کے نتیجے میں بدامنی کا دور دورہ ہے، اس کا علاج بھی یہی ہے۔

اب یہ جو بیرسٹر صاحب نے دفعہ 149(4) والی بات کہی ہے، بظاہر تو اس کا تعلق فوری نوعیت کے ایک مسئلے یعنی شہر میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی گندگی کے مسئلے سے نمٹنا ہے لیکن فی الاصل اس کا تعلق کراچی کے انتظامی معاملات سے ہے۔ گویا کراچی کا کچرا سنبھلے نہ سنبھلے، ایک پنڈورا بکس ضرور کھل جائے گا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ سندھ بنیادی طور پر دو لسانی صوبہ ہے جس میں دونوں لسانی اکائیوں یعنی اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان مسائل کا تصفیہ آسان نہیں، جبکہ کراچی کی انتظامی حیثیت کا تعین اس سے بھی زیادہ مشکل ہے کیونکہ اس شہر کی ملکیت ترک کرنے پر نہ سندھی بولنے والے تیار ہیں اور نہ اردو بولنے والے۔

2011 کی بات ہے جب لیاری گینگ وار میں شدت آئی اور محض تبادلہ خیال کی خاطر بعض لوگوں نے کراچی کے انتظامی کنٹرول کے بارے میں تجاویز پیش کیں تو کچھ اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے نہایت تلخی کے ساتھ کہا گیا کہ اگر ایسا سوچا بھی گیا تو خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ جب اس طرح کی باتیں ہوئیں تو حقیقت یہ ہے کہ پیر صاحب نے بھی اپنی تجویز دہرانے کے بجائے خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا حالانکہ اس وقت وہ تجویز پر زور دیتے تو ایک بامعنی مکالمہ یقینا شروع ہو جاتا۔

وہ اس اہم مرحلے پر کیوں خاموش رہے؟ اس کا جواب آج شاید کوئی نہ دے سکے لیکن اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انھیں اس تجویز پر عمل درآمد کی صورت میں ردعمل کا اندازہ ہو چکا ہو گا۔ یہ اندازہ اس لیے بھی درست لگتا ہے کہ حال ہی میں جب بیرسٹر صاحب کی طرف سے کراچی کو وفاق کی تحویل میں دینے کی تجویزسامنے آئی تو خود پیر صاحب کے سیاسی ورثا کی طرف سے بھی اس کی مخالفت کی گئی۔

بیرسٹر فروغ نسیم ایک ذہین قانون دان ہیں۔ وہ کراچی کی سیاست میں طویل عرصے سے متحرک ہیں لیکن قومی سطح پر زیادہ نمایاں اس وقت ہوئے جب سابق فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ انھوں نے اپنے ہاتھ میں لیا اور کامیاب ہوئے یا پھر لندن جا کر ایم کیوایم کے بانی کے لیے منی لانڈرنگ کیس میں گلوخلاصی کا سامان کیا۔ اس بنا پر سیاسی حلقوں میں انھیں ایک ابھرتی ہوئی مؤثر شخصیت باور کیا جاتا ہے لیکن بعض حلقوں کے نزدیک ان کی یہی خوبی ایک اعتبار سے ان کی کمزوری بھی ہے جو کئی قسم کے اختلافات کا دروازہ کھولنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تجاویز اگر عملی شکل اختیار کرتی ہیں تو کراچی کا کچرا ہمیں ایک ایسے نکتے کی طرف بھی لے جا سکتا ہے جس کے نتائج کسی نئے بحران کا راستہ ہموار کر دیں۔

کراچی کو وفاق کی تحویل میں دینے کی تجویز کی وسیع پیمانے پر مخالفت سامنے آنے پر بیرسٹر صاحب پسپائی اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ معاملہ پھر اٹھ سکتا ہے۔ یہ اندازہ اس لیے قرین حقیقت ہے کہ کراچی کے میئر وسیم اختر اور ایم کیوایم کی طرف سے اس تجویز کا جس پرجوش طریقے سے خیر مقدم کیا گیا ہے، اس سے مستقبل کے امکانات کی خبر ملتی ہے۔ اگر ایسا کچھ ہے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اب کے یہ خیال ایسے لوگوں کو سوجھا ہے جو پیرا پگارا سے بھی زیادہ ذہین اور معاملہ فہم ہوں گے۔ ممکن ہے کہ بیرسٹر صاحب مستقبل قریب میں اپنی اہلیت ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

ٹاپ اسٹوریز