سانس لیتے مجسمے

ہمارے ملک میں سیاست پر ہر وقت اس قدر مغز ماری ہوتی ہے کہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاست سے ہٹ کر تاریخ، ادب، فنون لطیفہ اور سائنس بھی کائنات کے اہم موضوعات ہیں۔ دیگر ممالک کے لوگ روز وشب کے اس ایکٹو ازم کے ہنگامے سے دور جا کر کچھ سکون کا سانس بھی لیتے ہیں اور تاریخ کی گلیوں سے سرکتے ہوا کے جھونکوں کو قید کرتے ہیں ۔ آئیے آج آپ کو بھی ماضی کی گزرگاہوں میں سرگوشیاں کرتے ایک عجائب گھر میں لئے چلتے ہیں۔

دنیا میں چند ایسے عجائب گھر ہیں جہاں تاریخ سانس لیتی سنائی دیتی ہے۔ جرمنی کےشمال میں بریمرہیون کی بندرگاہ پر ایک ایسا میوزیم ہے جو جنگوں کی حشر سامانیوں، حالات کی ستم ظریفیوں یا اچھے مستقبل کی امید میں خطہ چھوڑ جانے والوں کی کئی سو سالہ داستان سناتا ہے۔ یہ میوزیم ایک تاریخی بندرگاہ پر ہے ۔ یہ بندرگاہ 1830 سے 1974 کے درمیان تقریبا 2۔1 ملین جرمنی چھوڑ کرامریکہ جانے والے مسافروں کی گزرگاہ بنی۔

یہ میوزیم اسی بندرگاہ پر ایک بہت بڑے بحری جہاز کے اندر بنایا گیا ہے۔ اس کا کچھ حصہ جنگ عظیم دوئم کی ایک آبدوز کے اندر بھی ہے۔ یہ سولہویں صدی سے اب تک کی تاریخ ہے۔ 7 ملین انسان جرمنی چھوڑ کر نئے آسمانوں کو پرواز کر گئے تھے۔ خاص طور جنگ عظیم دوم کے وقت ہجرت کرنے والوں کی لمبی فہرست ہے۔

استقبالیہ سائن بورڈ پر لکھا ہے

?Who were they? Why did they leave

انھوں نے وطن کیوں چھوڑا، وہ کیا حالات رہے جو ان کی مجبوری بنے۔ کیا انھوں نے یہ سفر اکیلے کیا یا ایک خاندان کےصورت میں کیا؟ وہ بیمااری یا موت کا شکار ہو گئے یا خوش قسمتی سے اپنی منزل پر زندہ پہنچ پائے۔ یہ میوزیم پرت در پرت کھلتا ہے، لوگ اندر داخل ہوتے وقت بہت پرجوش ہوتے ہیں لیکن باہر نکلتے ہیں تو روح اداس ہوتی ہے۔ ایک سکتے کی کیفیت جیسے آپ نے عملی طور پر ہجرت کرنے والوں کے ساتھ یہ ہجرت کی ہو۔

اس عجائب گھر کی کئی منزلیں ہیں یہ ایک ٹائٹینک جیسا بحری جہاز یا بہت بڑی آبدوز کی مانند ہے ۔ اس میں داخل ہونے سے قبل کاغذات کی جانچ پڑتال ہوتی ہے ۔ اسکے لئے ٹکٹ کی صورت میں ایک آئی کارڈ چند سکوں کے عوض لینا پڑتا ہے۔ یہ آئی کارڈ داخلی دروازے پر دکھائے بنا اندر نہیں جا سکتے کیونکہ اس آئی کارڈ پر ہجرت کر کے جانے یا آنے والے کسی مہاجر کی شناخت موجود ہے جو عاریتاً آپ کو اس سفر پر دی جاتی ہے۔ گویا آپ کسی اور کے ٹکٹ پر سفر کر تے ہیں ۔

جانچ پڑتال کے بعد سب سے پہلے سامان والا حصہ ہے جہاں مسافروں کا سامان زمین سے لے کر جہاز کی چھت تک انبار کی صورت میں موجود ہے۔ طرح طرح کے رنگ برنگے سوٹ کیس۔ اس حصے سے نکل کر مسافروں کی رہنے سہنے کی جگہ ہے یعنی ڈائیننگ رومز، بیڈ رومز وغیرہ، اگر آپ نے ہالی ووڈ کی پرانی جنگی فلمیں دیکھی ہیں تو یہ جگہ اجنبی محسوس نہ ہو گی۔ اس بحری جہاز میں سونے کے کمروں میں بنکر نما تلے اوپر والے بیڈ موجود ہیں جن پر مسافر آرام کر رہے ہیں۔ مسافروں کے مومی مجسمے حقیقت سے اس قدر قریب ہیں کہ بعض اوقات اپنے قریب کھڑے شخص سے بات کرنے پر جواب نہ پا کر اسکی طرف دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ دراصل اس جہاز کا ایک پرانا مسافر ہے جو مومی مجسمے کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہے۔ تمام بستروں پر مسافر مرد بچے خواتین سونے کے کپڑوں میں ملبوس سوئے پڑے ہیں، کوئی منہ کھولے خراٹے لے رہا ہے، کوئی کروٹ بدلے کوئی سیدھا لیٹا خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے تو کہیں کسی بستر پر چند لوگ بیٹھے رات گئے خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔

اسی کمرے سے آگے ڈائننگ روم جہاں رات کے کھانے کی گہما گہمی ہے۔ خواتین بچے اور مرد حضرات میزوں کے گرد لگی کرسیوں پر براجمان، پلیٹیں گلاس چھری کانٹے سب موجود ۔ بس صرف برتنوں کی کھنک نہیں ہے۔ جس سے یاد آتا ہے کہ یہ اصلی انسان نہیں مومی مجسمے ہیں

اس سفر میں جہاز کی بیرونی سیڑھیوں سے لے کر عرشے تک سفر کرنے والے بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کے مومی مجسموں کی صورت میں بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ لوگ راہداریوں میں کمروں میں عرشے پر ہر جگہ موجو ہیں۔ اکثر اوقات اس سفر میں موجود اصلی ساتھیوں اور مومی مجسموں میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

احاطے کے بیچ و بیچ ایک خاتون نظر آئے گی جو سیکیورٹی گارڈ سے اس بات پر مصر ہے کہ اسکو اسکے دس سال کے بیٹے کے ساتھ اندر جانے دیا جائے اسکے کاغذات درست اور مکمل ہیں لیکن سیکیورٹی گارڈ اس کو قابل توجہ نہیں سمجھ رہا بلآخر اس کا بچہ تھک ہار کر اپنے ہی سامان پر بیٹھ گیا ہے۔ ایک سنہرے بالوں والی مہین سی خاتون اپنی شیر خوار بچی کو گود مین لئے بہلانے کی کوشش میں ہے۔ پاس ہی آٹھ دس برس کی ان کی دوسری بیٹی بھی کھڑی ہے جو اپنی چھوٹی بہن کو روتے دیکھ رہی ہے۔ یہ ایسے جیتے جاگتے زندہ مناظر ہیں کہ آدمی چند لمحے کو سن رہ جاتا ہے۔ ان سے ہمکلام ہو کر ان کی روداد نہیں سنی جا سکتی کیونکہ یہ جیتے جاگتے مجسمے جواب نہیں دے سکتے۔ تمام سوالوں کا جواب سفر کے اختاتمی حصے میں مل جاتا ہے۔

اختتامی حصہ آڈیو ویڈیو ریکارڈنگز پر مشتمل ہے۔ یہاں لاکھوں مسافروں کا اصل ڈیٹا ریکارڈنگز کی صورت میں موجود ہے۔ آپ کا آئی کارڈ بتائے گا کہ آپ کس مسافر کے ویزے پر سفر کر رہے تھے۔ ہمسفر کا نام اس الماری تک رہنمائی کرے گا جہاں ہیڈ فون کان سے لگا کر اپنی شناخت والے مسافر کی مکمل روداد سنی جا سکتی ہے۔ وہ کون تھا یا تھی اس نے کن حالات میں سفر کیا۔ سفر کے دوران اس کے ساتھ کیا واقعات رونما ہوئے۔ اورا سکے سفر کا انجام کیا ہوا ۔ کیا مسافر اپنی منزل تک پہنچ پایا۔ یہی نہیں ا سکے ساتھ اسی مسافر کی تصاویر بھی ہیں۔

یہ ایک انوکھا تجربہ ہوتا ہے کیوں وزیٹر نے دوران سفر اسی مسافر کا کارڈ استعمال کیا ہے اس سے ایک انسیت ہو جاتی ہے لہٰذا جب اس سے ملنے کا موقع ملتا ہے تو لوگ جذباتی ہو جاتے ہیں کہ اگر مسافر کا انجام دردناک ہے تو سہہ نہیں پاتے اور کامیاب انجام کی صورت میں خوش ہوتے ہیں جیسے یہ مسافر آپ ہی تھے جو بالآخر اپنے خاندان والوں سےملے

یورپ کے بعد اب یہ میوزیم لندن میں بھی بنایا گیا ہے۔ دنیا کے چند دیگر ملکوں میں بھی ایسے میوزیم بنائے جا رہے ہیں۔ لیکن اب ان میں تاریخ سے زیادہ سیاست کا عمل دخل ہو گیا ہے، گویا خالص تاریخ میں بھی ملاوٹ سے باز نہ آیا انسان۔ اب ممالک اس قسم کی جگہوں پہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ لوگوں کے تجربات کو ایسے ابھارا جائے جو ان کے ملک سے ہمدردی کا سبب بنے۔

ہجرت ایک تکلیف دہ عمل ہے، خاص طور پر نامساعد حالات میں مجبور ہو کر ہجرت کرنے والے ہمیشہ ذہنی خلفشار کا شکار رہتے ہیں۔ اس وقت یہ دنیا تاریخ کے سب سے بڑے رفیو جی کرائسس سے بر سر پیکار ہے۔ کروڑوں انسان اپنا گھر بار چھوڑنے اور پناہ گزین بننے پر مجبور ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز