آرٹیکل 149 اور کراچی

خبر ہونے تک

آئین کی کسی بھی شق کی تشریح ہر وکیل اور سیاستدان اپنے مفاد کے تحت کرتا ہے، آج کل ایسا ہی کچھ آرٹیکل 149 کے ساتھ بھی ہو رہا ہے، آئین کی یہ شق ہے کیا اور کیا کہتی ہے، یہ ایک الگ معاملہ ہے اور دلدل میں غرق ہوتا کراچی دوسرا معاملہ ہے۔

یہاں تاریخ کا وہ المناک وقت یاد آتا ہے کہ ہلاکو خان بغداد میں خون بہا رہا تھا، ادارے، لائبریریاں نذرآتش کر رہا تھا اور اہل بغداد لایعنی مناظروں میں مصروف تھے۔ کراچی مسائل میں پھنستا جا رہا ہے اور بحث ہو رہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 149 کی ذیلی شق چار کے تحت وفاق کراچی میں مداخلت کر سکتا ہے یا نہیں۔

مخالفین کہتے ہیں کہ وفاق مداخلت نہیں کرسکتا صرف مشورہ اور ہدایت دے سکتا ہے جبکہ ایک اور طبقہ چیخ رہا ہے کہ سندھ تقسیم کرنے کی بات ہو رہی ہے، ایسا ہوا تو سندھو دیش بن جائے گا۔ کوئی اس طرف نہیں آ رہا کہ مسائل کس طرح حل ہوں گے، میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ تین حکومتیں ہیں جو ایک دوسرے پر الزام لگا کر اپنی اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کر رہی ہیں، یہ بحث بھی اسی کا تسلسل ہے کہ کام کچھ نہ کیا جائے اور عوام کو فروعی معاملات میں الجھائے رکھا جائے۔

کراچی اس ملک کا وہ خوش نصیب شہر تھا جسے قدرت نے بے بہا وسائل دیے ہیں لیکن اب وہ بد نصیب شہر بن گیا ہے جہاں تین تین حکومتیں اپنی اپنی ملکیت کی دعویدار ہیں، آئین کے آرٹیکل 149 پر بحث کے دوران صوبائی حکومت کے وزرا اور سندھ کے سیاسی رہنما اسے کراچی کو وفاق کے تحت دینے اور سندہ کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیتے ہیں۔

کیا صوبائی حکومت اور ان سیاستدانوں کو علم نہیں کہ پہلے ہی نصف کے لگ بھگ کراچی وفاق کے پاس ہے؟ کراچی کے چھ کینٹونمنٹ بورڈز، دو ائرپورٹس، ائر فورس کے بیس، ٹھٹہ سے سومیانی تک سمندر اور ساحل، کراچی پورٹ ٹرسٹ، بن قاسم پورٹ، پاکستان اسٹیل ملز، کینوپ، آئل ریفائنریز، آئل ٹرمینلز، پاکستان ریلویز، وفاقی اداروں کے ملازمین کی کالونیاں وغیرہ یہ سب وفاق کی ملکیت ہیں۔

صوبائی حکومت نے بلدیاتی شہری اداروں کو اپنے تحت کر کے اپنا حصہ بڑھانے کی کوشش کی ہے، بورڈ آف ریونیو، کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت آنے والے علاقوں پر حق ملکیت سندھ حکومت جتاتی ہے اور سہولتوں کی فراہمی کے لیے ذمہ دار کراچی میونسپل کارپوریشن کو ٹھہراتی ہے، کے ایم سی براہ راست شہر کا بمشکل 40 فیصد حصہ ہے لیکن پورے شہر کو پانی فراہم کرنا، اس کی صفائی، کچرا اٹھانا، سیوریج، تجاوزات غرض تمام شہری سہولتوں کی فراہمی کی ذمہ داری کے ایم سی پر ڈالی جاتی ہے۔

موجودہ میئر ہی نہیں سابقہ میئر اور ناظمین بھی چیختے رہے ہیں کہ شہر میں جتنی بھی ایجنسیاں اور ادارے ہیں انھیں ایک چھتری کے نیچے لایا جائے اور مسائل کے مطابق وسائل دیے جائیں، آج بھی اس جانب توجہ نہیں دی جا رہی، کراچی کے ساتھ حسب معمول آئینی کھلواڑ کیا جا رہا ہے، منی پاکستان کو گزشتہ تین دہائیوں مٹّی پاکستان بنا دیا گیا ہے، 40 فیصد حصے کے مالک کو وسائل فراہم کیے بغیر سو فیصد شہر کی ذمہ دار ٹھہرانا ناانصافی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 149 کا معاملہ کوئی نیا نہیں ہے، یہ باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، گزشتہ تین عشروں میں مختلف سطحوں پر اور کئی تھنک ٹینکس میں اس پر غور کیا جاتا رہا ہے کہ کیا کراچی کو وفاق کے تحت دیا جا سکتا ہے یا اس طرح کا کوئی خصوصی اسٹیٹس دیا جا سکتا ہے۔ یہ بحث اس لیے ہوتی ہے کہ کراچی جتنا بڑا شہر ہے یہ اتنا ہی زیادہ غیر منظم ہے، اس کی وجہ سے جرائم ہوتے ہیں، مافیاز کا جنم ہوتا ہے، لاقانونیت، دہشت گردی اور لوٹ مار میں حکومتی کارندے، نوکرشاہی کے لوگ، امن و امان اور مالیات کے رکھوالے غرضیکہ ہر کوئی حصہ دار بن جاتا ہے، موجودہ کراچی اس صورت حال کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔

دہشت گردی، لاقانونیت اور مافیاز سے بلدیاتی حکومت نمٹ نہیں سکتی، صوبائی حکومت اپنی نااہلی اس طرح ثابت کرچکی ہے کہ گزشتہ 30 سال سے اس نے رینجرز کو رکھا ہوا ہے اور اس کے باوجود صورت حال قابو میں نہیں، کرپشن پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ وفاقی حکومت جس کے پاس مالی وسائل بھی ہیں، عسکری قوت بھی اور کرپشن سے نمٹنے والے ادارے بھی۔ لہٰذاموجودہ صورتحال میں اس کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر کردار ادا کرے۔ یہ کیسے اور کس طرح ہو گا یقینا آئین میں اس کی گنجائش ہو گی، اگر نہیں ہے تو آئینی ترمیم کی جائے، یہ وقت فروعی باتوں میں ضائع کرنے کا نہیں بلکہ عملی کام کرنے کا ہے۔

آئین کا آرٹیکل 9 14 کیا کہتا ہے، اس بحث میں الجھنے کے بجائے کراچی کے مسائل کے حل پرتوجہ دی جائے۔ اس کے لیے کسی بڑی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے، مشرف دور کے ناظمین کے دو دور سامنے ہیں جس میں مسائل حل بھی ہوئے اور شہر میں ترقی بھی ہوئی، اصل مسئلہ اختیارات کی تقسیم ہے۔ صوبائی حکومت اگر اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرے اور وفاقی حکومت وسائل مہیا کرے تو شہری مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح وفاق اور صوبہ مل کر مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ دہشت گردی اور مافیاز کا بھی قلع قمع کر سکتے ہیں۔

دونوں حکومتیں یوں تو دعووں کی حد تک امن و سکون بحال کرنے کی باتیں کرتی ہیں لیکن ان کے سیاسی اختلافات کا خمیازہ کراچی بھگت رہا ہے۔ امن و امان کے لیے جو کمیٹی بنی تھی اب وہ بھی نظر نہیں آتی۔ سندھ میں بلدیاتی حکومتوں کی معیاد ختم ہونے والی ہے، اس کے بعد بلدیاتی انتخابات ہوتے بھی ہیں یا نہیں یہ بھی ایک بڑا آئینی معاملہ بنے گا، لہٰذا فوری ضرورت ایسی آئینی ترمیم کی ہے جس کے ذریعے اختیارات نچلی سطح پر تقسیم ہوں اور انتخابات کا تسلسل رکنے نہ پائے۔

ٹاپ اسٹوریز