نیتن یاہو، کرسی یا جیل؟

اسرائیل میں انتخابات کے نتائج کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنجنمن نیتن یاہو اور ان کی سیاسی جماعت لیکود کو شکست سے دوچار ہو نا پڑا ہے وہ اکثریت حاصل نہیں کر پائے۔ بائیں بازو کے خیالات کی حامل جماعت بلیو اینڈ وائٹ نے برتری حاصل کر لی ہے۔ گو یہ برتری معمولی فرق سے ہے۔ نیتن یا ہو نے کامیاب ہونے والی جماعت کے لیڈر بینی گینٹس کے آگے مخلوط اتحادی حکومت بنانے کا آپشن رکھ دیا ہے لیکن گینٹس کا کہنا ہے کہ ہم مل کر حکومت بنانے کے لئے تیار ہیں لیکن کپتان کا رول وو خود ادا کریں گے۔

ٹرمپ کی زبان میں بی بی کہلائے جانےوالے دائیں بازو کے خیالات کی حامی پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو اور ان کے حامی 31 نشستوں پر جبکہ سینٹر لیفٹ بلاک 34 نشستوں  سے آگے ہیں۔

نیتن یاہو کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ نتائج تسلیم نہ کرنے کا بہانہ کر کے ملک کو ایک مرتبہ پھر انتخابات میں گھسیٹنے کی کوشش کریں۔ اسرائیل کی سیاست پر کئی دہائیوں سے چھائے ہوئے اور طویل ترین عرصے تک اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان نیتن یاہو کے لئے یہ شکست ہضم کرنا خاصا دشوار ہو رہا ہے۔ اس سے قبل سابق آرمی چیف اور بلیو ایند وائٹ کے سربراہ گینٹس نے انتخاب میں جیت کی صورت میں فلسطین کے ساتھ دو ریاستی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے امن قائم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ جبکہ نیتن یاہو نے انتتخابات سے قبل فتح کی صورت میں مزید فلسطینی علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا یہ نعرہ کہ وہ انتخاب جیت کر فلسطینی علاقے وادی اردن کو اسرائیل کا حصہ بنا لیں گے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ کیونکہ اگر حکومت کی کمان گینٹس کے ہاتھ میں رہی تو وہ فلسطین کے ساتھ مکمل امن کے خواہاں ہیں۔

اس معاملے پر دونوں سر کردہ شخصیات کا موقف شدید ٹکراو کا شکار ہونے کی بابت یہ اتحادی حکومت بنانے کی بیل منڈھے چڑھتے نظر نہیں آتی۔

اسرائیل کے سابق وزیراعظم عہد اولمارٹ نے سخت الفاظ میں نیتن یاہو کی سرزنش کرتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ

“نیتن یاہو کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ الیکشن ہار گئے ہیں اور اب ہمیں ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ وہ ایک نیا اتحاد بنا پائیں لیکن 2020 میں ایک نئے الیکشن کے آپشن کو مسترد نہیں کیا جا سکتا”

اسرائیل کے اخبار نے یہ سرخی بھی لگائی کہ کیا ٹرمپ نیتن یاہو کا الیکشن ہار گئے ہیں؟

یروشلم اور تل ابیب میں آویزاں صدر ٹرمپ اور وزیراعظم نیتن یاہو کے پوسٹرز بھی بے سود ثابت ہوئے۔ گولان کی پہاڑیوں پر فیصلہ بھی نیتن یاہو کی خوشنودی کے لئے کیا گیا تھا لیکن ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ کیا اس الیکشن میں ٹرمپ نے یاہو کا ساتھ چھوڑ دیا یا سمجھدار ووٹرز پر کوئی حربہ کار گر ثابت نہ ہو سکا۔ ٹرمپ کی حسن روحانی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار اور عرب میں امن کے قیام کی کوششوں کے حوالے سے بیانات نے دائیں بازو کے ووٹرز پر یقینا اثر ڈالا ہو گا۔ وجہ جو بھی رہی ہو نتیجہ نیتن یاہو کی شکست میں نکلا گو کہ یاہو کی انتخابی مہم مخالفین کے لئے خاصی کاٹ دار رہی جس میں مخالفین کو ہرانے کا ہر حربہ استعمال کیا گیا۔

ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ اسرائیل کا اگلا وزیراعظم کون ہو گا لیکن یہ طے ہو چکا ہے کہ نیتن یا ہو اس انتخاب کے نتیجے میں اگلے وزیراعظم ہونے کے امیدوار کا حق کھو چکے ہیں۔ البتہ ایک اور صورت یہ کہ ایک مرتبہ پھر انتخاب کی جانب بڑھا جائے گا لیکن یہ فیصلہ ملک میں کشیدگی پیدا کرے گا۔ گینٹس کا کہنا ہے کہ وہ مخلوط حکومت کے لئے تیار ہیں لیکن اسکے لئے نیتن یاہو کو جماعت سے نکالنا ہو گا۔ نیتن یاہو پر بد عنوانی اور رشوت ستانی کے الزامات ہیں اگر یاہو کو ان کی جماعت قبول کرنے سے انکار کر دے تو نہ صرف ان کا سیاسی کیرئر ختم ہو گا بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان کے لئے اپنے اوپرمقدمات سے بری ہونا بھی مشکل ہو جائے اور ان کو جیل جانا پڑے۔

یہ صورتحال پاکستان کی موجودہ سیاست سے اس حد تک مماثل ضرور ہے کہ نواز شریف تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن پھر کرپشن کے مقدمات میں ان کو سیاست نہ بچا سکی اور جیل جانا پڑا اسی طرح نیتن یاہو متعدد بار اسرائیل کے وزیراعظم رہ چکے ہیں لیکن اس شکست کے بعد اگر وہ سر توڑ کوشش کے باوجود مخلوط حکومت میں شامل نہیں ہو پاتے اور اپنی سیاسی حیثیت قائم نہیں رکھ پاتے تو ان کو بھی کرپشن کے جرائم پر جیل کی ہوا کھانا پڑے گی اس حوالے سے ان کا مستقبل بھی تاریک نظر آتا ہے کیونکہ لیبر مین سیکولر نظریات کے حامل ہونے کے باعث آثار یہی ہیں کہ ان کا جھکاو گینٹس کی طرف ہے۔ سابق وزیراعظم مشکل حالات سے نکلنے کے لئے صدر ٹرمپ کی جانب سے کسی معجزے کے منتظر ہیں۔

نیتن یاہو جو کہ لیکود سیاسی جماعت کے چئیرمین ہیں طویل ترین عرصے تک اسرائیل کے وزیراعظم رہے۔ وہ نوجوانی میں اسرائیل ڈیفنس فورسز کے لئے خدمات انجام دیتے رہے اس دوران انھوں نے آپریشن انفرنو اور آپریشن گفٹ میں حصہ لیا۔ کیپٹن کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر ہو گئے  ایم آئی ٹی Massachusetts Institute of Technology سے آرکیٹیکچر کی تعلیم حاصل کی اور بوسٹن کنسلٹنسی گروپ کے ساتھ بطور معاشی مشیر کام کرنے لگے۔ 1978 میں اسرائیل واپس جا کر وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کے عہدوں پر کام کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے ڈی این کے ذرئعے کھوج لگائی کہ وہ اسپین سے تعلق رکھنے والے سپہارڈی یہودی ہیں۔ اس وقت ان پر بد عنوانی کے کئی مقدمات چل رہے ہیں جس میں بنام کیس 1000 اور کیس 2000 بھی ہیں۔ ان دونوں کیسز میں سابق وزیراعظم پر ہالی ووڈ پروڈیوسرز سمیت متعدد با اثر شخصیات سے فوائد اور رشوتیں لینے کے الزام ہیں۔ اگر وہ اپنے اپ کو سیاسی عہدے پر برقرار رکھنے میں کامیاب رہے تو شائد ان مقدمات سے بھی بچ جائیں وگرنہ ان کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔

ٹاپ اسٹوریز