کراچی کا المیہ

کراچی کے کچرے پر فریقین کی الزام تراشیاں

کراچی کے ساتھ حکمرانوں نے وہ ظلم کیا ہے کہ شاید دشمن بھی ایسا نہ کرے۔ پورے ملک کو پالنے والا کراچی اب اس ملک کے رحم و کرم پر ہے۔ عمران خان کے نہیں ذوالفقار علی بھٹو کے نئے پاکستان یعنی پاکستان کے دولخت ہونے، مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد مغربی پاکستان کو بھٹو صاحب نے نیا پاکستان کہہ کر ازسر نو تعمیر شروع کی تھی۔

یہ وقت 1972 کا ہے یعنی پچاس سال ہونے کے قریب ہیں ان سالوں میں کراچی پر براہ راست سندھ حکومتیں قابض رہی ہیں۔ 20 سال بلدیاتی حکومتیں بھی آئیں لیکن وہ بلدیاتی حکومتیں محکمہ بلدیات کے 17 گریڈ کے ایک سیکشن کی مار رہی تھیں۔ اس کا مظاہرہ ہم 80 کی دہائی میں میئر عبدالستّار افغانی کی بلدیاتی حکومت کے حشر کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ یہ 20 سال فوجی حکومتوں کے تھے سول حکومتوں کو توفیق ہی نہیں ہوئی کہ بلدیاتی انتخابات کراتیں۔

2015 کے بلدیاتی انتخابات بھی عدالت کے حکم پر بحالت مجبوری کرائے گئے انتخابات تو کرادئے مگر بلدیاتی اداروں کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے۔  نتیجہ یہ نکلا کہ آج کراچی کچرا سٹی اور ادھڑا سٹی بن گیا ہے۔کراچی کے ساتھ ہونے والے اس ظلم میں صوبائی اور بلدیاتی دونوں حکومتیں شامل ہیں۔ صوبائی حکومتوں اور ان کی بیوروکریسی نے تو کبھی اس شہر کو اپنا جانا ہی نہیں، بلدیاتی حکمران بھی ان سے پیچھے نہیں رہے آج دونوں آپس میں زبانی گتھم گتھا ہوکر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دونوں حکومتوں نے ایک نیا ڈرامہ شروع کیا ہے۔ شہر کو صاف کرنے کے لیے صفائی مہم شروع کی ہے۔ اس سے بڑا  قوم کے ساتھ اور کیا مزاق ہوسکتا ہے جو کام حکومتوں کی ذمہ داری ہے اسے ایک مہم کے تحت نبھانے کی کوشش کی جارہی ہے ایسی مہم پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اب بھی فوٹو سیشن ہوں گے۔ پھر وزیر اعلیٰ ، وزیر بلدیات، میئر اور چیئرمین صاحبان اپنے اپنے گھر۔

گزشتہ دنوں شہر میں  اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر انکروچمنٹ کے خلاف بھی  ایک مہم چلائی گئی تھی شہر بھر میں عشروں پرانی تعمیرات توڑ دی گئیں تھیں کیا وہ کامیابی  سے ہم کنار ہوئی؟ توڑی جانی والی تعمیرات کا ملبہ آج بھی سوال کررہا ہے اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر صدر کا علاقہ خاص طور ایمپریس مارکیٹ کو صاف  کرنے کی جو بڑے زور شور سے مہم چلائی گئی تھی اس کا کیا ہوا کیا علاقہ صاف ہوگیا؟آج بھی منظر وہی ہے جو مہم شروع کرنے سے پہلے تھا

ملک خاص طور سے سے سندھ میں آرٹیکل 149 کی گونج ہوئی تو صوبائی حکومت کو صفائی کا خیال آگیا کیا صوبائی حکومت شہر کو صاف کرسکے گی یا حسب سابق شہر کا کچرا اسی طرح بدبو دیتا رہے گا نالے اسی طرح بند رہیں گے میئر کراچی تو دعوٰی کرچکے ہیں کہ اس تھوڑے اختیار اورپیسوں میں نالے صاف ہو ہی نہیں سکتے کوئی کر بھی نہیں سکتاپھر کس طرح وہ سڑک پر آگئے ہیں وزیراعلیٰ اور میئر صاحب صفائی کے لیے اٹھ کھڑے تو ہوئے ہیں کیا انھوں نے ڈیٹا جمع کیا ہے  وہ شہریوں کو بتائیں گے کہ شہر میں روز کتنا کچرا  پیداہوتا ہے اور اسے اٹھانے کے لیے کتنی افرادی قوت اور سرمایہ درکار ہے کیا وسائل مہیا کیے گئے ہیں یا صرف فوٹو سیشن کرانا ہے اور آرٹیکل  149کے جواز کو فوٹوز اور فوٹیز سے ختم کرنا  مقصودہے ۔یہ بھی قوم کو بتائیں کتنے دن میں یہ مہم کامیاب ہوگی لوگ کوڑے کرکٹ اور گٹر کے ابلنے سے صاف سڑک اور گلی سے کب گزریں گے!اگلے ماہ بلدیاتی حکومتوں کی مدت پوری ہونے جارہی ہے نئے انتخابات کے حوالے سے کوئی ہل جل دکھنے میں نہیں آرہی لگتا ہے ایک مرتبہ پھر بلدیاتی انتخابات کو گول کرجانے کا ارداہ کرلیا گیا ہے،آئین کے آرٹیکل 149 کی بازگشت کے بعد مختلف جانب سے ایسے اشارے سامنے آرہے ہیں کہ صوبائی حکومت اس موڈ میں نہیں کہ وہ بلدیاتی انتخابات کرائے اور سپریم کورٹ کے سابقہ حکم کی ایسی فوری اور ہنگامی صورت بھی بنتی نظر نہیں آتی کہ صوبائی حکومت وقت پر بلدیاتی انتخابات  کرانے پر مجبور ہوان حالات میں ایک حلقہ یہ کہتا نظر آرہا ہے موجودہ صورتحال اور موجودہ نظام کراچی کے مسائل کا حل پیش نہیں کرتے کراچی کا واحد حل اس کا ایک اسپیشل اسٹیٹس ہی ہے اور اسٹیٹس صوبائی حکومت کے دائرے میں بھی ہوسکتا ہے جس طرح پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام میں تھا۔

عمرانیات،سماجیات،سیاسیات اور معاشیات  کے ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ اتنا  بڑا شہر جو دنیا کے کئی ملکوں سے بڑا ہے اسے ایک عام شہری نظام کے تحت نہیں چلایا جاسکتا اس شہر کے لیے ایک ملک جیسے نظام اور وسائل کی ضرورت ہے دنیا کے کئی ممالک کے بڑے شہر اپنا نظام زندگی چلانے کے لیے ایک خود مختار شہری نظام رکھتے ہیں کراچی کو ہر کام کے لیے صوبائی حکومت کی طرف دیکھنا پڑتا ہے 20  سال پہلے تک بلدیاتی حکومتوں کی سب سے بڑی آمدنی آکٹرائے سے ہوا کرتی تھی جسے نواز شریف حکومت نے ختم کرکے ان ادروں کو اپاہج کردیا دوسر ی آمدنی موٹر وہیکل ٹیکس تھا جسے صوبائی حکومت نے لے لیا اس  طرح پراپرٹی ٹیکس بھی بلدیاتی اداروں کا ہوتا ہے،پھر بلدیاتی اداروں کی وسیع اراضی پر کنٹرول بھی صوبائی حکومتوں کا ہوگیا ہے یعنی عملی طور پر بلدیاتی حکومتیں صوبائی حکومت کی محتاج ہوگئیں کس طرح وہ شہری نظا م چلائیں۔ لندن کا میئرملکہ برطانیہ اور وزیراعظم برطانیہ کا محتاج نہیں نہ ہی نیویارک کا میئر گورنر اور صدر کا محتاج ہے ان شہروں کے میئر اپنے شہروں کا معاشی نظام تعلیمی نظام،صحت کا نظام یہاں تک کہ امن امان کانظام بھی خود سنبھالتے ہیں ٹیکس لگانا اور ٹیکس جمع کرنا اور ایک منصوبے کے تحت اسے خرچ کرنا شہری حکومتوں کی ہی ذمہداری ہوتی ہے کراچی کا المیہ یہ ہے کہ نہ تو کوئی بڑا ٹیکس اس کے پاس ہے اور نہ اب اس کی کوئی زمین بچی ہے جہاں سے وہ آمدنی حاصل کر سکے البتّہ ساری خدمات اس کے حوالے ہیں دوسرا المیہ ہے کہ کوئی حکومت  اس شہر کو اپنانے کے لیے تیار نہیں۔اس کے لیے بھی اپنا کراچی مہم چلائی گئی ظالموں نے وہ بھی کامیاب نہیں ہونے دی جب تک اس شہر کے لوگ اسے اپنا ئیں گے نہیں  شہر بدلے گا نہیں۔۔

ٹاپ اسٹوریز