ٹرمپ مودی داستان محبت

دنیا بھر کے قائدین اس وقت امریکہ میں موجود ہیں۔ اگرچہ دنیا کو درپیش دیگر بڑے مسائل بھی زیر بحث ہیں لیکن مسئلہ کشمیر، پاک بھارت تعلقات میں امریکہ کا کردار اور بھارتی وزیراعظم کا امریکی انتخابی سیاست میں اچانک داخلہ بھی ہر طرف موضوع بحث ہے۔

تو کیا بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران ریاست ٹیکساس کے شہر ہوسٹن میں ‘ہاوڈی۔ مودی’ نامی جلسے کے ذریعے امریکی صدارتی الیکشن میں مداخلت کی بنیاد رکھ دی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونے پر مہر ثبت کر دی ہے۔

وہ اتوار کون بھول سکتا ہے جب ہوسٹن میں ریلی کے دوران مودی اسٹیج پر امریکی صدر کی موجودگی پر پھولے نہیں سما رہے تھے اور دونوں خوب گرم جوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ جلسے میں امریکہ میں رہائش پذیر 50 ہزار بھارتی باشندے شریک تھے۔ امریکی صدر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ‘ہاوڈی۔ مودی’ تاریخی اہمیت کا حامل لمحہ ہے۔ دونوں کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی، انگلش میں ایک دوسرے کی تعریف ان کے دوستانہ تعلقات کا مظہر تو تھی تاہم مودی کا ہندی میں نعرہ بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے۔

مودی نے کھل کر صدر ٹرمپ کی قائدانہ صلاحیتوں، اپنی قوم کی ترقی کیلئے جوش و جذبے، امریکی شہریوں کی فلاح اور امریکہ کو دوبارہ عظیم ملک بنانے کے جذبے و عزم کی تعریف کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنے اقدامات کے ذریعے امریکی معیشت کو دوبارہ مستحکم کر چکے ہیں، انہوں نے نہ صرف ہمارے بلکہ پوری دنیا کے لئے بہت کچھ کیا ہے، بھارت میں رہنے کے باوجود وہ ہمارے دل کے بہت قریب ہیں۔

اس پر مودی کے چہر ے پہ ایک مسکراہٹ آئی اور انہوں نے ” اب کی بار ٹرمپ سرکار” کا زوردار نعرہ لگا ڈالا۔ مودی کا یہ پسندیدہ نعرہ ہے کیونکہ وہ بھارت میں “اب کی بار مودی سرکار” کے نعرے پر ہی سوا ر ہو کر 2014 میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیا ب ہوئے تھے۔ کہا جاتاہے کہ بھارتی تاریخ میں یہ سب سے پسندیدہ اور پرکشش انتخابی نعرہ تھا۔ مجھے یہاں 2016 میں صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران ٹی وی پر چلنے والا ایک اشتہار بھی یاد آ رہا ہے جس میں انہوں نے بھارتی کمیونٹی سے ووٹ کی اپیل کرتے ہوئے ایک طرح سے مودی جی جیسا ہی نعرہ لگایا تھا۔

ایک ایسے وقت جب صد ٹرمپ ایک بار پھر الیکشن کے میدان میں اترنے کی تیاریاں کر رہے ہیں، ہوسٹن جلسے میں مودی کی جانب سے ” اب کی بار ٹرمپ سرکار” کا نعرہ دراصل امریکہ کی اندرونی انتخابی سیاست میں معتصبانہ دخل اندازی کے مترادف ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے یہ نعرہ لگا کر درحقیقت دوسرے ملکوں کے انتخابی عمل میں دخل اندازی نہ کرنے کے عالمی خارجہ پالیسی کے اصولوں کی دھجیاں اڑ دی ہیں۔ اگرمودی کے جلسے میں صدر ٹرمپ کی موجودگی کو بھارتی اہمیت کی دلیل قرار بھی دیا جائے تو پھر بھی اس حقیقت سےانکار ممکن نہیں کہ اس طرح اثرو رسوخ کے استعمال سے یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے مسٹر مودی ایک اسٹار کی حیثیت سے امریکی انتخابی سیاست میں باضابطہ شریک ہیں۔ جلسے کے اختتام پر ٹرمپ اور مودی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پرجوش نعروں کی گونج میں خود تو رخصت ہو گئے، لیکن پیچھے ان گنت سوالات بھی چھوڑ گئے۔

ایسا نہیں کہ ہوسٹن جلسے کے دوران ہر طرف ہی خوشیوں کے شامیانے بج رہے تھے۔ اگر اسٹیڈیم کے اندر بھارتی وزیراعظم ہاتھ ہلا کر نعروں کا جواب دے رہے تھے تو اسی اسٹیڈیم کے باہر کشمیر میں بھارتی مظالم اور طویل عرصے سے نافذ کرفیو کے خلاف بھرپور احتجاج بھی ہو رہا تھا۔ مظاہرین بھارتی حکومت کی جانب سے 5 اگست کو کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کرنے کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ مودی کےخلاف نعرے گونج رہے تھے اور دونوں رہنماؤں کی توجہ کشمیر میں طویل لاک ڈاؤن، کرفیو اور مقامی تحریک روکنے کے حربوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

معاملہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ کشمیر میں ظلم پر اب توخود بھارتی بھی آوازیں اٹھانا شروع ہو گئےہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سرگرم ہندو خاتون سنیتا وشوناتھ نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ہے،

“ہم تو خود حیران اور خوفزدہ ہیں کہ ہمارے مذہب کو انتہا پسندوں اور قوم پرستوں نے ہائی جیک کر لیا ہے، ہر طرف زبان بندی ہے، مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے، جمہوریت بس برائے نام ہے، ہر طرف بدامنی ہے اور بے گناہوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے”۔

کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے پوری دنیا اس پر تنقید کر رہی ہے لیکن مجال ہے جو بھارتی سرکار کو کوئی ہوش آیا ہو۔ بھارتی حکومت نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ کشمیر اور وہاں کیے گئے تمام اقدامات اس کا اندرونی معاملہ ہیں۔ اسے امید تھی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر مسئلہ کشمیر کسی جگہ زیر بحث نہیں آئے گا، لیکن بھارتی وزیراعظم خود ہی ہوسٹن جلسے میں بول پڑے ہیں۔ مودی کا کہنا ہے کہ کشمیر کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا مقصد مسلم اکثریتی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانا ہے، تاہم اگلی ہی سانس میں وہ پاکستان پر بھی برس پڑے۔ نام لئے بغیر کہا کہ ایسے لوگوں کو بھی بھارتی فیصلے سے مسئلہ ہے جن سے اپنا ملک نہیں سنبھل رہا اور وہ لوگ دہشت گردی کے حامی ہیں۔

دوسری جانب پاکستان بھی خاموش نہیں ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے نیویارک میں ملاقات کی اور ایک بار پھر ان سے کہا کہ کشمیر کے معاملے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ صدر ٹرمپ نے قدرے محتاط رویہ اپناتے ہوئے ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش تو کی تاہم یہ شرائط رکھ دیں کہ پہلے دونوں رہنما تیار ہوں اور چند نکات پر اتفاق ہو جائے تو میں ثالث بنوں گا اور ناکام نہیں ہوں گا۔ انہوں یہ بھی کہا کشمیر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو طویل عرصے سے چل رہا ہے۔

اس سے پہلے تھنک ٹینک ‘کونسل فار فارن ریلیشنز’ میں وزیراعظم عمران خان نے بھی نام لئے بغیر مودی کو جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر جب بین الاقوامی ثالثی کی بات کی جاتی ہے تو بھارت اسے دو طرفہ مسئلہ قرار دیتے ہوئے ایک ہی سانس میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر دیتا ہے، بھارتی حکومت نے کرفیو لگا کر 80 لاکھ کشمیریوں کو محصور کر رکھا ہے۔ عالمی برادری کرفیو کے خاتمے کے لیے دباؤ کیوں نہیں ڈالتی؟

یہاں ملین ڈالر سوال اٹھتا ہے؟ کیا وزیراعظم پاکستان عمران خان امریکہ کے ڈیموکریٹک صدارتی امیدواروں کی حمایت حاصل کر سکتےہیں؟ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ری بپلکنز کے قریب رہی ہے لیکن اب امریکہ کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدل چکا ہے۔ اس وقت برنی سینڈرز کے علاوہ ڈیموکریٹ پارٹی کے کسی بڑے رہنما نے کشمیر کے معاملے پر آواز نہیں اُٹھائی۔

توکیا پاکستان کو ڈیموکریٹس کی (واضح طور پر) حمایت حاصل کرنے کی مہم شروع کر دینی چاہئے؟ صدارتی دوڑ میں شامل جوبائیڈین کا پلڑا ماضی میں بھارت کی جانب جھکا رہا ہے تو کیا اب اُن پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اب باقی تو الزبتھ وارن اور برنی سینڈرز ہی صدارتی امیدوار رہ گئے ہیں جنہوں نے سینیٹ کی اس مجوزہ قراراد کی حمایت کی ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ مغربی کنارے کے بعض علاقوں کا یکطرفہ الحاق دو قومی حل کے لئے تباہ کن ثابت ہو گا اور اسرائیل کے عرب پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچے گا، اسرائیل کی اپنی یہودی اور جمہوری شناخت کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں گے اور خود اسرائیل کا امن بھی داؤ پر لگ جائے گا۔

دوسری جانب سابق نائب صدر جو بائیڈین ہیں جنہوں نے 2020 کے صدارتی الیکشن کی انتخابی مہم کے لئے مودی کے ایک متحرک حامی کی بطور کیمپین ڈائریکٹر خدمات حاصل کر لی ہیں تا کہ امریکہ میں رہائش پذیر ایشیائی باشندوں کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ اگرچہ مودی وہ ہندو قوم پرست ہے جس کو بھارتی گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے مسلمانوں کا قتل عام روکنے میں ناکامی پر کئی سال تک امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں مل سکی تھی ، لیکن اس وقت صدر ٹرمپ اور جو بائیڈن، دونوں ہی بھارتی فاشٹ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔

جس وقت مودی اور صدر ٹرمپ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے دوستی اور پیار کی پینگیں بڑھا رہے تھے، اسی وقت کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر ہر طرف انگلیاں اٹھ رہی تھیں۔

سینیٹر اور ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار بیرنی سینیڈرز کہتے ہیں کہ مودی اور ٹرمپ کا جلسہ ایسے وقت میں ہو ا جب کشمیر میں مسلسل لاک ڈاؤن ہے، جب صدر ٹرمپ ہوسٹن میں مودی سے ملے تو امریکی اور بھارتی عوام کے درمیان دوستی اور محبت کی بلند و بانگ باتیں ہوئیں لیکن اپنی آنکھوں کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور وہاں پیدا ہونے والے بحران سے نظریں چرانا مجرمانہ فعل سمجھا جائے گا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیری عوام کو ادویات تک دستیاب نہیں ، بھارٹی ڈاکٹرز نے بھی اپنی حکومت کی توجہ اس طرف دلائی ہے، کشمیریوں کو ان کے علاج اور زندہ رہنے کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ معروف اخبار Houston Chronicle میں لکھتے ہیں کہ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطا بق کشمیر میں مریضوں کو کیموتھراپی اور ڈائلسز تک بھی رسائی نہیں، لیکن صدر ٹرمپ نے ان زیادتیوں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ انہیں بھارت سے کہنا چاہئے کہ یہ پابندیاں اٹھائے اور موصلاتی رابطے بحال کرے۔

مزید لکھتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان نے بھی بعض اوقات کشمیر میں اچھا کردار ادا نہیں کیا لیکن پھر بھی امریکی صدر کو واضح طور پر انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی پاسداری، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے آواز اٹھانی چاہیے۔ بیرنی سینیڈرز اس بات کو بدقسمتی سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے وہ کردار نبھانا ترک کر دیا ہے جس کے تحت امریکہ کو عالمی لیڈر کے طور پر پیش ہونا ہے۔

کشمیر میں کریک ڈاؤن پر صدر ٹرمپ کی مسلسل خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ وہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خاطر آواز اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ ادھر ہوسٹن میں اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ کے سالانہ کنونشن سے خطاب میں بیرنی سینیڈرزنے کہا کہ کشمیر میں جو گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے انہیں اس پر گہری تشویش ہے۔ امریکی حکومت کیلئے یہ خاموش بیٹھنے کا نہیں بلکہ کھل کر حق و سچ بات کرنے کا وقت ہے۔ امریکی حکومت کو اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کی لازمی حمایت کرنی چاہئے۔

اس وقت دنیا بھر کی اعتدال پسند قوتیں اور پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا پر امن چاہتے ہیں لیکن بھارت روز اول سے ہی پاک بھارت باہمی معاملہ قرار دیتے ہوئے اس میں کسی تیسرے فریق کی شرکت کو یکسر مسترد کرتا آیا ہے۔ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں، اس لئے سپر پاور امریکہ اور دیگر قوتوں کو مداخلت کرتے ہوئے مسئلے کا قابل قبول حل تلاش کرنا چاہئے تاکہ صورتحال اُس نہج تک نہ پہنچنے پائے کہ جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔

ٹاپ اسٹوریز