عالی دماغ

آوازہ

سراج منیر مرحوم کو بس دو ایک بار ہی دیکھا۔ یہ سن اکیاسی یا بیاسی کی بات ہو گی۔ اشفاق احمد کاشف اور میری دوستی ہو چکی تھی۔ محمد حمید شاہد سے بھی دوستی تھی لیکن وہ عمر میں کچھ بڑے تھے اور علم میں بڑے تو تھے ہی اس لیے آوارہ گردی کے منصوبے بناتے ہوئے ہم انھیں خبر کرنا مناسب نہ سمجھتے۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہو چکی تھیں۔ گھر کے سودا سلف سے بچائے ہوئے پیسے اتنے ہو چکے تھے کہ لاہور یاترا ہو جاتی، بس، اشفاق کو خط لکھا اور پوچھا، کیوں پارٹنر! تیار ہو؟ پارٹنر تیار ملا اور یوں ہم لاہور جا پہنچے۔ لاہور میں ہم لوگ سارا دن لور لور پھرتے لیکن شام کو پاک ٹی ہاؤس جا پہنچتے یا چائنیز لنچ ہوم۔ کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ وہ شام ہم نے چائنیز لنچ ہوم میں گزاری جہاں ڈاکٹر تحسین فراقی کے حلقہ ادب کا اجلاس تھا۔

یہ اجلاس اس ریسٹورنٹ کے تہہ خانے میں ہوا کرتا تھا۔ یہ چائے خانہ ہے تو شاہراہ قائد اعظم (مال روڈ) پر لیکن اس کا محل وقوع اس شاہراہ کے دیگر حصوں سے خاصا مختلف ہے کیونکہ سڑک اور عمارت کے درمیان لوہے کے جنگلے والا ایک قطعہ سبز حائل ہے پھر اس قطعے کے بعد ایک راہداری سی ہے جو پاک ٹی ہاؤس سے لے کر انار کلی بازار تک پھیلی ہوئی ہے جس پر اس زمانے میں ادیب شاعر سیگریٹ کے سوٹے لگاتے یہاں سے وہاں مٹر گشت کیا کرتے۔

ان مناظر نے اس قطعے کو سکون کی ایک ایسی کیفیت عطا کردی تھی جس کی یاد آج بھی ذہن کو طراوت بخشتی ہے۔ یوں لگتا تھا کہ قدرت نے یہ پرسکون جگہ کسی خاص مقصد کے لیے اپنے ہاتھوں سے تراشی ہو گی۔ اب بھی میں جب کبھی لاہور جاتا ہوں تو گاڑی سے گردن باہر نکال کر دیر تک اس جگہ کو دیکھا کرتا ہوں۔ اس دور کی یاد آئی تو یاد ماضی نے یلغار کی اور یہ قصہ تھوڑا طویل ہو گیا۔ خیر، لوگ باگ اس چائے خانے میں داخل ہوتے تو ناک کی سیدھ تہہ خانے کی سیڑھیوں کا رخ کرتے جن کی دیوار جیسی ریلنگ ادیبوں کے نوٹس بورڈ کا کام دیتی۔ اسی نوٹس بورڈ سے معلوم ہوا کہ آج یہاں سراج منیر مضمون پڑھنے والے ہیں۔ انھوں نے کیا مضمون پڑھا، کس موضوع پر پڑھا، یہ تو بالکل یاد نہیں لیکن تین باتیں ایسے یاد ہیں جیسے یہ کل ہی کی بات ہو۔

سیکریٹری حلقہ نے جب انھیں مضمون پڑھنے کی دعوت دی تو خاموشی چھا گئی گویا سانس روک لیے گئے۔ لوگوں کا سانس اس وقت ٹوٹا جب مضمون ختم ہوا۔ مضمون مکمل ہوا تو اس پر بحث شروع ہو گئی۔ مجھے یاد ہے، اجلاس کے اس حصے میں تھوڑی دیر پہلے کی خاموشی کی ساری کسر نکل گئی لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ یہ لاوا جس تیزی سے ابلا تھا، اسی تیزی سے رک بھی گیا۔ میں نے دیکھا، سراج منیر اس تند و تیز بحث کے دوران بیٹھے مسکراتے رہے۔

تیسری یاد کا تعلق اس وقت سے ہے جب یہ اجلاس ختم ہوا، عطا الحق قاسمی لپک کر صاحب مضمون کی طرف بڑھے اور مسکراتے ہوئے کہا،

”سراج! ایہہ مضمون میرے حوالے کر دے“۔

اور سراج منیر نے تہہ کیے ہوئے صفحات قاسمی صاحب کے حوالے کر دیے اس کے بعد ایک قہقہہ لگایا۔ مجھے بالکل یاد نہیں کہ سراج منیر اس وقت سگرٹ پی رہے تھے یا نہیں یا وہ سگریٹ پیتے بھی تھے یا نہیں لیکن ان کے بے تکلف اور بلند آہنگ قہقہے کے دوران جب میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں ان کے گہرے سانولے ہونٹوں کے بیچ چمکتے ہوئے دانتوں کے ساتھ مختصر سی جھلک مسوڑھوں کی بھی دکھائی دے گئی اور میں نے طے کر لیا یہ شخص بلا کا سگریٹ نوشی ہے۔

اللہ مجھے معاف کرے، یہ لکھتے ہوئے مجھے کسی قدر شرمندگی بھی ہو رہی ہے کہ اس روز میرے ذہن میں یہ خیال کیوں آیا تھا، شاید اس وجہ سے کہ اس قہقہے میں یاس کی ایک عجیب، بے نام سی جھلک مجھے دکھائی دی، ایک ایسی نادرجھلک جو قدرت کی مہربانی سے کسی داستان گو کو اس کی زندگی میں بس ایک آدھ بار ہی دکھائی دیتی ہے۔

سراج منیر سے متعلق دوسری یاد کا تعلق دفتر تکبیر سے ہے جہاں وہ صلاح الدین صاحب سے ملنے آئے تھے۔ اس زمانے کو نوے کی دہائی کی سیاست کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم اور میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب ہوا کرتے تھے۔ سیاست میں تلخی تھی اور برداشت کا خانہ کچھ ایسے ہی خالی تھا جیسے ان دنوں سوشل میڈیا بھیجے سے خالی ہے۔

صلاح الدین صاحب میاں صاحب کے طرف دار تھے اور ان کے مہمان یعنی سراج منیر میاں صاحب کے نفس ناطقہ۔ شہید صلاح الدین صاحب کے دفتر میں اس روز جو باتیں ہوئیں، ان کی تفصیل کا تو یہ موقع نہیں، البتہ اتنا کہنے میں کوئی ہرج بھی نہیں کہ پیپلزپارٹی کے بارے میں سراج منیر کی گفتگو سن کر صلاح الدین صاحب بہت راضی ہوئے جن کی صحافت کا ایک بڑا مقصد ہی یہی تھا کہ جس طرح سے بھی ہو، بھٹو کی باقیات کا خاتمہ ہو جائے۔

سراج منیر کے جانے کے بعد دفتر میں دیر تک ان کا تذکرہ رہا پھر گفتگو کا رخ سیاست کی طرف پھر گیا لیکن اس سے پہلے کہ موضوع بدلتا صلاح الدین صاحب نے عینک اتار کر میز پر رکھتے ہوئے کہا، بلا کا ذہین ہے یہ شخص۔ لحظہ خاموش رہے پھر کہا، سمجھ میں نہیں آتا کہ علم وادب کی دنیا سے اس کی مراجعت سیاست کی طرف کیوں ہو گئی، سیاست کے جھمیلے ہم سے ایک ہونہار ادیب چھین لیں گے۔ سراج منیر اپنے اس میزبان کے سامنے بائیں جانب کرسی ٹیڑھی کر کے بے تکلفی یا یوں کہہ لیجئے کہ تھوڑا پسر کر بیٹھے تھے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میرے جانے پہچانے قہقہے لگا رہے تھے۔ میرے ذہن میں ایک بار پھر ویسے ہی خیالات رینگنے لگے، اگر یہ شخص سگریٹ پیتا ہو گا تو کون سا سگریٹ پیتا ہوگا؟

سراج منیر سے متعلق تیسری یاد دل غم سے بھر دینے والی ہے۔ ایک صبح جب میں یونیورسٹی پہنچا تو حسب عادت استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کے دفتر پر نگاہ ڈالی۔ دروازہ کھلا تھا، اندر داخل ہوا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہمیشہ خوش و خرم رہنے والے استاد محترم اداس بیٹھے تھے۔ میرے بیٹھنے پر انھوں نے ٹھنڈی آہ بھری اور مرحوم کو یاد کیا پھر ان کے ایک نجی فیصلے کا ذکر دکھ کے ساتھ کیا اور کہا بس، اسی بلا نے تو ہم سے ہمارا دوست چھین لیا، آہ!

ٹاپ اسٹوریز