تقریر کیسی تھی؟

“اگر دونوں ممالک کے بیچ روایتی جنگ کا آغاز ہوا تو جناب صدر مجھے کہنے دیجئے کہ جو ملک اپنے ہمسائے سے سات گنا چھوٹا ہو اسکے پاس دو ہی راستے ہوں گے کہ یا تو آپ ہتھیار ڈال دیں اور یا پھر اپنی آزادی کے لئے آخری دم تک لڑیں۔ آپ بتائیے ایسی صورت میں ہم کیا کریں گے؟ میں نے اپنے آپ سے یہ سوال پوچھا اور میرا جواب تھا کہ ہم لڑیں گے۔ اور جب ایٹمی طاقت کا حامل ملک اپنی بقا کی جنگ لڑے گا تو اسکے نتائج سرحدوں سے باہر بہت دور تک جائیں گے۔ یہ اقوام متحدہ کے لئے ایک امتحان ہے۔ ”

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے جنگ کے دنوں میں محبت کی بات کی ہے اور بار بار نشاندہی کی کہ کشمیر میں کرفیو ختم ہونے کے بعد قتل و غارت گری کا خطرہ ہے جو خطے کے امن کو برباد کر دے گا۔ کسی نے اس تقریر کو وزیراعظم کا باونسر کہا، کسی نے چھکا تو کسی نے آؤٹ قرار دیا۔ میرے نزدیک یہ کثیرالجہتی تقریر تھی جس کا رنگ آفاقی تھا۔

وزیراعظم عمران خان کی یہ تقریر نہ تو جذباتی تھی نہ ہی پرجوش اور نہ ہی لفاظی سے بھر پور بلکہ ایک پراعتماد شخص کی جانب سے بولا جانے والا ہر جملہ دل سے نکلا اور تقریر کا لب لباب انسانیت کی بقا پر مرتکز تھا۔

وزیراعظم نے بڑے نپے تلے لیکن با رعب اور مستحکم لہجے میں دنیا کو یہ سمجھا دیا کہ کشمیر کے مسئلے پر جنگ ہوئی تو پاکستان اپنی بقا کے لئے کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرے گا۔ یہ ایک انتہائی حقیقت پسندانہ تجزیہ تھا۔ یہ کہنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ کشمیر کا مسئلہ کسی پرامن حل کی طرف جاتا دکھائی نہیں دیتا اور ہندوستان کی جانب سے گذشتہ کچھ عرصے میں آزاد کشمیر کے حوالے کافی بے سروپا باتیں دھمکی بھرے لہجے میں کہی گئیں۔

لیکن کیا اس تقریر کے بعد کشمیر کی صورتحال پر کچھ تبدیلی ہو گی؟ ایسا کہنا مشکل ہے کیونکہ نریندر مودی اپنے موقف سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں اور صدر ٹرمپ کی جانب سے یہ کہہ دیا گیا ہے کہ میں تو ثالثی کرانا چاہتا ہوں لیکن وزیراعظم مودی نہیں مانتے۔

نظر یہی آتا ہے کہ کشمیر میں کرفیو کے بعد بہت قتل عام ہو گا۔ اسی ڈر سے 50 سے زائد دن کے بعد بھی کرفیو ختم ہونے کے آثاار نظر نہیں آتے۔ کیا اقوام متحدہ، پاکستان کے وزیراعظم کی اس تقریر کے بعد کشمیر کو اپنے لیے واقعی ایک امتحان سمجھے گا اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جائے گی؟ اس کا اندازہ اگلے چند روز میں ہو جائے گا۔

صدر ٹرمپ جہاں ایک طرف وزیراعظم مودی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مجمع کا چکر لگاتے ہیں تو وہیں ایک صحافی کے اس سوال کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ میں نے وزیراعظم عمران خان کی یہ بات نہیں سنی جس میں انھوں نے القائدہ کے حوالے سے کوئی بیان دیا۔ ان کے اس بیان سے جہاں وزیراعظم نریندر مودی کے چہرے پر مایوسی نظر آئی وہیں اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ صدر ٹرمپ کو ووٹوں کی بھی ضروت ہے لہذا اس وقت وہ برصغیر کے ان دونوں ممالک کی امریکہ میں موجود کمیونٹی کو ناراض کرنے کے روادار نہیں۔ وہ دونوں وزرائے اعظم کو اس وقت تک بہلائے رکھیں گے جب تک ان کا اپنا معاملہ نسلجھ نہیں جاتا۔

وزیراعظم پاکستان کا گذشتہ دورہ امریکہ کامیاب رہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی بات کر دی۔ لیکن اسکے بعد کشمیر پر نریندر مودی کے جابرانہ اور جارحانہ اقدام نے ثالثی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ موجودہ دورہ اب تک کے وزرائے اعظم کی بہ نسبت مصروف ترین رہا۔ عمران خان مسلسل میٹنگز اور پریس کانفرنس میں مصروف ہیں، سربراہوں سے ملاقاتیں بھی جاری رہیں اور میڈیا کو انٹرویوز بھی۔

گو کہ کچھ لوگوں کو اعتراض رہا کہ اتنی پریس کانفرنسز کی کیا ضرورت ہے یا اتنے مصروف دورے کا فائدہ؟ لیکن اگر وہ اتنے مصروف نہ ہوتے تو کہا جاتا دوسروں کو دیکھو کیا کچھ کر رہے ہیں اور ایک ہمارا وزیراعظم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ ماضی میں نواز شریف پر کئی بار ایسی تنقید کی گئی۔ اب اگر یہ عمران خان مصروف ہیں تو بھی اعتراض۔۔

حسب معمول اس دورے کے دوران بھی خان صاحب ایسا بیان دینے سے باز نہ آئے جس پر دانتوں میں انگلیاں دبانا ضروری تھا ۔ القاعدہ کو ہم نے تربیت دی۔ لیکن اب ہم وزیراعظم کے غیر معمولی جملوں کے اتنے تو عادی ہو گئے ہیں کہ ہمیں انتظار رہتا ہے کہ اس بار عمران خان کون سی حیران کر دینے والی بات کریں گے۔ یہی بات ایک عرصے سے اندرون اور بیرون ملک کچھ حلقے دہرایا کرتے تھے اور اداروں کی جانب سے ملکی سطح پر انکار کیا جاتا تھا۔ خان صاحب نے یہ بحث سب کے سامنے رکھ دی ہے۔

عمران خان کو جو بات سچ لگے وہ کہے بنا رہ نہیں پاتے اور موقع و محل کی پرواہ بھی نہیں کرتے چاہے اس کا خمیازہ ہی کیوں نہ بھگتنا پڑے۔ امید ہے کہ اس تقریر کو بہانہ بنا کر پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈالنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ اس بحث کے کھلنے کا مطلب یہ ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے کئے پر نظریں دوڑائیں۔

پاکستان کو کس نے کہاں استعمال کیا، سپر پاورز کا اس میں کیا کردار رہا، کیا چیچک ازبک داعش بھی ہم نے تیار کئے؟ اسلحہ تو ہمارے پاس نہیں تھا  تو وہ کہاں سے آیا؟ جب لوگوں کو تربیت دی جاتی ہے تو اسلحے کی ضرورت پڑتی ہے اور اسلحہ فراہم کرنے والا بھی جرم میں برابر کا شریک ہو تا ہے۔ یہ سوالات اٹھیں گے تو سب کو کٹہرے میں آنا ہو گا۔

ہیلری کلنٹن نے بڑے دھڑلے سے اپنی ایک تقریر میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح سوویت یونین کو توڑنے کے لئے سپر پاورز نے پاکستان کو استعمال کیا اور پوری دنیا کے دہشت گرد اس خطے میں جمع کئے اور پھر سارا ملبہ اکیلے پاکستان کے سر تھوپ کر بھاگ نکلے۔

وزیراعظم دنیا کے بڑے اسٹیج پر ایک ایسی بحث کو لے کر آئے جس نے اس خطے کی حرکیات اور جغرافیے کو بدل دیا۔ پھر جو سمجھتا ہے کہ پاکستان استعمال ہی کیوں ہوا یا اس جنگ کا حصہ کیوں بنا تو جنگیں وقت اور موسم دیکھ کر نہیں آتیں نہ ہی انسانوں کو اس میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا آپشن دیتی ہیں۔ اگر آج عالمی جنگ چھڑتی ہے تب بھی پاکستان کو کسی نہ کسی بلاک میں شامل ہونا پڑے گا، خواہ وہ چین اور روس کا بلاک ہو یا عرب امارات اور امریکہ کا۔ دونوں صورتوں میں نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں مما لک کی بات بھی ماننا پڑے گی۔ کیونکہ ہم تیسری دنیا کی وہ مملکت ہیں جو سپر پاورز کی امداد پر چلتے ہیں۔ ہماری گری ہوئی معیشت ہمیں سر اٹھا کر چلنے کا موقع نہیں دیتی۔

ماحولیات، منی لانڈرنگ اور اسلامو فوبیا پر بات کر کے عمران خان نے اپنی تقریر کو مزید بہتر کر دیا کیونکہ یہ صرف ہمارے نہیں پوری دنیا کے مسائل ہیں۔ قابل ستائش ہے کہ پاکستان کا وزیراعظم اپنے ذاتی مسائل سے بڑھ کر عالمی فورم پر دنیا کے اجتماعی اور سانجھے مسائل کی بات کرتا ہے۔ یہی مناسب طریقہ تھا۔

اس خطے کے حالات جو بھی صورت اختیار کریں لیکن کسی بھی نا خوشگوار پیش رفت کے نتیجے میں پاکستان برملا یہ کہہ سکے گا کہ دیکھیے ہمارے وزیراعظم نے آپ سے اس بابت سوال کیا تھا اور کچھ کرنے کو کہا تھا جو آپ نہ کر سکے۔

ٹاپ اسٹوریز