تقریر ہو گئی۔۔ اب؟

میرا کالم

ہم ہر موضوع پر شدت پسند ہو جاتے ہیں ۔ میں نے لکھا کہ میں خان کی حکومت کا بہت بڑا ناقد ہوں مگر جنرل اسمبلی میں ان کی تقریر بہت عمدہ، جامع اور وقت کی  ضرورت تھی، اس پر دوستوں نے ایسے مزے کے تبصرے دیے کہ اللہ کی پناہ ۔ جس کو تعریف کرنی تھی اس نے اقوام متحدہ کی تاریخ کو بھی مودی سمجھ کر اس کی خوب کٹ لگائی اور اسے اب تک کی بہترین تقریر قرار دے دیا۔

میں نے کہا بھٹو کو چھوڑیں صرف کیوبا کے فیدل کاسترو کی تقریر سن لیں جو صرف 4 گھنٹے کی تھی اور کاسترو نے کیا حشر کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ایک صاحب نے کہا کہ کیا اعتماد تھا خان کی تقریر میں تو جواب آیا بھٹو  نے خالی ہاتھ ہوتے ہوئے کلاس لی تھی جبکہ خان کے پاس بھٹو کا دیا ہوا ایٹم بم ہے۔ اس پر ایک اور صاحب نے دونوں کو بے نقط سنا دیں کہ میاں صاحب نے کہا جھک ماری تھی۔ پھر تو کتابیں کھل گئیں ۔۔۔۔۔۔ میاں صاحب ایٹم بم کا تجربہ نہیں کرنا چاہتے تھے وہ تو گوہر ایوب، شیخ رشید اور فوج اڑ گئی۔

اس کے بعد بات تقریرسے  آگے نکل کر لال حویلی گندھارا اور جاتی امرا تک پہنچ گئی۔

ایک صاحب نے کہا کہ وزیر اعظم نے جب بہت ٹائم لے لیا تو ” بیل” بچ گئی۔ یہ واقعی زیادتی تھی ۔ جنرل اسمبلی میں تقریر کا ” معیاری وقت ” مقرر ہے مگر آپ چاہیں تو اور وقت لے سکتے ہیں۔ اوپر  فیدل کاسترو کی بات لکھ چکا ہوں۔ سلامتی کونسل میں بھٹو دو گھنٹے بولے تھے۔ عمران خان نے 50 منٹ خطاب کیا ۔۔۔۔ وہ چاہتے تو مزید بول سکتے تھے کوئی ” گھنٹی ” نہیں بجتی۔

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ 5 دن کی آنچ کے مطابق تقریر کی۔ وہ ایک ٹیمپو بنا رہے تھے جس کا کلائمکس جنرل اسمبلی کی تقریر تھی ۔۔ اور شکر ہے کہ یہ اینٹی کلائمکس ثابت نہیں ہوا ورنہ سوشل میڈیا پر میزائل چل رہے ہوتے۔

عمران خان سے پہلے بھارتی وزیر اعظم مودی ایک لا یعنی تقریر کر کے جا چکے تھے جس میں بھا رت ورش کو امن اور بدھی اور ہوگ کی علامت قرار دیا گیا یعنی امن، دانش اور علم کی۔

ہم نے مودی جی کا امن تو گجرات، آسام، ناگا لینڈ، میزو رام وغیرہ میں دیکھ لیا۔ بدھی یوگ اور شانتی کا مظاہرہ مقبوضہ کشمیر برسوں سے دیکھ رہے ہیں، اب تو حد ہو گئی ہے۔ بی جے پی کے ہندو دھرم میں محبت کی تبلیغ کرنے والے کرشن کو ” چھلیا” سمجھ کر عبادت کی جاتی ہے کہ کام نکالنا ہو تو چھل کپٹ سب چل جاتا ہے ۔

بھارتی بلاگرز  کو وزیراعظم مودی کی تقریر پر سخت غصہ تھا ۔۔۔۔۔ کشمیر کا ذکر نا چین کو دھمکیاں۔ بھارتی چینلز کے پاس جشن کے لئے کچھ نہیں تھا کیوں کہ راون کے اوتار نے ان کو بہت مایوس کیا تھا ۔۔۔۔ تو سبھی ہم پر ٹوٹ پڑے ۔ ہماری گفت گو لائیو دیکھی جا رہی تھی اور میں جو پیغامات پڑھ رہا تھا وہ ثابت کر رہے تھے کہ بی جے پی کے لوگوں کو بہت زور سے چوٹ لگی ہے۔

مودی نے کشمیر کا ذکر کیوں نہیں کیا ۔۔۔۔ سنا ہے کہ دانشمند جے شنکر نے کہا تھا کہ اس پر بات ضرور کریں لیکن وزارت داخلہ نے کہا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے لہذا شری مان بات ہی نا کریں، یوں وزیر اعظم مودی وقت مقررہ میں تقریر کر کے ” نکل لیے ”

یہ جدا بات تھی کہ جنرل اسمبلی میں سب کو پتہ تھا کہ مودی جھوٹ بول گئے ہیں ۔۔۔۔ بعد میں پاکستان نے ان کو بتا دیا کہ ” بھا رت ننگا ہے ”

بھارتی چینلز کو کچھ نہیں ملا تو اس بات پر برس پڑے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اتنی لمبی تقریر کیوں کی ہمارے وزیر اعظم نے تو 15 منٹ میں ھی بھگتا دیا تھا ۔۔۔

پاکستان میں عمران خان کی اس تقریر کو مجموعی طور پر بہت اچھی طرح لیا گیا ہے۔ مخالفت بہر حال موجود ہے جس کا پی ٹی آئی کو احترام کرنا چاہیے۔ عمران حکومت کا مجھ جیسا ناقد یہ سمجھتا ہے کہ یہ تقریر غیر روایتی اور  inverted pyramids  کے منافی تھی جہاں اصل نقطہ پہلے آتا ہے ۔ وزیر اعظم نے ماحولیات سے بات شروع کی ۔۔۔ منی لانڈرنگ کے گلیاروں  سے گزرے ۔۔۔۔۔ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم  کی بات کی، اسلاموفوبیا پر آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جب یہ سب بہت طویل ہو گیا تو ہم سب پہلو بدلنے لگے ۔۔۔۔ سنا تھا کہ آخری مرحلے میں تقریر میں ترمیم ہوئی ہے لیکن کشمیر کا ذکر گول نا ہو گیا ہو ۔۔۔۔

ہم سب نے اس وقت سکون کی سانس لی جب وہ اس موضوع پر آئے ۔ وزیر اعظم نے کوئی الٹی میٹم دیا نا جنگ کی بات کی ۔ یہ دلیل دی کہ کشمیری جب رہا ہوں گے تو خون خرابا اس وجہ سے ہو گا کہ ان پر بھیانک ظلم ہو رہا ہے۔ وہاں اور پلوامہ ہوں گے اور کشمیریوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل دیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔ ایسی صورت میں اگر بھارت نے غیر روایتی جنگ کی اور پاکستان کو شکست دینی چاہی تو جوہری جنگ ہو سکتی ہے ۔ اس سے قبل وہ امن کی خواہش کا اظہار کرچکے تھے۔

اگر سابق سفارت کاروں کے تبصروں کو لیا جائے تو یہ رائے سامنے آتی ہے کہ  وزیراعظم کی تقریری غیر روایتی اور سفارتی حلقوں کی سوچ سمجھ سے باہر تھی، کیوں کہ اقوام متحدہ میں ہمیشہ روایتی انداز میں تقریر کی جاتی ہے۔

تمام ممالک کے سفیر توقع کر رہے تھے کہ عمران خان مسئلہ کشمیر سے اپنی تقریر شروع کریں گے لیکن انہوں نے سر پرائز دیا، مسلہ کشمیر پر بھی وزیر اعظم کی بات روایتی نہیں تھی ۔  تقریر کی واضح خامی یہ تھی کہ انہوں نے کشمیریوں  کو کوئی براہ راست پیغام نہیں دیا ۔۔۔ لیکن آخر میں جو فارمولا پیش کیا وہ بہت واضح تھا ۔۔۔۔
” کشمیر سےکرفیو ہٹایا جائے، گرفتارلوگوں کو رہا کیا جائے اور پھر استصواب رائے کرایا جائے ”

یہ بہت واضح پیغام ہے ۔۔۔۔۔۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کیا ہمارے موقف کا قائل ہو گیا۔۔۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ دو ملاقاتوں میں صدر ٹرمپ کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کیا ہے ۔ صدر ٹرمپ نے پہلی بار مووی کی موجودگی میں اس مسئلے کو حل کرنے اور پاکستان سے معاملات ٹھیک کرنے کا کہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تشویش ظاہر کی ہے اور اسے پرانا ہے چیدہ  مسئلہ قرار دیا ہے۔

اس کے بعد معاون نائب وزیر خارجہ کا ایک بیان اور دو بریفنگز آ چکی ہیں۔ کل کے بیان میں بھارت سے کہا گیا ہے کہ وہ بہت تیزی سے کشمیری عوام کو رہا کرے اور ان کی قیادت سے بات کرے۔ اس تقریر کے بعد اطلاع آئی ہے کہ امریکی کانگریس مسئلہ کشمیر ہر سماعت کرنے والی ہے۔ میرا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ سے بھارتی ہتھکنڈوں کی شکایت کر کے وزیراعظم نے پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے بلیک لسٹ میں شامل ہونے سے بچا لیا ہے ۔
مقبوضہ کشمیر میں صورت حال ابتر ہے ۔ اس تقریر سے اس میں کیا تبدیلی ہو گی، اس کا علم نہیں لیکن بظاہر بھارت سختی اور زیادہ کر رہا ہے۔

ایک خط کی چند سطریں پڑھ لیں اور ان کے لئے دعا کریں جو اپنی بستیوں میں قید ہیں ۔۔۔ یہ خط ممبئی کی ایک حساس لڑکی کا ہے ۔۔۔۔

” میرے دو سال کے چھوٹے بھائی، بیس سال کے جوان بھائی، سترہ سال کی چھوٹی بہن اور والدین کی شہادت ہو گئی ہے.

ہمیں ہمارے ہی گھر میں دو مہینے سے قید کیا گیا ہے.

نہ کھانے کو اناج ہے نا پینے کے لیے پانی.

میرا دو سال کا چھوٹا بھائی جو ایک گھنٹہ بھوک برداشت نہیں کر سکتا وہ پندرہ دن بھوک پیاس جھیلنے کے بعد شہید ہو گیا۔

اپنے ہاتھوں سے گھر میں قبر کھود کر اسے دفنایا ہے کیونکہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔

چھوٹے بھائی کے غم میں میری سترہ سالہ بہن بیمار پڑ گئی اور بستر سے لگ گئی. جوان بھائی اپنے بھوکے پیاسے وجود کو لے کر گھر سے نکلا چھپتے چھپاتے کہ کہیں سے دوا اور کھانے کا کچھ انتظام کر سکے. میں ابھی دروازے پر اسے رخصت کر کے اور دروازہ بند کر کے پلٹی ہی تھی کہ فائرنگ کی آواز آئی.

کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھول کر جھانکا تو میرے جوان بھائی کی لاش دکھی.

کئی گھنٹہ وہ لاش یوں ہی میرے گھر کے سامنے سڑک پر پڑی رہی. پھر رات کے اندھیرے میں میں اپنے نازوں پلے بھائی کے جسد کو گھسیٹ کر اپنے گھر میں لے کر آئی. اور اسے بھی اپنے چھوٹے بھائی کے پاس دفن کیا۔

کئی دن کی بھوک پیاس اور پھر اس مشقت نے مجھے نڈھال کر دیا تھا۔ مجھ میں رونے کی طاقت بھی نہیں بچی تھی.
میرے جوان بھائی کی لاش دفناتے ہوئے میرے بیمار والدین مجھے دیکھ رہے تھے، وہ اٹھ کر اپنے بیٹے کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے تھے کیوں کہ بھوک پیاس نے نڈھال کر رکھا ہے.

کچھ دن اور گزرے، دو لاشوں کا اور اضافہ ہو گیا، والدین کے بڑھاپے اور اولاد کی شہادت اور بھوک پیاس نے انہیں بھی زیر زمین پہنچا دیا ہے، اب سترہ سال کی بہن اور میں بچے ہیں۔

میری بہن سرگوشی میں مجھ سے پوچھی کہ ہمارے غیرت مند بھائی آ رہے ہیں نا آپا؟ میرے دو بھائی تو شہید ہو گئے مگر کروڑوں بھائی تو زندہ ہیں نا؟؟؟

میرا ایک بھائی میری بیماری اور بھوک کو برداشت نہیں کر سکا تھا اور میرے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نکل پڑا تھا. وہ نہیں لا سکا تو کیا ہوا باقی بھائی دیکھنا ضرور لائیں گے کچھ نہ کچھ.پھر بیہوش ہو گئی وہ۔

کئی گھنٹے بعد اچانک مجھے سرگوشی سنایی دی کہ آپا دیکھو میرے بہت سارے بھائی آ رہے ہیں. مگر میں اسے جواب نہیں دے سکتی تھی. میں بھی تو بھوکی پیاسی ہوں نا، میں اسے کیسے بتاؤں کہ اسے سراب نظر آ رہا ہے؟؟؟
اسے کیسے بتاؤں کہ کوئی نہیں آ رہا ہے؟؟؟؟

کچھ گھنٹوں بعد اچانک وہ جس کی آواز نہیں نکل رہی تھی چیخ مار کر اٹھی. اور کہا آپا دیکھو میرے بھائی دروازے پر دستک دے رہے ہیں. میرے لیے میرے بھائی آ گئے ہیں. اتنا کہہ کر دروازے کی طرف دوڑی. دروازہ کھولا. دہلیز پر گری. اپنے نہ آنے والے بھائیوں کی راہ تکتے ہوئے نظریں سڑک پر تھیں اور جسم بے جان ہو گیا. چراغ جو بجھنے سے پہلے ٹمٹمایا تھا وہ بالآخر بجھ گیا۔

جس بہن کے ساتھ بچپن گزرا، جسے گودی میں لے کر گھومتی تھی اسے پیروں سے گھسیٹ کر گھر کے اندر لائی اور اسے بھی دفن کیا. کئی گھنٹے لگے مجھے مگر بالآخر عزت کے ساتھ دفن کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی.

میرا بڑا بھائی کئی دن سے پولیس حراست میں ہے. وہ زندہ بھی ہے یا نہیں کچھ خبر نہیں. سنا ہے یہاں کہ ہر گھر سے ایک ایک فرد کو گرفتار کیا گیا ہے اور کچھ مہینوں بعد چھوڑ دیا جائے گا. مگر جب بھائی قید کی سزا اور تشدد برداشت کر کے نڈھال وجود کے ساتھ سکون حاصل کرنے گھر واپس آئیں گے تو پتہ نہیں ویران گھر دیکھ کر کیا سوچیں گے.

اب میں گھر میں اکیلی بچی ہوں.میں زندگی میں کبھی ایک دن بھی تنہا نہیں رہی مگر اب اس پوری دنیا میں ہمیشہ کے لیے تنہا ہو گئی ہوں. سوچ رہی ہوں کہ میرے بھائی جو کروڑوں میں ہیں ان کو آنے میں مہینے بھی کم پڑ گئے ہیں کیا؟

کیا کشمیر اتنا زیادہ دور ہے کہ ایک مہینے میں بھی کوئی نہیں پہنچ پایا, اب نہ جانے کتنا دن گزر چکا ہے.

میری قوم میں تو بہت غیرت مند لوگ تھے جو اتنے بہادر تھے کہ اسٹیج پر کھڑے رہ کر لاؤڈ اسپیکر میں حکومت کو للکارا کرتے تھے. اتنے بہادر تھے کہ اگر کوئی جلوس یا کوئی پروگرام پر پابندی لگ جائے تو پوری دنیا کو ہلا دینے کی بات کرتے تھے. اب تو معاملہ جلسے جلوس کا نہیں بلکہ زندگیوں کا ہے. یقیناً ان کی غیرت میں طوفان اٹھ گیا ہو گا. اور وہ بس آ ہی رہے ہوں گے.

مگر کشمیر کیا اتنی دور ہے کہ مہینوں لگ جائیں آنے میں؟؟

نہیں. اتنی دور تو نہیں

یا رب العالمین…!!! آج تک کربلا کو کتابوں میں پڑھا اور سنا ہے. آج تونے دکھا دیا ہے تیرا شکریہ

اے پروردگار میں تیری شکر گزار ہوں کہ آج کے کربلا میں تو نے ہمیں بھوک پیاس برداشت کرنے والوں اور شہید ہونے والوں میں سے رکھا ہے.

نوٹ: یہ خط ممبئی کی عروعہ فاطمہ نے اپنی کچھ دوستوں کے حالات معلوم ہونے کے بعد لکھا ہے ۔ کردار تخیلاتی  ہے لیکن واقعات سچے ہیں.

ٹاپ اسٹوریز