تقریر اور قومی تقاضے

خبر ہونے تک

وزیراعظم عمران خان کی اقوام عالم کے سامنے کی جانے والی تقریر کی بازگشت کہیں سنائی دے یا نہ دے لیکن پاکستان اور بھارت میں ضرور گونج رہی ہے، بھارتی حکومت اور میڈیا اس میں کوئی اہم بات نہ ہونے کا دعوٰی کر رہے ہیں مگر ساتھ ہی مسلسل اس تقریر کو موضوع بحث بھی بنائے ہوئے ہے۔ پاکستانی حکومت کو دیکھیں تو ان کا رویہ ایسا ہے جیسے اس نے کشمیر فتح ہی کر لیا ہو اور میڈیا بھی، چند تبصرہ نگاروں کے سوا، شامل باجا بنا ہوا ہے لیکن اپوزیشن حسب روایت اس دورے کو ناکام اور تقریر کو روایتی کہہ کر اپنا فرض پورا کرنے میں لگی ہے۔

سوال یہ نہیں کہ پاکستان اور ہندوستان میں کیا ردعمل ہے سوال یہ ہے کہ جہاں یہ تقریر ہوئی کیا وہاں بھی اس کا اثر ہوا؟ کیا اقوام عالم ان کے کان پر جوں رینگی یا نہیں؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اقوام عالم کو کشمیر سے کوئی سروکار نہیں اور یہ ہی صورتحال قابل غور ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریر بلا شبہ غیرمعمولی تھی جس میں دفتر خارجہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی روایتی تقریر کی جگہ ان  کی اپنی فکر،سوچ اور جذبات غالب تھے، انداز اور لہجہ بھی کسی مصلحت سے عاری تھا، لگتا تھا وزیر اعظم کے اندر جو کچھ ہے وہ انھوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر نکال کے اقوام عالم کے سامنے رکھ دیا۔ لیکن عالمی برادری نے حسب روایت بے حسی کا مظاہرہ کیا، اسی لیے وزیر اعظم کو کہنا پڑا کوئی کشمیریوں کا ساتھ دے یا نہ دے وہ ان کے ساتھ ہیں۔

ایسا کیوں ہوا؟ وزیر اعظم نے جس طرح غیرروایتی انداز کے ساتھ غیر روایتی تقریر کی اسی طرح اپنے دورے کو ترتیب دیتے ہوئے روایت شکنی کر جاتے تو شاید نتیجہ مختلف ہوتا، اس دورے میں صرف وزیر اعظم، ان کا انداز بیاں اور تقریر ہی روایت سے ہٹ کر تھی جبکہ دورے کے رفقاء، دفتر خارجہ کی سوچ اور میڈیا میں کچھ نیا یا غیر روایتی نہیں تھا۔ کیا دفتر خارجہ نے پاکستان یا امریکہ میں میڈیا کے لیے کوئی بریفنگ کا اہتمام کیا تھا؟ کیا شرکاء بشمول میڈیا کے لوگوں کا انتخاب کرتے وقت کوئی فارمولا یا طریقہ کار بنایا گیا تھا یا حسب سابق دفترخارجہ، دفتراطلاعات، مختلف اداروں اور بااثر حکومتی افراد کے من پسند لوگ ہی ایسے دوروں کا حصہ تھے؟ ایسے لوگوں کے ساتھ دورے کا نتیجہ بھی ایسا ہی نکلنا تھا، روایتی طور پر ایسے دورے پر جانے والے لوگوں کی اکثریت سیر سپاٹے کی متمنی ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ میں دیگر عالمی رہنماوں کی تقاریر کے علاوہ پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے اعظم نے بھی تقریریں کیں، ہندوستان کی جانب سے کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ختم کرنے اور مقبوضہ کشمیر میں ریاستی مظالم، تشدد، دو ماہ طویل کرفیو اور دو ایٹمی طاقتوں کے آمنے سامنے آ جانے اور امریکہ کی جانب سے ثالثی کی پیش کش کے تناظر میں ان دونوں وزرائے اعظم کی تقاریر کی خصوصی اہمیت تھی لیکن بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر نہ کر کے اقوام عالم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ کشمیر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور  یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے جسے ان کی حکومت حل کر لے گی۔

اس کے جواب میں عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے دیے جانے والے تاثر کو نہ صرف زائل کیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ نہ صرف کشمیر ایک مسئلہ ہے بلکہ یہ بہت سنگین مسئلہ ہے، بھارتی مظالم اورجارحانہ اقدامات کے باعث یہ خطہ آگ کے دہانے پر پہنچ گیا ہے جس کی لپیٹ میں اقوام عالم بھی آ سکتی ہیں۔ خان نے دنیا بھر کی تحریکوں کی تاریخ اور انہیں پرتشدد تحریکوں میں تبدیل ہونے اور جنگوں کی حکمت عملی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال ایسے مظالم کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے جیسے مظالم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کررہی ہے۔

وزیراعظم کا یہ سوال بھی برمحل اور تاریخی تھا کہ اگر یہودی یا کسی اور قوم کے ساتھ مقبوضہ کشمیر جیسے مظالم ہوتے تو کیا پھر بھی اقوام عالم خاموش رہتیں؟ انھوں نے اقوام متحدہ کو باور کرایا کہ یہ عالمی ادارہ جس مقصد کیلیے وجود میں آیا تھا اسے پورا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور آج یہ وقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنا کردار بخوبی نبھایا اور یہ شاید اس لیے بھی ممکن ہو سکا کہ انھوں نے دفتر خارجہ کے روایتی پروٹوکول میں لپٹے ماحول سے ذرا باہر نکل کر یہ کردار نبھایا، عمران خان کی کوششوں کی عملی کامیابی کے لیے اب یہ کردا ر اپوزیشن، دفتر خارجہ اور میڈیا، خاص طور پر ان صحافیوں کو جو وزیراعظم کے ساتھ تھے، ادا کرنا ہو گا۔ ملک کی اندرونی سیاست میں دھرنے یا ہڑتال جیسے جمہوری نوعیت اقدامات ضرور کریں لیکن جہاں قومی یکجہتی اور سا لمیت کا معاملہ ہو وہاں سب کو یک جان ہونا پڑے گا کیونکہ کشمیر پاکستان کی سالمیت کے ساتھ جڑا ہے اورجب تک یہ حل نہیں ہوگا، اس خطے کا فلیش پوائنٹ رہے گا۔

آج کی اپوزیشن اگر کل حکومت میں آتی ہے تو اسے بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا، دفتر خارجہ کو بھی اپنے”بابو پن“ سے باہر نکلنا ہو گا، حقیقی صورتحال کے ادراک کے ساتھ اپنا کردار نبھانا ہو گا، دفترخارجہ صرف سرکاری نوکری ہی نہیں ملکی سالمیت کا بھی محافظ ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ دفترخارجہ ایک مشن کے تحت کشمیر کے مسئلے پر وزیراعظم کی تقریر کی روشنی میں اقوام عالم کی حمایت حاصل کرے۔

سب سے زیادہ ذمہ داری اقوام متحدہ اور امریکہ میں موجود دفترخارجہ کے لوگوں کی ہے کہ ایک جانب وہ امریکی صدر کی ثالثی کی پیش کش کو یقینی بنائے تو دوسری جانب اقوام عالم کے نمائندوں کو بھی راغب کریں کہ وہ بھارت کو استصواب رائے پر مجبور کریں۔ اہم کردار میڈیا کا ہے کیونکہ میڈیا لابی بھی کرتا ہے۔

دیکھا گیا ہے کہ بھارتی میڈیا کے لوگ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کے حالات سے پوری طرح آگا ہ ہوتے ہیں، وہ نہ صرف سوالات اور بحث کرتے نظر آتے ہیں بلکہ اپنے ملک کا موقف بھی شدت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ہمارے میڈیا کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ کیا آئندہ دفترخارجہ اس امر کو یقینی بنائے گا کہ جن لوگوں کو وہ لے جا رہے ہیں وہ مخالف میڈیا اور افسر شاہی سے بحث ومباحثہ کریں گے اور پاکستان کے لیے لابی کریں گے؟ دفتر خارجہ کو ان سے مضامین لکھوانے چاہئیں، چینلز پر ایسے تبصرے کرانے چاہئیں جو مشن کو کامیاب بنانے میں معاون ہوں، کالم نگاروں تبصرہ نگاروں اور اینکرز پر بھی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ قومی معاملات کو ریٹنگ کی نذر نہ کریں، یقینی طور پر سب اچھا نہیں ہوتا لیکن سب برا بھی نہیں ہوتا لیکن من الحیث القوم ہمارا ایک کردار ایسا بھی بنتا ہے جہاں ہمیں مصلحت سے کام لینا ہوتا ہے اور وہ قومی معاملہ ہے۔

ٹاپ اسٹوریز