سمندر اچھال دیتا ہے

ایک مشہور اور قسمت کا دھنی آدمی دنیا میں اپنی محنت اورخوش قسمتی کے بل بوتے پر جتنی زیادہ کامیابیاں سمیٹ سکتا ہے عمران خان نے وہ تمام کامیابیاں حاصل کر لی ہیں۔ وہ بار بار ڈوبتے ہیں لیکن سمندر اچھال دیتا ہے۔ ایک بار پھر آرمی چیف نے حکومت کے خلاف بغاوت کے آپشن کو مسترد کر دیا ہے یہ مولانا فضل الرحمان کے لئے اچھی خبر نہیں ہے۔

آج وزیراعظم کے مداحین انکی سالگرہ منا رہے ہیں۔ وہ وقت کے وزیراعظم ہیں اس لئے ان کی گزشتہ زندگی کا ذکر بے فائدہ ہو گا کہ سب جانتے ہیں۔ لیکن وہ اب تک خود کو کامیاب وزیراعظم ثابت نہیں کر پائے۔

اپنے آپ کو کامیاب سیاستدان اورکامیاب وزیراعظم ثابت کرنے کے لئے حکومت کو پانچ سال پورے کرنا ہوں گے۔ اگر عمران خان پہلے ایک دو سال کے اندر اپنا اقتدار گنوا بیٹھے تو ان پر ایک ناکام وزیراعظم کا ٹیگ لگ جائے گا۔ 66 سال کے اس موڑ پر وہ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں بے حال معیشت اور مولانا کے دھرنا کنٹینر کی دھمکی کامیابی کا راستہ روکے کھڑی ہے۔ لیکن بقول شاعر ” میں ڈوبتا ہوں سمندر اچھال دیتا ہے” کے مانند وہ ہر مشکل گھڑی سے باہر نکل آتے ہیں۔ لوگ ڈبونے کی تگ و دو میں ہیں تو وہیں اچھالنے والے بھی تیار نظر آتے ہیں تاہم رواں سال ان کی کامیابی کا گراف مزید نیچے جا سکتا ہے۔

اس حکومت کی معاشی پالیسیز کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔ آرمی چیف سے تاجر برادری نے ملاقات کر کے یہ تاثر دیا ہے کہ تاجروں کو موجودہ حکومت پر اعتبار نہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔ ” تاجر برادری حکومت مخالف قوتوں کی حمایت نہ کرے بلکہ حکومت سے تعاون کرے ” آرمی چیف کے یہ الفاظ اس تاثر کو مزید پختہ کرتے ہیں کہ ملک کے بڑے تاجر حکومت کا ساتھ دینے سے گریزاں ہیں۔ چیف سے ملاقات کرنے والوں میں لاکھانی، دنیا، بحریہ، نشاط، عارف حبیب گروپ بشمول دوسرے بڑے بزنس ٹائیکون بھی موجود تھے۔ موجودہ حکومت اسٹیٹس کو، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے خلاف نعرے پر برسراقتدار آئی ہے۔ منی لانڈرنگ، چوری چکاری، رشوت کے بنا بڑا کاروباری یا صنعتکار بننا ممکن نہیں۔ اسٹیٹس رکھنے والا ہر شخص اس بات سے خوفزدہ رہتا ہے کہ کہیں نیب کا شکنجہ اس کی گردن تک نہ پہنچ جائے۔ ایسے میں وزیراعظم سے ملاقات پاکستان کے بزنس ٹائیکونز کو مطمئن نہ کر سکی کہ انھوں نے آرمی چیف کے سامنے شکایات کے انبار لگا دئے۔ ایک معاشی روڈ میپ کی عدم موجودگی اور اقتصادی استحکام کا فقدان ہر شخص کو پریشاں کئے رکھتا ہے۔ ستمبر کے مہینے میں مہنگائی کی شرح گیارہ اعشایہ چھ فیصد رہی۔ جبکہ پچھلے سال کے مقابلے میں گیس کی قیمت 115 فیصد بڑھی۔ بے روزگاری میں تشویشناک اضافے اور تجارتی جمود نے بزنس کمیونٹی کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

صنعتوں کا جام پہیہ پھر سے رواں کرنا اور کاروبار کو جمود سے نکالنا لازم ہے۔ یہ بات آرمی چیف بھی جانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کاروباری طبقے کے تحفظات دور کرنے کے لئے وہ خود میدان میں آئے ہیں، معیشت کو سدھارنے والی ٹیم ہار گئی تو فوج کے سربراہ کی جانب سے تاجروں کے تحفظات کا نوٹس لیا گیا۔ مگر لوگ معترض ہیں کہ سیلاب اور زلزلے کی تباہ کاریوں اور مردم شماری سے لے کر سرحدوں کی حفاطت اور معیشت کی بحالی تک کے کام کیا صرف فوج ہی سنبھالے گی۔ موجودہ حکومت پر مختلف طبقے اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں، شبر زیدی صاحب کے آئی ایم ایف کی ایما پر اٹھائے گئے اقدامات نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی کہ شنید ہے کہ ایک ملاقات میں انھوں نے تاجروں کے قطعی انکار پر یہاں تک کہہ دیا کہ اصلی نہیں تو نقلی شناختی کارڈ نمبر یعنی کسی اور کے شناختی کارڈ کا نمبر ہی درج کر دیں۔ ذمہ دار عہدے پر موجود افسر کا یوں بے بس ہو کر اس بات کا اظہار اس ٹیم کی بے کسی اور پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ حفیظ شیخ نے بڑے کاروباریوں کے چھ بلین ڈالرز کی نشاندہی کر دی جو دبئی انگلینڈ اور سوئٹزر لینڈ کے اکاونٹس میں جمع کرائے گئے ہیں۔

معیشت کے شماریے بتا رہے ہیں کہ بجلی مزید مہنگی ہونے سے صارفین کو 22 ارب کا اضافی بوجھ برداشت کرنا ہو گا۔ اشیا کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں حتیٰ کہ ادویات کی قیمتوں میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ایشین ڈویلپنٹ بنک کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اگلے سال ملک کا گروتھ ریٹ تاریخ کی پست ترین سطح پر ہو گا۔ ان حالات میں کیا بڑے تاجروں اور اسٹیک ہولڈرز کے آرمی چیف سے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے وعدے گرتی معیشت کو سنبھال پائیں گے؟ کیا پاکستان کی معیشت تاریخ کے اس بد ترین بحران سے باہر نکل آئے گی۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو عمران خان کی عمر کا 67 واں سال ان کو زندگی کی بد ترین ناکامی سے دوچار کر سکتا ہے کیونکہ ایک اچھی تقریر کا اثر چند دن سے زیادہ نہیں رہتا۔ لیکن اپوزیشن کے لئے مایوس کن خبر یہ ہے کہ آرمی چیف نے بغاوت کا آپشن مسترد کر دیا ہے۔

مولانا تو بغاوت کرانا چاہتے ہیں اور خود بھی اس کے لئے تیار ہیں۔ “دھمکیاں نہیں کنٹینر دو” کہہ کو مولانا نے یہ باور کرا دیا کہ وہ ہر قیمت پر لاؤ لشکر سمیت احتجاج کرنے پر تلے ہیں۔ اقتدار کی حامل جماعتوں کے ساتھ ایک طویل عرصے تک چمٹے رہنے والے فضل الرحمان اس وقت اختیار سے یکسر محروم ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے دیوار سے لگ جانے کے بعد وہ ایک بپھرے ہوئے شیر یا ایک ضدی بچے کی مانند حکومت کا تختہ الٹنے کو مچل رہے ہیں۔ ن لیگ اور پی پی ساتھ دے یا نہ دے اگر مولانا مدرسےکے بچے اسلام آباد کی سڑکوں پر نکال لائے تو حکومت کے لئے یہ چیلنج بھی اکیلے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر مدد کے لئے کسی کو آنا پڑے گا۔ مولانا کے ماضی اور حال پر جتنی مرضی انگلیاں اٹھا لیں لیکن جس طرح پی ٹی آئی کو احتجاج اور کنٹینر والے دھرنے کا حق تھا اسی طرح جے یو آئی ف کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ یہ الگ بات ہے اگر حالات کی نزاکت ، پانی کے بہاؤ کی سمت دیکھ کر مولانا خود ہی اس احتجاج سے دست بردار ہو جائیں یا ایک بار پھر تاریخ بڑھا دیں۔ لگتا یوں ہے کہ وہ اپنے آپ کو آزمانے پر تلے ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز