رویہ بدلنا ہوگا

خبر ہونے تک

رویہ بدلنا ہو گا

پاکستان کی سیاسی فضا میں ایک بار پھر ”مائنس“ لفظ کی بازگشت مسلسل سنائی دے رہی ہے، اہم بات یہ ہے کہ اس مرتبہ مائنس ون ہی نہیں مائنس فور(Four) سے لے کر مائنس ایٹ (Eight) کی گونج ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مائنس کی تعداد جو بھی ہو اس کا فیصلہ اسی ماہ یعنی اکتوبر میں ہو جانا ہے، اس باز گشت کے پیچھے جن اسباب کا ذکر کیا جا رہا ہے ان میں گزشتہ ایک ماہ میں کشمیر سے لے کر اقوام متحدہ تک اور ملکی سیاست سے معیشت تک کے معاملات ہیں اور اس میں حکومتی ذمہ داران، بالخصوص وزرا،  کی کارکردگی اور ان کی آپسی چپقلش سرفہرست ہے جس کے باعث مبینہ طور پر امور مملکت بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے اندر ایک اور حکومت موجود ہے جو فیصلوں پر عمل نہیں ہونے دیتی، اس کی تازہ ترین بڑی مثالیں وزراء اور ان کے محکموں کی تبدیلی کا رک جانا، بعض بیوروکریٹس کا قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لینا یا لمبی رخصت پر چلے جانا ہیں، ایک طرف کشمیر کا معاملہ روز بروز سنگین ہوتا چلا جا رہا ہے تو دوسری طرف ملک کے اندر حزب اختلاف بھی نئی حکمت عملی ترتیب دے رہی ہے، سب سے اہم جے یو آئی کا لاک ڈاؤن ہے جس نے یقینی طور پر حکومت کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔

مہنگائی اور بے روزگاری کی جو لہر اس وقت آئی ہوئی ہے اس کی مثال پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں ملنا مشکل ہے، ادارے بند ہو رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں، ایک طرف بیروزگاری کے باعث لوگوں کی آمدنی بند ہو گئی تو دوسری طرف اشیائے ضرورت قوت خرید سے بہت دور چلی گئی۔ متوسط طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں داخل نہیں کرا پا رہے، تعلیمی اداروں کے بند ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

کراچی کے ایک تعلیمی ادارے کو سالانہ دوہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوتی تھیں اور انٹری ٹیسٹ کے بعد ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ داخلے دیے جاتے تھے لیکن رواں سال اس ادارے کو صر ف ایک ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں، سب کو داخلہ دینے کے بعد بھی یہ ادارہ اپنے اخراجات پورے نہیں کر پائے گا اور نتیجتاً عملے میں کمی کی جائے گی اور اس طرح وہ لوگ جنھوں نے کئی برس تدریس میں وقف کر دیے اب اگر چالیس پچاس سال کی عمر میں بے روزگار کر دیے گئے تو کیا ہوگا، اس کا تصور ہی محال ہے۔

میڈیا میں تو یہ حال ہو ہی چکا ہے، اب تعلیمی ادارے بھی اس نہج پر پہنچ رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے تاجروں کی ملاقات بھی ملک کی دگرگوں معاشی صورت حال کی عکاس ہے۔ ملک کا جو حصہ خزانے کی ضرورت پورا کرنے کے ساتھ ساتھ روزگار بھی مہیا کرتا ہے، وہی اپنے تحفظ کے لیے پریشان ہے، ملک کا یہ طبقہ اگر متاثر ہوا تو پھر کیا بچے گا؟ روزگار سے تعلیم تک سب خطروں سے دوچار ہیں، پولیس اور بیوروکریسی سیاسی دباؤ کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار نظر آرہی ہیں۔

لازمی سروس کے یہ لوگ جو ملک کا انتظام و انصرام چلاتے ہیں، بددل ہو رہے ہیں، کوئی قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے رہا ہے تو کوئی لمبی رخصت پر جا رہا ہے، ساتھ ہی ان میں مزاحمتی تحریک بھی جنم لے رہی ہے ایسی صورت حال سے ملک کبھی دوچار نہیں ہوا، اسے گورننس کا ”ٹوٹل بریک ڈاؤن“ کہا جا رہا ہے، ملک کے اندر یہ صورت حال اور سرحدوں پر بھارتی جارحیت اورافغان طالبان کا معاملہ بھی تشویشناک ہے۔ کشمیر میں بھارتی جارحیت میں مسلسل اضافہ نہ صرف کشمیر کے اندر بلکہ پاکستانیوں میں بھی خدشات کو جنم دے رہا ہے۔ کوئی مداوا نظر نہیں آرہا، کوئی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی، ہر جگہ ایک ہی سوال سننے کو ملتا ہے کہ ملک کا کیا ہو گا؟

روزگار دینے کی دعویدار حکومت کے دور میں روزگار چھینا جا رہا ہے، ہر بچے کو تعلیم دینے کا عہد کرنے والے تعلیم حاصل کرنے والوں کے راستے بند کر رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں جے یو آئی کا لاک ڈاؤن کیا روکا جا سکے گا؟ دیکھا جائے تو حکومت نے مذکورہ بالا صورت حال کے باعث خود عوام کو لاک ڈاؤن کی طرف دھکیل دیا ہے، مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت اور ان کے مدرسوں کے طلبا کی ”یلغار“ کسی نتیجے پر پہنچ کر ہی رکے گی۔

بیالیس سال پہلے1977 میں بھٹّو حکومت کے خلاف پی این اے کی تحریک میں مولانا مفتی محمود کا کلیدی کردار تھا جس نے اس حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا، آج مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمٰن تحریک کی قیادت کر رہے ہیں، پی این اے کی جماعتیں تو اس وقت مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ نہیں ہیں لیکن حالات 1977 سے زیادہ سازگار اور مولانا کے حق میں ہیں۔ جے یو آئی کے کارکنوں اور مدرسوں کے طلبہ کی شکل میں ایک بڑی قوت ان کے ساتھ ہے، کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں، بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جو وقت کے حوالے سے تحفظات رکھے ہوئے ہیں، لاک ڈاؤن کا دن قریب آنے پر اس کا حصہ بن جائیں گے۔

اس ساری صورت حال میں حکومتی وزراء کا رویہ سمجھ سے بالاتر ہے، ایسے سنگین حالات میں بھی وہ جملے بازیوں اور شیخ چلّی کے خوابوں کے مزے لے رہے ہیں، ان کی بڑکیں ملک کی حقیقی صورت حال سے ان کی لاتعلقی کا پتہ دیتی ہیں، ان کے اس کردار پر اکثر لوگ تبصرہ کرتے ہیں کہ یہ لوگ وہ ہیں جو گاؤں گاؤں جا کر آوازیں لگاتے ہیں، کسی گاؤں میں آگ لگ جاتی ہے تو وہ دوسرے گاؤں میں چلے جاتے ہیں اور وہاں آوازیں لگانا شروع کر دتے ہیں۔ یہ پہلے کہیں اور تھے، آئندہ بھی کہیں اور چلے جائیں گے، ان کے نزدیک حکومتٰیں آنی جانی شے ہیں۔ لیکن یہ وقت پہلے جیسا نہیں ہے اس وقت ملک کی سالمیت کا معاملہ ہے، اس لیے انہیں اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔

ٹاپ اسٹوریز