آزادی مارچ اور لبرلز

اگر دنیا کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک کی کامیابی کا امکان اس صورت میں بڑھ جاتا ہے اگر اس کے پیچھے کوئی نظریہ یا بڑا مقصد ہو، آج پاکستان میں ایک بار پھر حکومت وقت کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمان باقاعدہ اعلان جنگ کر چکے ہیں۔ مولانا کے مطابق حکومت کے خاتمے کے لیے نا صرف مارچ کیا جائے گا بلکہ دھرنا بھی دیا جائے۔ ان کے بقول حکومت کے خلاف “جنگ” تب تک جاری رہے گی جب تک عمران خان صاحب کی حکومت کو چلتا نہیں کر دیا جاتا۔

مولانا کا کہنا ہے کہ اس تحریک میں پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلزپارٹی اور حزب مخالف کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی ان کا ساتھ دیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا نے جب سے عمران خان کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے تب سے وہ ہمارے “لبرلز” اور سیکولر جمہوری دانشوروں کے بھی ڈارلنگ بن گئے ہیں۔ جن نام نہاد لبرلز کو مولانا کی جماعت کے قائدین لائیو پروگرامز میں برا بھلا کہتے تھے وہ آجکل مولانا کے قصیدے گا رہے ہیں اور جمہوری چیمپئنز کو غیرت دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مولانا کی نظریاتی تحریک کا ساتھ دیں۔

عورت مارچ والی وہ خواتین جو اپنی نوکرانیوں کو اپنے بچے اٹھوا کر عورتیں کے حقوق پر لیکچر دیتی ہیں اور ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے لگاتی ہیں، ایسے دیسی لبرل جن کو ریاست مدینہ کا ذکر ناگوار گزرتا ہے، جو مذہب کا نام سن کر منہ بنا لیتے ہیں اور باریش شخص کو دیکھ کر ہتک آمیز تبصرے کرتے ہیں، ان سب لوگوں کو مولانا کی شکل میں اپنا قائد مل گیا ہے اور یہ لوگ آجکل سوشل میڈیا پر مولانا کے سپاہی بنے ہوئے ہیں۔

صاف ظاہر ہے کہ ایک ایسی نظریاتی تحریک چلنے والی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس تحریک میں شامل ہر شخص، ہر جماعت نظریاتی ہے۔

یقین کیجیے نظریاتی بننا آسان نہیں ہے، نظریاتی بننے کے لیے آپ کو بلاول کے نانا کی طرح اس آمر کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے جسے پہلے آپ ڈیڈی کہتے ہوں، مریم کے بابا کی طرح اربوں روپے بہا کر نظریہ خریدنا پڑتا ہے کیونکہ مفت میں کوئی نظریاتی نہیں بن جاتا، بلاول کے بابا کی طرح خاندانی کاروبار کو ایک صوبے سے نکال کو پوری دنیا میں پھیلانا پڑتا ہے، اور بیشک لوگ بلاول پر الزام لگائیں کہ وہ مشکوک وصیت کے ذریعے پارٹی کے چیئرمین بنے ہیں لیکن بلاول نے بائیس برس سیاسی جدوجہد کر کے اقتدار میں آنے والے عمران خان کو سلیکٹڈ کہہ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھی اپنے نانا ، بابا اور انکل نواز کی طرح حقیقی نظریاتی ہیں۔

جیسا کہ شروع میں ذکر کیا تھا کہ کسی بھی تحریک کے پیچھے کوئی نظریہ اور بڑا مقصد ہو تو اس کی کامیابی کے امکان بڑھ جاتے ہیں تو جس تحریک کے پیچھے اتنے نظریاتی لوگ ہوں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے کیا کبھی وہ ناکام ہو سکتی ہے؟

اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس تحریک کے رہنما جناب مولانا فضل الرحمان کا نظریہ اور مقصد بہت بڑا ہے۔ شاید تیس برس میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ انتخابی شکست اور عمران خان کی جانب سے کسی بھی عہدے کی پیشکش نہیں ہوئی اس لیے وہ اپنے بڑے مقصد کے حصول کے لیے ملک کے نظریاتی ٹولے کی قیادت بخوبی کریں گے۔

ٹاپ اسٹوریز