امریکہ: معاشی عدم مساوات

یقیناً یہ بات جان کر قارئین کو حیرت ہو گی کہ اس وقت امریکہ میں 40 ملین (4 کروڑ) شہری غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، مزید حیرت انگیز اور زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ان شہریوں میں سے نصف سے زیادہ “انتہائی غربت” یا “مکمل غربت” میں شب و روز بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ چشم کشا حقائق اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے ذریعے سامنے آئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے انسانی حقوق پروفیسر فلپ السٹون کی تیارہ کردہ بیس صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لمحہ موجود میں امریکی پالیسیوں سے ایک طرف تو امراء دونوں ہاتھوں سے خوب دولت سمیٹنے میں مصروف ہیں تو دوسری جانب یہی پالیسیاں اور منصوبے ملک کو غربت کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔

آمدنی کی بنیاد پر مغربی ممالک کے درمیان سب سے زیادہ تفریق اس وقت امریکہ میں پائی جاتی ہے جبکہ ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر کٹوتی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے کیونکہ نئی ٹیکس پالیسی کا تمام تر فائدہ طبقہ امراء کو پہنچ رہا ہے اور وہ اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ امریکہ میں متوسط طبقے کی غیرمعمولی تعداد غربت کے دہانے پر ہے جبکہ 40 فیصد بالغ آبادی 400 ڈالر کےغیرمتوقع اخراجات برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں رہی۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غریب امریکیوں کو مشکل ترین معاشی حالات میں دھکیلنے کی ذمہ دار ٹرمپ انتظامیہ ہے۔ پروفیسر فلپ السٹون نے امریکی صدر کے اس بیان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں انہوں نے حکومتی فوائد حاصل کرنے والوں کو سست قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ صرف 7 فیصد شہری ایسے ہیں جو حکومت سے مدد لیتے ہیں، لیکن کام نہیں کرتے۔

اعداد و شمارکا جائزہ لینے سے یہ حقیقت مزید کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اپنی کم آمدنی کے باعث صحت اور بعض دیگر سہولیات حکومت سے لینے والے شہریوں کی اکثریت کل وقتی کام کرتی ہے، ان میں سے بھی تقریباً نصف یا تو اسکولوں کے طالب علم ہیں یا وہ افراد ہیں جو دوسروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکسوں میں 1.5 ارب ڈالر کمی کے پیکیج کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے کیونکہ اس اقدام سے واضح محسوس ہو رہا ہے کہ اس کا مقصد امیروں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ دوسری طرف اس فیصلے سے غربت میں پسے عوام کی حالت زار مزید پیچیدہ ہونے کے خدشات بھی موجود ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حالیہ چند برسوں کے دوران امریکہ میں امیر ترین ایک فیصد آبادی کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے جبکہ اس کی نسبت گذشتہ 25 سال کے دوران 90 فیصد دولت اور آمدنی کا شیئر گر گیا ہے۔

امریکہ میں ٹیکس اصلاحات سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہونے کے برعکس حالات مزید بگڑنے کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں جو آنے والے دنوں میں صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیں گے۔ ٹیکس پالیسی کے نتیجے میں ترقی یافتہ ممالک کے درمیان امریکہ بدستور واحد ملک رہے گا جہاں امیر اور غریب کے درمیان سب سے زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔

آمدنی، امیر اور غریب کے درمیان اس بڑھتے ہوئے فرق کی رپورٹ منظرعام پر آنے کے بعد امریکہ ، اقوام متحدہ سے ناراض ہو گیا ہے۔ امریکی حکومت نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق پر منافقت اور باڈی کے ارکان پر اسرائیل مخالف ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی یہ کونسل برائے انسانی حقوق 2006 میں قائم کی گئی تھی۔

۔۔

ٹاپ اسٹوریز