ایک فلم کی کہانی

آوازہ

اخبار ایک زمانے میں زندگی تھے۔ اخبار میں چھپنا، اس میں دِکھنا، یہ سب غیر معمولی تھا، اخبار میں لکھنے والوں کی تو بات ہی الگ تھی، وہ لوگ جو اس کارخانہ عجائب کے کرتا دھرتا ہوتے عامیوں کو کسی دوسری دنیا کی مخلوق لگتے۔ کچھ ایسی ہی باتیں تھیں جن کے دوش پر اڑتا ہوا میں لاہور جا پہنچا۔

وہاں اخبارات کے دفاتر دیکھے، ان میں کام کرنے والے دیکھے، کام کرنے کا انداز دیکھا، چھوٹی پیالیوں میں بار بار پک کر ایک نیا ذائقہ جنم دینے والی چائے پی اور موقع ملنے پر اُن بزرگوں کے آٹو گراف حاصل کیے جن کے نام دور بیٹھ کر پڑھے تھے اور لگتا تھا کہ ہماری دنیا جن لوگوں کے ہاتھوں پر کھڑی ہے اُن میں وہ خوش قسمت بھی شامل ہیں۔

بس، اسی دھن میں ایک سہ پہر میں شاہ دین بلڈنگ بھی جا پہنچا۔ مقصد تھا، جناب مصطفیٰ صادق کو ایک نظر دیکھنا اور ان کے دستخط حاصل کرنا۔ یہ بدقسمتی تھی کہ گوہر مقصود اس روز وہاں موجود نہ تھا۔ کسی نے کہا، انھیں چھوڑو، جمیل اطہر صاحب کے آٹو گراف لے لو، اِن کے دستخط مصطفیٰ صادق صاحب سے زیادہ اچھے اور زیادہ خوب صورت ہیں۔ اب یاد نہیں کہ اس صورت حال سے میں کس طرح نمٹا لیکن ایک زمانہ بیت جانے کے بعد جب یہ سب کچھ نئے زمانوں کے نئے ہنگاموں کے انبار تلے جا دبا تھا، ایک چھوٹے سے پارسل نے دل کا دامن خوشیوں سے بھر دیا۔

میرے ہاتھوں میں ایک کتاب تھی، دیار مجددؒ سے داتا ؒ نگر تک، ورق الٹا تو چند جگمگاتے ہوئے الفاظ پڑھنے کو ملے، ”فاروق عادل کے لیے محبت کے ساتھ، جمیل اطہر“۔ وہ آٹوگراف جو سن بیاسی تراسی میں ایک ناتراشیدہ لڑکے کی قسمت میں نہ آ سکا، ادھیڑ عمری میں اس کے ہاتھوں میں تھا اور اس کے ساتھ ایک ایسی داستان جس کا تعلق اس ملک سے ہے، اس ملک میں رہنے والوں سے ہے اور اِس دیس کے اُن لوگوں سے ہے جن کے ہاتھ میں کچھ اختیار ہے یا جن کے نوشتے صاحبان اختیار کی دنیا زیرو زبر کرسکتے ہیں۔

ادب اور لٹریچر کی دنیا میں خود نوشت اور سوانح عمری ایک ایسی صنف ہے جس میں پڑھنے والوں کی فطری طور پر گہری دلچسپی ہوتی ہے۔ شاید یہی فطر ت کا تقاضا بھی ہے۔ ہمارے ہاں یہ صنف کچھ ایسی نظر انداز تو نہیں ہوئی، بہت لوگوں نے اپنی داستان ہائے حیات سے ہمیں مستفید کیا لیکن اس صنف کی ایک بدقسمتی بھی ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری تاریخ کے وہ بزرگ اور معاشرے کے ایسے خدمت گار جن کی محنت سے اس چمن میں بہار آئی اور مہکتے ہوئے پھول کھلے، وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوسکے یا وقت کے سیلِ رواں نے انھیں اس کی مہلت ہی نہ دی۔ ان لوگوں میں صحافی بھی شامل ہیں جنھوں نے اس ملک کی تاریخ بنتے اور بگڑتے دیکھی اور قومی زندگی کے اُن رازوں سے آگاہ ہوئے جن کا علم محض چند لوگوں کا ہو گا یا پھر انھیں۔ اگر اس طرح کی یاداشتیں لکھی جاتیں تو نہ صرف یہ کہ ہماری قومی تاریخ کا دھارا مختلف ہوتا بلکہ یہ بھی کہ آنے والی نسلیں بھی اُن تلخ و شیریں تجربات سے آگاہ ہو سکتیں جن کی کٹھنائیوں سے گزر کر یہ ملک آج ا س حال کو پہنچا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ جناب جمیل اطہر نے اپنی بے شمار پیشہ ورانہ اور کاروباری مصروفیات سے وقت نکال کر یہ کام کر ڈالا ہے۔

وطنِ عزیز ان دنوں معاشی بحران کی زد میں ہے جن لوگوں کو خوش قسمتی سے روز گار میسر تھا، آج وہ بے روزگاری کے خدشات میں مبتلا ہیں، جو نوجوان نئے نئے تعلیمی اداروں سے نکل کر میدانِ عمل کا رخ کر رہے ہیں، انھیں اپنا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال گزشتہ صدی کی پانچویں دہائی میں بھی پیدا ہوئی ہو گی جب برصغیر کا سینہ چاک کر کے پاکستان کے نام سے اس خطے کے مسلمانوں کے لیے یہ گوشہ عافیت تخلیق کیا گیا۔

جمیل اطہر صاحب نے اپنی تصنیف کی ابتدا میں بھی اپنے پڑھنے والوں کو یہی کچھ بتایا ہے کہ محبوب ربانیؒ کی درگاہ سے ہجرت کرنے والا یہ خاندان اپنے نئے وطن پہنچا تو اسے کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کیا گیدڑ سنگھی تھی جس کے گھسانے سے دم بہ دم اس خاندان کے لوگ ترقی کرتے گئے اور آگے بڑھتے گئے۔ جمیل اطہر صاحب کی سرگزشت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے اس خاندان کو دو خوبیوں سے نواز رکھا تھا، اوّل محنت اور محنت بھی ایسی کہ خاندان کی خواتین تک خم ٹھونک کر میدان عمل میں اتر آئیں اور مردوں کے شانہ بشانہ سرگرم عمل ہو گئیں۔ یوں، سرہند شریف کے قاضیوں کے اس خاندان پر اللہ کی کرم نوازی بڑھتی چلی گئی۔ دوسری خوبی یہ تھی کہ یہ لوگ محنت کرنے سے کبھی نہیں گھبرائے اور چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی۔

مثال کے طور پر اس کتاب میں سے کئی واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں لیکن جس واقعے نے مجھے مبہوت کر دیا، یہ ہے کہ جمیل اطہر صاحب کے والد گرامی جس زمانے میں مقامی بلدیہ کے سربراہ تھے، انھوں نے اپنے بیٹے کو ہدایت کی کہ وہ آواز لگا کر شہر میں اخبار فروخت کرے۔ بیٹا یہ کام اس کے باوجود کر گزرا کہ اس پر آوازے کسے گئے اور کہا گیا کہ کیا میونسپل کمیٹی کے وائس چیئرمین پر اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ اس کی اولاد شہر میں اخبار بیچے؟

وہ کون لوگ تھے جنھوں نے آوازے کسے، انھیں تو آج کوئی نہیں جانتا لیکن جمیل اطہر کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے اور وہ لٹا پٹا مہاجر خاندان جس نے نئے ملک میں اپنا کاروبار حیات صفر سے شروع کیا تھا، آج صرف خوش حال نہیں بلکہ اللہ کے فضل وکرم اپنے سیکڑوں ہم وطنوں کو روزگار فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔

یہ کتاب وطنِ عزیز میں چلنے والی مختلف سیاسی تحریکوں کے کچھ ایسے پہلو بھی ہمارے سامنے لاتی ہے جو حالات کی ستم ظریفی اور طاقت وروں کی کج ادائی کے سبب کبھی قوم کے سامنے نہ آ سکے۔ یہ کتاب ہمیں اپنے قومی رہنماؤں اور خواب بیچنے والے قلم کاروں کے انداز فکر و زیست سے بھی آگاہ کرتی ہے۔ مثال کے طور بھٹو صاحب کتنے جذباتی تھے اور ارشاد احمد حقانی جیسے اہل دانش کسی ساتھی کی مدد کرنے میں کس قدر محتاط ہوا کرتے تھے۔ اِس سرگزشت کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں ہمارے بزرگوں میں اتنا ظرف تھا کہ وہ دائیں اور بائیں کی نظریاتی تفریق سے بلند ہوکر نہ صرف مل کرکام کرتے بلکہ اخبار تک نکال لیتے جیسے روزنامہ وفاق، جس کے مصطفیٰ صادق صاحب جماعت اسلامی کے سابقین میں سے تھے اور جمیل اطہر صاحب کا رجحان آزاد پاکستان پارٹی کی طرف تھا جس کے بطن سے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) برآمد ہوئی۔ یوں پڑھنے والا جان پاتا ہے کہ زمانے میں پنپنے کا طریقہ کیا ہے۔

یہ سرگزشت اس کسمپرسی کا ایسا پراثر بیان ہے جس سے گزر کر پاکستان کے دور دراز علاقوں کے صحافیوں نے اس ملک میں صحافت کا پودا کاشت کیا اور اپنے خون جگر سے سینچ کر اسے پروان چڑھایا۔ یہ کتاب محض ایک سرگزشت نہیں، واقعات کے پیچ وخم میں گرفتار کرلینے والے ایک دل گداز ناول اور پلک جھپکے بغیر دیکھی جانے والی فلم کی کہانی ہے، کاش کوئی اسے فلما سکے۔

ٹاپ اسٹوریز