سیکولر بھارت کا چہرہ بے نقاب

غدار کون ہے اور کون قوم و ملک کا دشمن؟علیحدگی پسند کون ہے اور کون دہشت گرد؟ اقوام عالم میں افراتفری، جنگی حالات، طاقت ور ممالک کے دیگر ملکوں پر حملے، سیاسی افراتفری اور جگہ جگہ پراکسی وارز نے ان تمام سوالات کا جواب مشکل بنا دیا ہے۔ بدلتے جغرافیائی اور سیاسی حالات میں حکومتیں جس بے رحمانہ انداز اور بنا سوچے سمجھے اپنے ہی عوام  کو غدار قرار دینے پر تُلی ہوئی ہیں وہ نہ صرف افسوسناک بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔

میرے اکثر دوست اور قارئین جانتے ہیں، اور اس معاملے میں اپنی ایک رائے بھی رکھتے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں لوگوں کو غدار قرار دیا جا تا رھا ہے اور اس مقصد کے لئے بعض اوقات بھونڈے انداز بھی اپنائے جاتے ہیں، لیکن گہری نظر سے جائزہ لیں توآپ دیکھیں گے کہ یہ جانبدارانہ رویہ صرف پاکستان ہی کا خاصہ نہیں اور نہ ہی وہاں تک محدود ہے بلکہ کئی دوسرے بڑے ملک بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ چلیئے، آپ کے سامنے بھارت کی مثال رکھتا ہوں۔

انڈیا میں ماورائے آئین فرقہ ورانہ قتل و غارت کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ان بگڑتے حالات پر 49 شہریوں نے بھارتی وزیراعظم نرینیدرا مودی کے نام کھلا خط لکھ کر ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی، ان میں فلم ساز، مورخ، مصنف اور دیگر نامور شخصیات بھی شامل تھیں۔ انہوں نے اپنے خط میں اپیل کی تھی کہ ملک کے اندر مسلمان اور دالت اقتلیتوں کو ہجوم کے ہاتھوں قتل و غارت روکنے کے لئے اقدامات کریں، لیکن مودی جی اس خط پر تو کیا توجہ دیتے اُلٹا انہی کے خلاف ریاست بہار  میں غداری کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ یہاں اگر ہم چند لمحوں کے لئے ان افراد کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست اس بنیاد پر نظرانداز کر بھی دیں کہ شاہد اس کے پس پردہ کوئی سیاسی مقاصد کار فرما ہوں گے، پھر بھی یہ امر اپنی جگہ قابل حیرت اور ناقابل فہم ہے کہ عدالت نے کیوں کر درخواست کو اہمیت دی اور مقدمہ درج کرنے حکم صادر فر ما دیا۔

غداری سے متعلق معاملات انڈین پینل کوڈ کی سیکشن 124A کا حصہ ہیں جو تھامس ببنگٹن میکیولے کی لکھی ہوئی ہے اور جو 1870 میں انڈین پینل کوڈ میں شامل کی گئی، یہ واضح ثبوت  ہے کہ برطانوی راج میں لکھے گئے اس آرٹیکل کا مقصد مخالفین کو دبا کر رکھنا تھا، سچ یہ ہے کہ اس آرٹیکل کو بہت عرصہ پہلے ہی ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے لئے تو محض یہ دلیل بھی کافی تھی۔ آئین کی اس شق کے مطابق کوئی بھی شخص، اپنے الفاظ (تقریر یا تحریر)،اشاروں یا ظاہری تشبیہات، دیگر طریقوں سے نفرت پھیلائے گا یا اس کی کوشش کرے گیا، حکومت ہندوستان کے خلاف کسی کو بھڑکائے گا یا ایسی کوشش کا مرتکب پایا جائے گا تو اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ ایک تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ مہاتما گاندھی آئین کی سیکشن 124A کو انڈین پینل کوڈ کی سیاست سے متعلق شقوں میں شہزادہ کہا کرتے تھے، یعنی دوسرے الفاظ میں بھارتی سیاست دان اپنے مخالفین پر دباؤ ڈالنے  کے لئے اس کو سب سے موثر ہتھیار سمجھتے رہے ہیں۔ قارئین کی آسانی کے لئے یہاں مزید چند مثالیں پیش ہیں۔

ستمبر 2012 میں ممبئی میں ایک کارٹونسٹ اسیم تریویدی کو محض اس وجہ سے غداری کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا وہ ملک میں عجب کرپشن کی غضب کہانی کو اپنے کارٹونز کےذریعے مسلسل منظر عام پر لانے کی جرات کر رہے تھے۔ پھر فروری 2016 میں طلباء کی تنظیم “جے این جی” کے صدر کنہیا کمار کو غداری کے الزام میں پاپند سلاسل کر دیا گیا، تاہم بعد میں مزید ٹھوس ثبوت حاصل کرنے کی غرض سے انہیں عبوری ضمانت پر رہائی مل گئی۔ پھر اگست 2016 میں بھارت نے تمام اخلاقیات کا جنازہ نکالتے ہوئے انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ درج کر ڈالا۔ یہ ایف آئی آر حکمران جماعت بھارتیہ جنتہ پارٹی کے طلبہ رہنماؤں کے درخواست پر درج کی گئی۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف پولیس میں درخواست دینےوالے شخص کا تعلق اکھل بھارتیہ ودارتھی پریشد پارٹی سے تھا جو آر ایس ایس کے ساتھ گہرا رشتے میں بندھی ہے۔

ستمبر 2018 میں کانگریس پارٹی کی سوشل میڈیا سربراہ دیویا سپاندانہ کو غداری کے اس الزام کے تحت گرفتار کر لیا گیا کہ انہوں نے وزیراعظم مودی پر کرپشن کے الزام عائد کئے تھے۔ اسی طرح جنوری 2019 میں کیمرج یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ اور ریاست آسام کے دانشور 80 سالہ ہیرین گوسین کو سٹیزن شپ کے ترمیمی بل کے خلاف زبان کھولنا مہنگا پڑ گیا اور ریاست نے ان کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ درج کر لیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ سیکولر بھارت کا نقاب اتر رہا ہے اور اصل بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے آرہا ہے۔ حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ کسی بھی شخص یا ادارے کو حکمران جماعت اور اسٹیبلشمنٹ سے کسی بھی معاملے پر اختلاف رائے مہنگا پڑ رہا ہے۔ عوام کے سامنے حقیقی اظہار رائے کی جرات رکھنےوالوں کے خلاف غداری کے مقدمات قائم کرنے کا سیاہ قانون بطور سزا نہایت بے رحمانہ اور سفاکی کے ساتھ آنکھیں بند کر کے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اپنے مخالفین کے لئے اس قانون کا غلط استعمال ایک آمرانہ ریاست کی اس سوچ کا عکاس ہے جو سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتی ہے اور اختلاف رائے رکھنے والے تمام مخالفین کو ملک و قوم کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث سمجھتی ہے۔ دوسری طرف یہ رویہ اُس ریاست کی منفی سوچ ظاہر کرتا ہے جو خود کو ایسے بند کمرے میں رکھنے کی خواہشمند ہے جہاں کوئی دوسری آواز سنائی نہ دے اور اختلاف رائے کی تمام قوتیں حکومتی پالسیوں پر اپنا نکتہ نظر واضح انداز میں بیان نہ کریں، ہر زبان صرف ریاستی ایما پر کھلے اور ہر قلم صرف ریاستی مرضی پر ہی اٹھے۔

اس سال ھیندئستانی مہاتما گاندھی کا 150واں جنم دن بھی جوش و خروش سے منا رہے ہیں، اس تناظر میں اختلاف رائے اور تنقید پر بھارت سرکار کی بڑھتی ہوئی عدم برداشت نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ دنیا پر بھارت کی حقیقت بھی آشکار کر رہی ہے۔ گاندھی جی بہت جمہوریت پسند انسان تھے، اگرچہ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کسی رسم و رواج کی پیروی کی ضرورت نہیں، تاہم باشعور طبقہ اُنہی کے ملک میں جمہوریت کو نیچا دکھانے کی  کوششوں پر خاموش تماشائی بن کر بیٹھ سکتا ہے اور نہ ہی زور زبردستی کے ذریعے ایسے لوگوں سے اختلاف رائے کا مقدس حق چھینا جا سکتا ہے۔

اگرچہ بھارت دنیا بھر میں اپنا تشخص ایک سیکولر ملک کے طور پر برقرار رکھنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے، لیکن اس ملک کے اندر جھانکیں تو انتہاپسندی اور قانون کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے اقدامات عروج پر نظر آئیں گے۔ گذشتہ چند ماہ کے تلخ واقعات عالمی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں جس کے بعد انڈیا سیکولر ملک کی حیثیت سے اپنا تشخص اور ساکھ کھو رہا ہے۔

آئین جہاں ایک طرف ریاست کو تحفظ دیتا ہے وہیں شہریوں کو آزادی اظہار رائے کا حق بھی دیتا ہے، اس لئے جدید دور میں زیادتیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو آئین کی آڑ میں دبانا اب بھارتی حکومت کے بس میں نہیں ہے۔

ٹاپ اسٹوریز