گلاس توڑا بارہ آنے

آوازہ

گلاس توڑا بارہ آنے

چند برس ہوتے ہیں، ہمارے طلعت حسین خفا ہو گئے۔ سبب یہ تھا کہ ہمارے ٹیلی ویژن چینل برطانیہ کے شاہی خاندان پر اتنا فدا کیوں ہوئے جاتے ہیں؟ اصل میں ہوا یوں کہ شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ مڈلٹن رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ برطانوی عوام کے لیے تو یہ موقع خاص تھا ہی، ہمارے ٹیلی ویڑن نے اسے ہمارے لیے بھی خاص بنا دیا۔ شادی کی تقریبات دکھانے کے لیے گھنٹوں نشریات جاری رکھی گئیں۔ اس دوران میں خبروں کے جو بلیٹن آئے، ان کی تمام تر سرخیاں بھی کم و بیش اسی واقعے سے متعلق بنائی گئیں۔

طلعت حسین کا اعتراض یہ تھا کہ کسی شاہی خاندان میں ہونے والی شادی میں ایسی کیا بات ہے کہ اس کے لیے گھنٹوں نشریات کا اہتمام کیا جائے؟ انھوں نے اپنا یہ سوال دو دوستوں، جناب مبشر زیدی اور برادرم معصوم رضوی کے سامنے رکھا۔ بحث کچھ طوالت پکڑ گئی، کچھ ٹریک سے بھی ہٹی لیکن ایک نتیجہ سامنے آ گیا کہ اس واقعے میں خبریت ہو یا نہ ہو، تفریح Entertainment کا پہلو بہرحال اس میں موجود ہے۔ واضح رہے باخبر رکھنے کے ساتھ ساتھ صحافت کی ایک اہم ذمہ داری اپنے دیکھنے سننے والوں کو محظوظ بھی کرنا ہے۔

طلعت حسین اس جواب سے متفق ہوئے یا نہیں، یہ سوال غیر متعلق ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ شاہی خاندان سے متعلق خبروں میں اہل پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں دلچسپی لی جاتی ہے جیسے ان دنوں شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ شہزادی کیٹ مڈلٹن کے دورہ پاکستان میں غیر معمولی دلچسپی لی گئی، لیکن سوال یہ ہے دلچسپی سے مراد کیا ہے اور پائیدار دلچسپی کیا ہوتی ہے؟

کسی واقعے میں دلچسپی کی انتہا یہ ہے کہ اس کی معمولی سے معمولی تفصیلات کا بھی خیال رکھا جائے جیسے ہمیں میڈیا نے بتایا کہ شاہی جوڑے نے کس کس رنگ اور کس کس طرز کے کپڑے زیب تن کیے، ان کپڑوں کے ڈیزائن کس نے تیار کیے اور کس کے حصے میں انھیں سینے کی سعادت آئی۔ ان کے لیے کیسے کیسے کھانے تیار کرائے گئے۔ مین کورس کیا تھا اور سائیڈ لائن نیز ڈیزرٹ وغیرہ کی نوعیت کیا تھی۔

شاہی جوڑے کی مہمان داری کے لیے کیے جانے والے اہتمام کی تفصیلات جاننے کے لیے ہمارے رپورٹروں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی، انھیں اپنے ناظرین کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اپنی تمام تر پیشہ ورانہ تربیت ہی بروئے کار نہیں لائے بلکہ اس معاملے میں انھوں نے تخلیقی مہارت کا ثبوت بھی فراہم کیا۔ پیشہ ورانہ نکتہ نظر سے ان کوششوں کی تعریف کی جانی چاہیے لیکن اس معاملے کو ذرا مختلف انداز میں بھی دیکھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

دو امریکی مفکرین کرٹ لینگ اور ان کی اہلیہ گلیڈی لینگ نے ساٹھ کی دہائی میں اپنی برسوں کی تحقیق کی روشنی میں ایک نظریہ پیش کیا جسے میڈیا ملائس کا نام دیا گیا۔ اس نظریے کے مطابق ابلاغ عامہ کی سرگرمیاں عوام میں اضطراب کی کیفیت پیدا کرتی ہیں جس کے اثرات دو دھاری ہوتے ہیں۔ مثلاً ذرائع ابلاغ اگر سیاسی سرگرمیوں کی کوریج کے دوران اصل اور بنیادی مسائل سے صرف نظر کر کے ضمنی یا غیر ضروری موضوعات پر توجہ مرکوز کر دیں گے تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ انتخابات کے زمانے میں اہل صحافت اگر مختلف سیاسی جماعتوں کے منشور اور بنیادی مسائل کے بجائے انتخابی رسہ کشی، سرمایے کے استعمال اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے واقعات کو بنیادی مسئلے کے طور پر پیش کریں گے تو اس کے دو طرح کے نتائج ہوں گے۔ اول، لوگ سیاست، سیاسی اداروں اور سیاسی قائدین سے متنفر ہو کر ان سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے اور دوم، ایک وقت آئے گا جب وہ صحافت سے بھی فاصلہ اختیار کرلیں گے۔

ممکن ہے کہ بعض دوستوں کے لیے یہ تجزیہ دھماکہ خیز ہو اور وہ اس سے اتفاق نہ کرسکیں۔ ایسے احباب کے لیے گزارش ہے کہ مغربی دنیا کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد ان نتائج پر پہنچی ہے جن کی مدد سے ترقی یافتہ ممالک کی صحافت میں سنجیدگی کی وہ روایت پختہ ہوئی جس میں چمک دمک اور بھڑکیلے انداز کے بجائے ٹھوس خبر پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔

اس پیمانے پر اگر شاہی جوڑے کے دورہ پاکستان کی کوریج کو پرکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس معاملے میں بھی بنیادی بات کو نظرانداز کر کے ضمنی اطلاعات کی فراہمی پر جان لڑا دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ برطانوی سیلبریٹیز کے اس دورے میں اگر چمک دمک، چال ڈھال اور رنگ و نور خبر نہیں ہے تو پھر خبر ہے کیا؟

خبر یہ ہے کہ برطانوی شاہی جوڑے کی آمد ایسے وقت ہوئی ہے جب دشمن ہی نہیں خود ملک کے اندر بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس تاثر پر یقین رکھتی ہے کہ پاکستان ان دنوں عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے۔ معیشت تباہ حال اور ریاست کی مشینری اپنی پوری رفتار اور صلاحیت کے مطابق کام نہیں کر رہی۔

اس طرح کے تاثر کے باوجود اگر برطانوی شاہی جوڑا ایک دو نہیں پورے پانچ روز کا دورہ کرے اور صرف دارالحکومت یا بڑے شہروں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ دور دراز علاقوں حتیٰ کہ چترال تک جا پہنچے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکی صورت حال ویسی نہیں جیسی بعض لوگ سوچتے ہیں یا جس کا دشمن پروپیگنڈا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان پر امن اور محفوظ ملک ہے۔ یہاں سیاحت کی جا سکتی ہے، کاروبار کیا جا سکتا ہے اور اگر کچھ مسائل ہیں تو وہ اتنے شدید نہیں کہ حل نہ کیے جاسکیں۔

شاہی جوڑے کے دورہ نے پاکستان کے بارے میں ان پہلوؤں کو اجاگر کر کے امکانات کی ایک نئی دنیا آباد کر دی ہے لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ میں اس واقعے کا یہ پہلو بحث کا موضوع ہی نہیں بن سکا اور اگر بنا بھی ہے تو گفتگو کے ایجنڈے میں اتنا نیچے رہا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں بن پائی۔

عوامی چائے خانوں اور روٹی سالن کے ڈھابوں پر ایک کہاوت مقبول ہے، کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ انے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ قومی سیاسی معاملات ہوں یا شہزادہ ولیم جیسی شخصیات کے دورے یا ایسے ہی دیگر واقعات، وہ اپنی توجہ بنیادی مسائل کے بجائے فروعات پر مرکوز کر دیتے ہیں، اس کے باوجود بڑی معصومیت سے سوال کیا جاتا ہے کہ ہماری صحافت کا حال اتنا پتلا کیوں ہے؟

ٹاپ اسٹوریز