صدر ٹرمپ کا مواخذہ، امریکی سیاست کا درد سر

امریکی صدر نے ایران پر بڑے حملے کی دھمکی دے دی

امریکہ کی اندرونی سیاست میں ان دنوں خوب ہلچل ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ دنیا کے طاقت ور ترین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت مواخذے کی نہ رکنے والی کارروائی کا سامنا ہے اور ان کےخلاف تحقیقات جاری ہیں۔ ان کے خلاف یہ کارروائی اپنے ایک سیاسی حریف کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے دوسرے ملک پر دباؤ ڈالنے کے الزام کے تحت کی جا رہی ہے۔ یہ تنازع اُس وقت سامنے آیا جب صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر اپنےسیاسی حریف اور 2020 کے الیکشن میں صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے خاندان کے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے لئے یوکرائن پر دباؤ ڈالا تھا۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے کسی بھی غیر قانونی اقدام کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے تمام عمل کو اپنی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش قرار دیا ہے، تاہم اُن کے قائم مقام چیف آف اسٹاف میک ملوانے کے اس بیان سے کہ، یوکرائن کے لئے منظور شدہ امداد صدر ٹرمپ کے تحفظات کی بنیاد پر روکی گئی تھی، صدر کی مشکلات میں اضافے کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔

میک ملوانے نے وائٹ ہاؤس میں بریفنگ کے دوران بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نے یوکرائن کے لئے 400 ملین ڈالر کی سیکورٹی امداد محض اس وجہ سے روک لی تھی کہ اُن کے سیاسی حریف جوبائیڈن کے بیٹے کے خلاف کرپشن کی تحقیقات شروع کرنے کے لئے اس پر زور دیا جاسکے۔ انہی عوامل کے باعث صدر ٹرمپ گذشتہ ہفتے کے دوران کافی تناؤ میں رہے اور اُن کی نیندیں بھی اڑی رہیں۔ ختٰی کہ انہوں نے اپنی انتظامیہ کو یہ حکم بھی دے ڈالا کہ مواخذے کی کارروائی کے عمل میں ہر قسم کا تعاون ختم کر دیا جائے، تاہم اس صدارتی حکم کے باوجود بند کمروں میں تفتیش کاروں کے سامنے شہادتیں ریکارڈ کرانےوالے امریکی حکام کا تانتا بندھا ہے۔

مواخذے کی ان تحقیقات کے دوران منظر پر آنے والے بیانات اور امریکی قانون سازوں کے اکاؤنٹس سے ایسی شیڈو خارجہ پالیسی کی تصویر سامنے آتی ہے جس کا مرکز و محور صدر ٹرمپ کے ذاتی وکیل روڈی جولیانی ہی تھے۔

بیانات ریکارڈ کرانے والوں میں روس کے لئے صدر ٹرمپ کی ماضی میں سب سے اہم مشیر فایونا ہل بھی شامل تھیں۔ ہاؤس کے پینل کے سامنے دس گھنٹے طویل شہادت ریکارڈ کراتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ صدر ٹرمپ کے سابق سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن دراصل روڈی جولیانی کی سرگرمیوں سے سخت  ناراض تھے، انہوں نے ہی  روڈی جولیانی کو وہ “دستی بم” قرار دیا تھا جو دھماکےسے سب کو تباہ کر دے گا۔

ایک اور صاحب گورڈن سونڈ لینڈ ہیں۔ انہیں صدر ٹرمپ کی استقبالیہ کمیٹی میں ایک ملین ڈالر عطیہ کرنے کے باعث یورپی یونین کے لئے امریکا کا سفیر مقرر کیا گیا۔ اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے گورڈن سونڈ لینڈ نے بتایا کہ ایک تو وہ روڈی جولیانی کی متوازی سفارتکاری سے سخت نالاں تھے اور دوسرا جولیانی کے مخصوص مقاصد بھی اُن سے پوشیدہ تھے۔

محکمہ دفاع، آفس آف منیجمنٹ اینڈ بجٹ اور قومی سلامتی کونسل کے دیگر حکام آنے والے دنوں میں ہاؤس کی تحقیققاتی کمیٹیوں کے سامنے پیش ہو کر اپنی شہادتیں  ریکارڈ کرائیں گے۔ ان میں سے اہم ترین بیان یوکرائن میں موجودہ امریکی سفیر ویلیم ٹیلر کا ہوگا۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے امداد روکے جانے پر سوال اٹھایا تھا؟

صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحقیقات اس بنیادی سوال سے شروع ہوئی تھیں کہ آیا انہوں نے امداد یوکرائن کے نئے صدر ولادیمر زیلنسکی کے دورہ امریکا کی راہ میں روڑے اٹکانے کی غرض سے روکی تھی تاکہ 2020 کے امریکی الیکشن میں اہم ترین صدارتی امیدوار جو بائیڈین کی فیملی کے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات شروع کرانے کے لئے اُن پر دباؤ ڈالا جا سکے؟

ادھر ریپلکن پارٹی اپنے اس موقف پر ڈٹی نظر آتی ہے کہ مواخذے کی کارروائی کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں اور اس کیس سے کچھ نہیں نکلنے والا، لیکن گذشتہ جمعرات کو بریفنگ کے دوران میک ملوانے کا اعتراف سامنے آنے کے بعد حکومتی نمائندوں کے لئے صدر ٹرمپ کے اس عمل کا دفاع اور چبھتے سوالات نظر انداز کرنا کافی مشکل ہو گیا ہے۔ اگرچہ صرف ایک دن بعد یعنی جمعہ کو ہی میک ملوانے کے بیان کی تردید سامنے آگئی تھی، لیکن اُس وقت تک اُن کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اپنا اثر دکھا چکے تھے جس سے صدر ٹرمپ کی صدارتی الیکشن  مہم کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

شام میں ترکی کی کارروائی عالمی منظر نامے پر اس وقت اہم ترین مسئلہ ہے۔ ری پبلکن پارٹی، صدر ٹرمپ کی جانب سے شمالی شام سے اچانک فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر بھی پریشان دکھاتی دیتی ہے۔ خارجہ پالیسی پر ہاؤس اختلاف کا شکار ہے اور اندر کی باتیں ہر جگہ زیر بحث ہیں۔ اسپیکر نینسی پولوسی نے وائٹ ہاؤس میں ایک اجلاس کے دوران کھل کر شامی حکومت کو شکست دینے کی پالیسی کی حمایت اور ترکی پر پابندیاں ختم کرنے کی مخالفت کی ہے۔

گذشتہ دو ہفتوں کے دوران کچھ ایسے عوامل بھی منظر عام پر آئے ہیں کہ جنہوں نے صدر کے خلاف تحقیقات کرنے والی انٹیلی جنس اور خارجہ امور کمیٹیوں کے لئے مواخذے کے معاملے کو مزید حساس بنا دیا ہے۔ مئی میں یوکرائن میں تعینات امریکی سفیر میری یوانووچ کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ وہ کمیٹی ارکان کو بتاتی ہیں کہ انہیں صدر ٹرمپ اور اُن کے ذاتی وکیل روڈی جولیانی کی “ٹھوس مہم” پر اعتراض تھا۔ وہ کہتی ہیں ان دونوں شخصیات کے اقدامات قابل گرفت تھے۔

اس وقت تمام نظریں امریکی سیاست پر جمی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ڈیموکریٹس کب تک مواخذے کی کارروائی کے آغاز اور سینیٹ میں ووٹنگ کے لئے قرارداد پیش کرنے کے لئے کافی معلومات جمع کر پاتے ہیں۔ اگر ہاؤس میں صدر کے مواخذے کی کارروائی شروع ہو بھی جاتی ہے اور منظوری کے لئے سادہ اکثریت بھی حاصل ہو جاتی ہے، پھر بھی انہیں عہدے سے ہٹانے کے لئے ضروری ہے کہ سینیٹ بھی انہیں مجرم ٹھہرائے۔ امریکا میں کسی صدر کے مواخذے کا مطلب یہ ہے کہ مقدمے کی بنیاد بننے والے الزامات کانگریس میں لائے جائیں، مواخذے کی کارروائی ایوان نمائندگان سے شروع ہوتی ہے اور منظوری کے لئے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے، بعد میں مقدمہ سینیٹ میں چلتا ہے۔ سینیٹ میں اکثریتی لیڈر میچ میکلن نے ریپبلکن پارٹی کے سینیٹرز سے کہا ہے یوم تشکر تک مواخذے کی کارروائی کے لئے تیار رہیں کیونکہ ریبلکن پارٹی کے ارکان خود بھی ذاتی طور پر کہہ رہے ہیں کہ ہفتے میں چھ دن کارروائی کرتے ہوئے کرسمس تک مواخذے کے اس معاملے کو نمٹا دیا جائے۔ اب تک دو امریکی صدورکا مواخذہ ہوا ہے جن میں بل کلنٹن (1998)  اور  اینڈریو جانسن (1868) شامل ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز