یاؤ جنگ اور سی پیک

آوازہ

شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونے والا تھا۔ اس سلسلے میں چین میں جو تیاریاں ہو رہی تھیں، وہ اپنی جگہ، پاکستان میں بھی جوش و خروش غیر معمولی تھا کیونکہ خطے کے اس غیر معمولی اتحاد میں رکن کی حیثیت سے پاکستان کی مکمل شمولیت کے بعد یہ پہلا اجلاس تھا جس میں پاکستان کی نمائندگی صدر مملکت ممنون حسین کو کرنی تھی۔ ان ہی تیاریوں کے سلسلے میں چین سے صحافیوں کا ایک وفد پاکستان پہنچا تو چین کے سفیر عزت مأب یاؤ جنگ (H.E. Yao Jing) اسے خود اپنے ساتھ لے کر ایوانِ صد ر پہنچے۔ یاؤ جنگ سے یہ میری پہلی ملاقات ہرگز نہیں تھی لیکن غیر معمولی ضرور تھی کیونکہ صدر مملکت کے ملاقات کے کمرے میں آنے سے پہلے تادیر ان سے گپ شپ رہی۔

انھیں معلوم ہوا کہ میں بھی پاکستانی وفد کا حصہ ہوں تو وہ کچھ اور کھل گئے۔ یہ کانفرنس چین کے ساحلی شہر چنگ ڈاؤ(Qingdao) میں ہونے والی تھی۔ وہ سفیروں جیسے سرد مہر روّیے کے تو پہلے بھی کچھ ایسے قائل نہ تھے لیکن پاک چین اقتصادی راہ داری کے بارے میں صدر مملکت کے پرجوش روّیے کے باعث وہ یہاں ویسے بھی بے تکلفی محسوس کیا کرتے تھے، اس روز وہ کچھ مزید بے تکلف ہو گئے اور انھوں نے پرجوش طریقے سے کہا کہ You will feel a difference in Qingdao my dear! ۔یہ علاقہ چین کا جزو لاینفک ہے لیکن چونکہ جرمن نوآبادیاتی رہا ہے، اس لیے چینی تہذیب کے آثار کے ساتھ ساتھ یہاں جرمن تہذیب کے مظاہر اور طرزتعمیرکے آثار بھی ملتے ہیں۔ یوں یہ شہر چینی جرمن تہذیب کے ایسے شاندار مظاہر پیش کرتا ہے کہ دیکھ کر طبیعت شاد ہو جاتی ہے۔

یہ شہر چنگ(Qing) کے خاندان سیکڑوں برس قدیم ورثے کا بھی امین ہے جس نے کم از کم تین سو برس اس خطے پر حکمرانی کی۔ چنگ تہذیب کے آثار نے بھی اس شہر کو ایک ایسی بزرگی عطا کر دی ہے جسے دیکھ کر سیاح مبہوت ہو جاتے ہیں۔ سفیر محترم کا اشارہ اسی جانب تھا۔ جناب یاؤ جنگ (Mr. Yao Jing) کی ایسی ہی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے پاکستان میں ان کی تعیناتی کے فوراً ہی بعد یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ ڈپلومیٹ برادری میں شامل ہونے والا یہ نسبتاً جواں سال سفیر اپنی کارکردگی کا ایک ایسا نقش ثبت کرنے میں کامیاب رہے گا جسے دیر تک یاد رکھا جا سکے گا۔

مجھے خوشی ہے کہ اب اس تاثر کی نہ صرف تصدیق ہو رہی ہے بلکہ یہ شخص تو اندازوں سے بھی بڑھ کر متحرک اور درد مند ثابت ہو رہا ہے۔سبب اس کا یہ ہے کہ گزشتہ برس ڈیڑھ برس کا عرصہ ایسا گزرا ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ پاک چین تعلقات، خاص طور پر پاک چین اقتصادی راہ داری جیسے منصوبے آزمائش کا شکار ہیں۔ ایسے اندازے لگاتے ہوئے بعض اوقات وہ بین الاقوامی عوامل بعض اوقات نگاہوں سے اوجھل کر دیے جاتے ہیں جواِن آہنی بھائیوں کے روز افزوں تعلقات اور ان دونوں کے تعاون سے تشکیل پانے والے منصوبوں کے خلاف ہیں حالانکہ یہ منصوبے نہ صرف اس خطے کی ترقی و استحکام کے ضامن ہیں بلکہ پوری انسانیت ان سے مستفید ہوسکتی ہے۔

ان وجوہات کے باعث جب یہ منصوبے آزمائش کا شکار ہوئے تو مجھے خوشی ہے کہ اس مرحلے پر سفیر محترم نے ایک اولی العزم اور متحرک وژنری کی طرح معاملات کو سنبھالا، پاک چین اقتصادی راہ داری کے منصوبے کے بارے میں خدشات پیدا ہو رہے تھے کہ اب کہیں وہ تاریخ کا گم شدہ باب بن کر نہ رہ جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس زیر تکمیل منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ بجلی کی پیدا وار کے کئی منصوبوں سے پید اوار شروع ہواچکی ہے جو شاہراہیں زیر تکمیل تھیں، ان کی تعمیر نہ صرف مکمل ہو چکی بلکہ اب ان پر ٹریفک پوری آب و تاب سے رواں دواں ہے اور یہ قومی معیشت کے استحکام میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

یہ اطلاع بھی بہت حوصلہ افزا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان گوادر فری زون رعائتی معاہدے کی نہ صرف توثیق ہو چکی ہے بلکہ اس پر کام تیز کرنے پر بھی اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اس منصوبے میں چینی سرمایہ کارگہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ بہت جلد اس اہم منصوبے پر تعمیراتی کام شروع ہو جائے گا کیوں کہ یہی وہ اہم منصوبہ ہے جو اقتصادی راہداری کے عظیم منصوبے کی شان و شوکت میں اضافہ کرے گا۔
شاہراہیں اور موٹرویز بھی اگرچہ اس منصوبے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن جب تک ان دونوں خطوں کو ریل کی پٹڑی باہم نہ ملائے، ذرائع آمد و رفت کے اخراجات میں بامعنی کمی رونما نہیں ہو سکتی۔ اس پس منظر میں راہداری کو ریل سے منسلک کر دینے کے منصوبے ایم ایل ون پر پیش رفت بھی نہایت اطمینان بخش ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں کوملانے والا یہ تیز رفتار سفری ذریعہ نہ صرف اقتصادی ترقی کی رفتار میں تیزی پیدا کرنے کا باعث بنے گا بلکہ اس کے نتیجے میں خود پاکستان کے سفری شعبے خاس طور پاکستان ریلوے میں انقلابی تبدیلیوں کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔

عوامی جمہوریہ چین نے گزشتہ تیس پینتیس برس کے عرصے میں غیر معمولی ترقی کی ہے اور اپنے کروڑوں عوام کو غربت کی گہرائیوں سے نکال کر خوشحالی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے، میں توقع کرتا ہوں کہ اقتصادی راہداری کے یہ منصوبے پاکستان کے لیے بھی چین کے اس تجربے کو دہرانے کا باعث بنیں گے اور ہمارے دیس میں بھی ترقی و خوش حالی کا سورج طلوع ہو گا۔ خوابوں کو تعبیر دینے کے اس سفر میں جہاں پاکستانی اور چینی قیادت کے کردار کو تادیر یاد رکھا جائے گا،وہیں چین کے سفیر یاؤجنگ (Yao Jing) کی خدمات کی بھی ہمیشہ تعریف کی جاتی رہے گی۔

ٹاپ اسٹوریز