بیمار نواز شریف

خبر ہونے تک

نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس نامکمل ہونے کا انکشاف

مسلم لیگ کے سزا یافتہ قائد نواز شریف کی علالت نے پاکستان کی سیاست، صحت اور عدل کے شعبوں میں نئے باب تحریر کیے ہیں۔ طبی بنیاد پر ضمانت جہاں عدلیہ کی تاریخ کا ایک نیا باب ہے وہاں سیاست دانوں کی بیماریوں کی داستانوں نے بھی ایک نیا موڑلیا ہے۔ آج تک یہ سمجھا گیا ہے اور حقیقت بھی ہے کہ سیاست دانوں کی بیماریاں بھی ایک سیاست ہی ہوا کرتی ہیں۔ بیماریوں کی سیاست بھی سیاستدانوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ ملک کے نامور سیاست داں جب کبھی گرفتار ہوتے تھے کچھ وقت گزرتا نہیں تھا کہ کسی نہ کسی بیماری کے بہانے اسپتال پہنچ جاتے تھے بیمار سیاستدانوں کے حوالے یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ نہ صرف اسپتال میں ان کے کمرے گھر کے بیڈروم سے زیادہ آرام دہ ہوتے تھے بلکہ گھر سے زیادہ سہولتیں میسر ہوتی تھیں۔ کچھریاں ہوتی تھیں دوستوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا جبکہ کچھ راتیں گھر پر بھی گزارلیا کرتے تھے لیکن مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کی بیماری کوئی سیاست نہیں بلکہ سیاست میں بھونچال کے مترادف ہے۔ اس بھونچال کی شدت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ ان کی صحت سے متعلق خبریں اچھی نہیں آرہی ہیں۔ اس کا اندازہ شاید حکومت خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کو بھی ہوا ہے بلکہ اس بیماری میں چھپی ملکی سیاسی صورت حال جس کا براہ راست تعلق ان کی حکومت سے بنتا ہے۔

اس کا بھی ادراک وزیراعظم کو ہو گیا ہے وہ پہلی بار اس حوالے سے سنجیدہ نظر آئے ہیں۔ انھوں نے نواز شریف کے ساتھ مریم نواز کو بھی ہر ممکنہ سہولت فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے اور اپنے لوگوں کو زبان بند رکھنے کو کہا ہے۔ میاں صاحب کی صحت پر غیر سنجیدگی کا عنصر بھی غالب ہے۔ میڈیا میں ایک حلقہ شور مچاتا ہے کہ میاں صاحب  باہر جانے کو راضی ہوگئے اور شہباز شریف نے انھیں منا لیا، مریم نواز بھی ساتھ جائیں گی۔ 2000 کی طرح جہاز تیار کھڑا ہے، ائر ایمبولینس بھی تیار ہے۔

پھر ایک حلقہ کہتا ہے کہ نواز شریف نے ہر پیش کش مسترد کردی ہے انھوں نے باہر جانے سے صاف انکار کردیا ہے۔ ان کے نزدیک نواز شریف کی بیماری اور ملکی حالات الزامات جوابی الزامات کے سوا کچھ نہیں  میڈیا میں جگت بازی کرنے والے بعض حکومتی طرفدار اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے بعض ان کے ہمنوا اس نازک ترین  صورت حال پر بھی جگت بازی کرتے نظر آتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن اور آرمی چیف کی ملاقات کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں میں جو الفاظ آرمی چیف کے حوالے سے سامنے آئیں ہیں کہ مائینس ون نہیں پھر کئی مائینس ہوں گے معنیٰ خیز ہے جگت بازوں کے باعث حالات اسی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ نواز شریف کی بیماری کتنی شدت کی ہے یہ تو ڈاکٹر ہی بتا سکتے ہیں اور وہ بتا رہے ہیں مگر یہ جگت باز اس میں بھی فائدہ اور نقصان ڈھونڈ رہے ہیں کہا جارہا ہے کہ خدانخواستہ نواز شریف کو کچھ ہوا یا انھیں بیرون ملک بھیج دیا گیا تو نقصان مولانا کا ہو گا ان آزادی مارچ ماند پڑجائے گا۔

اس طرح حکومت ایک ممکنہ بحران سے نکل آئے گی یعنی نواز شریف کی بیماری میں بھی کچھ لوگ سیاسی نفع اس طرح دیکھ رہے ہیں وہ خود تو صورت حال کا مقابلہ کر نہیں سکتے دعا گو رہتے ہیں کہ خدا ان کے مخالف کو ہی کسی طرح میدان سے باہر کردے تاکہ مقابلہ کیے بغیر جیت جائیں۔ یہ لوگ صورت حال کا غلط اندازہ کر رہے ہیں یا شاید حکومت خاص طور سے عمران خان کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اگر نوازشریف کو کچھ ہوا یا انھیں زبردستی یا کسی سازش کے تحت باہر  بھیجا گیا تو مولانا کی تحریک میں کمی نہیں مزید شدت آئے گی ابھی مسلم لیگ ن کے کارکن اپنے قائد کی سیاسی ہدایت پر آزادی مارچ میں شریک ہوں گے پھر جذباتی عنصر بھی شامل ہوجائے گا۔ سیاست اور جذبات ایک ہوجائیں تو انجام کا پتہ نہیں چلتا، 1968اور1977کی تحریکیں ہمارے سامنے ہیں۔

دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی تحریک نواز شریف یا  آصف زرداری کی مدد سے شروع کرنے کافیصلہ نہیں کیا ہے  انھوں نے اپنی سیاسی اور تنظیمی قوت کے بل بوتے پر ہی آزادی مارچ کا فیصلہ کیا ہے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کی حمایت ان کے لیے  برابر کا بونس ہے،

نواز شریف کی علالت سے پیدا ہونے والی سنگین سیاسی صورت حال میں آنے والی تبدیلی خاص طور سے فریقین کے روویوں میں نرمی  کا سہرا مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت کے سر باندھاجارہا ہے  بیان کیا جارہا ہے چوہدری شجاعت جو مزاکرات نہیں معاملات کو طے کرنے پر یقین رکھتے ہیں جنھیں گفتگو کا فن آتا ہے۔ ان سے گفتگو کے بعد بندہ ان کی بات سے انکاری نہیں رہ سکتا جنھوں نے پرویز مشرف کی حکومت سازی میں اہم کردار ادا کیا  سترویں ترمیم کو پارلیمیٹ سے منظور کرانے کے لیے متحدہ مجلس عمل کو راضی کرنابھی ان ہی کی  حکمت عملی تھی اور پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت بناکر تاریخ بدل دینا ان ہی کا کمال تھا اس سے پہلے مسلم لیگ کی حکومتوں کے قیام میں دیگر جماعتوں سے اتحاد میں بھی پیش پیش رہے ہیں موجودہ وقت میں بھی مبینہ طور پر پنجاب کے گورنرچوہدری سرور کے زریعے وزیر اعظم نے چوہدری شجاعت سے تعاون مانگا چوہدری شجاعت پی ٹی آئی حکومت کے اتحادی ہیں مگر ان کے شریف خاندان سے دیرینہ تعلقات بھی ہیں ایک طویل عرصے تک سیاسی ہم سفر بھی رہے ہیں ان کوششوں سے ایک طرف حکومت خاص طور سے وزیراعظم عمران خان کی سوچ اور رویے میں مثبت تبدیلی آئی دوسری طرف شریف خاندان بھی سننے کے لیے تیار ہوا میاں نواز شریف جیسا سخت سیاسی سوچ رکھنے والا سیاستداں عمران خان جیسا اڑ جانے والا وزیراعظم اپنی اپنی پوزیشنوں سے ہٹنے پر مجبور ہوگئے ہیں

نواز شریف کی بیماری ان کے اور ان کے خاندان کے لیے تو تشویشناک ہے ہی لیکن ملک سیاست اور ملک کے لیے بھی تشویشناک ہے۔ جن حالات میں وہ اس صورت حال تک پہنچے ہیں براہ راست اس کا الزام حکومت اور نیب کو دیا جارہا ہے۔ نوازشریف کو جن حالات میں سزا اور جیل ہوئی اسے قوم اب تک مطمئن نہیں ہے کیس پانامہ سزا اقامہ میں۔

پانامہ سمیت دیگر کیس جن میں نواز شریف پر کرپشن کے الزامات ہیں ان پر حکومت کو طرح طرح کے سوالات کا سامنا ہے۔ پیپلز پارٹی چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے براہ راست نیب کے چیئر مین پر الزام لگادیا ہے اور کہا ہے کہ چیئرمین نیب سے جواب لیا جائے گا۔ نیب اور حکومت دونوں کا امتحان شروع ہوچکا ہے۔

ٹاپ اسٹوریز