غلطی تسلیم کریں

کراچی سے اسلام آباد کی فلائٹ دو گھنٹے لیٹ تھی۔ جس جہاز نے رات نو بجے پرواز کرنی تھی، اس کا وقت گیارہ بجے کر دیا گیا تھا۔ میں نے ائیر لائن کی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور وقت کی تبدیلی کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو بتایا یہ گیا کہ کچھ آپریشنل مسائل ہیں جو کہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں اس لیے انتظار کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

آخر خدا خدا کر کے گیارہ بچے جب جہاز پرواز بھرنے لگا تو ائیر ہوسٹس کی طرف سے معزرت کا اعلان کیا گیا اور اس نے بھی یہی بات دہرائی کہ چند آپریشنل معاملات کی وجہ تاخیر کا سبب بنی اور یہ معاملات ہمارے دائرہ اختیار سے باہر تھے اس لیے معذرت۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ان کے اعلان سے ہمیں یہ نہیں پتا چل سکتا کہ تاخیر کا معاملہ اصل میں کیا تھا، اس وقت تک ہم کیسے یہ یقین کر لیں کہ تاخیر کی ذمہ داری ادارے پر نہیں ہے؟ اس کا تعین کرنے کے لیے تو پورے معاملے کی تفصیل درکار ہے۔ اور چلیں مان بھی لیا جائے کہ چند آپریشنل معاملات کی وجہ سے ایسا ہوا تو ان آپریشنل معاملات کو کنٹرول کرنا بھی آپ کے ادارے کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس تاخیر کی وجہ سے جن لوگوں کا نقصان ہوا، اس کی ذمہ داری کون لے گا۔ مگر یہاں اپنی غلطی کون تسلیم کرتا ہے۔

یہ روش ہمارے پورے معاشرے کا خاصہ بن چکی ہے۔ کوئی ایسا نہیں ملے گا جو کسی بات کی ذمہ داری لینے کو تیار ہو۔ چھوٹے معاملات سے شروع کرتے ہیں۔ اپنے بچے کے اسکول جائیں اور اس کی ٹیچر یا پرنسپل سے بچے کی غیر تسلی بخش کارکردگی پر بات کریں۔ وہ نہایت آسانی سے مدعا یا تو گزشتہ اسکول، گزشتہ کلاس کی ٹیچر یا پھر آپ والدین پر ہی ڈال دے گا کہ یہ سب کچھ آپ کے دلچسمی نہ لینے کی وجہ سے ہوا۔ اسکول تو اپنا کام بالکل صحیح کر رہا ہے۔

کسی ڈاکٹر کے پاس جاکر اسے کہیں کہ آپ کی دواوں سے کوئی افاقہ نہیں ہوا تو وہ تمام بیماریوں کی جڑ پچھلے ڈاکٹر کی غلط تشخیص اور غلط دواوں کو قرار دے دے گا۔ اس کے پیچھے دیوار پر لگی ڈگریاں اور اس کا لہجہ یہی بتائے گا کہ وہ کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا۔

اپنے آفس میں دیکھ لیں۔ کسی غلطی کا ذمہ دار ڈھونڈنا نا ممکن بات ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے عہدے والا اور بڑے سے بڑے عہدے والا شخص یوں دوسروں پر الزام لگائے گا کہ جیسے وہ سب سے زیادہ محنت کرنے والا شخص ہے، اس کی تنخواہ بھی اسب سے کم ہے اور ان تمام غلطیوں کے حوالے سے اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔

ایوانوں کی بات کر لیں۔ جو حکومت میں آتا ہے، اس کی الیکشن کی تقاریر کا جائزہ لیں تو اس کا دعوی یہی ہوتا ہے کہ بس میری حکومت بننے کی دیر ہے، سارے مسائل چٹکی بجاتے ہی حل ہو جائیں گے۔ مگر جیسے ہی اس کی حکومت بنتی ہے، اسے اچانک اس بات کا ادراک ہو جاتا ہے کہ مسائل حل نہیں ہو سکتے اور اس بات کی ذمہ داری صرف اور صرف پچھلی حکومت پر ہے۔ یہ بات ایک کروڑ نوکریاں دینے اور دو سو ارب لا کر منہ پر مارنے والوں کے حوالے سے نہیں ہو رہی بلکہ ہر حکومت کا وطیرہ یہی رہا ہے۔ آمریت کا دور ہو تو وہ گزشتہ جمہوری حکومتوں کو قصور وار ٹھراتے ہیں۔ آمریت کے بعد جب جمہوری حکمران آتے ہیں تو وہ سارے مسائل آمر حکومت کے گلے میں ڈال دیتے ہیں۔ وزرا الزام لگاتے ہیں مشیروں پر، مشیر کہتے ہیں بیوروکریٹس کام نہیں کرتے، اور بیوروکریٹس کی توپوں کا رخ ہوتا ہے سسٹم کی طرف۔۔۔۔اور سسٹم۔۔۔۔۔ وہ بیچارہ تو ہم ہی لوگوں سے بنتا ہے۔ اور جب سسٹم ایسا ہوں تو مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ان میں اضافہ ہوتا ہے۔

ایسی ہی صورتحال کا سامنا ایک مرتبہ ہالینڈ میں بھی کرنا پڑا۔ سفر ہوائی جہاز کا نہیں ٹرین کا تھا۔ میں اور میرے ساتھ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ یہاں ٹرین کبھی لیٹ نہیں ہوتی اس لیے وقت سے پہلے ہی اسٹیشن پہنچ گئے تھے۔ روانگی کا وقت شام پانچ بجے کا تھا۔ گھڑی کی سوئی پانچ پر پہنچی تو امید یہی تھی کہ سامنے سے ٹرین سیٹی بجاتی ّجائے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ پانچ بج کر ایک منٹ پر لوگوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں اور پانچ بج کر دو منٹ پر ہر طرف اعلانات شروع ہو گئے۔ ریلوے انتظامیہ نے کہا کہ ہم آپ تمام مسافروں سے بہت معذرت کرتے ہیں کہ ٹرین دو منٹ کی تاخیر سے پہنچی۔ وجہ بھی بتائی گئی کہ ٹرین کے ٹریک پر کوئی جانور آگیا تھا۔ انتطامیہ نے اس کوتاہی کا ذمہ بھی لیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس جانور کو بھی سنبھال لیا گیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر نہایت معذرت کی گئی اور اعلان ختم کر کے ہمیں یہ سکھا دیا گیا کہ بڑائی اپنی غلطی ماننے میں ہی ہے۔

ٹاپ اسٹوریز