کراچی تھا جسکا نام

کراچی کا نام لیتے ہی پردہ تصور پر ایک ترقی یافتہ، صاف ستھرے اور روشن شہر کا نقشہ لہرا جاتا ہے لیکن اس وقت حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسے ذمہ داران کی بے حسی کہیے یا پھر پاکستان کے صنعتی حب کےساتھ ان کی بے رخی کہ جس کے باعث کراچی مسائل کا گڑھ بن گیا ہے۔ اس اہم ترین شہر کے رہنے بسنے والے کبھی بارشوں کے پانی کی تباہ کاریوں کو روتے ہیں تو کبھی شہر کے کچرا دان بننے کا نوحہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔ شہریوں کو کبھی ڈینگی مچھر رلاتے ہیں تو کبھی خونخوار کتے دوڑاتے ہیں۔

شہر کے مختلف علاقوں میں بپا یہ حشر کافی نہیں تھا کہ اب نئی افتاد شہر کی سڑکوں کے دھنسنے کی صورت میں سامنے آ گئی۔ دو دن کے دوران شہر کی دو اہم اور مصروف ترین شاہراہیں، کلب روڈ اور ضیاءالدین احمد روڈ، دھنس گئی ہیں۔ یاد رہے کہ آج سے محض دو ماہ قبل وزیراعلیٰ ہاﺅس کے سامنے والی سڑک بھی بیٹھ گئی تھی اور اس پر ہونے والے کام کی وجہ سے شہریوں نے نہایت شدید مسائل کا سامنا کیا تاہم آج پھر اسی سڑک کے بیٹھنے کی وجہ سے گڑھا پڑ گیا ہے، جب کہ متوازی سڑک پر لائن ڈالی جا رہی ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ریڈ زون اور اس کے اطراف کی تمام اہم شاہراہیں گندے پانی میں ڈوبی ہوئی انتظامیہ کی نااہلی پر اشکبار ہیں۔

ڈاکٹر ضیاءالدین احمد روڈ پر واقع وزیر اعلیٰ ہاﺅس سے متصل اس سڑک کو تقریباً ایک سال قبل کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا لیکن اپنے قیام کے محض دس ماہ کے بعد ہی سیوریج کی لائن بیٹھ جانے کی وجہ سے یہ سڑک شدید متاثر نظر آئی۔ لائن اور سڑک کی مرمت پر ایک بار پھر کثیر سرمایہ خرچ ہوا جو گزشتہ روز اسی جگہ پر ایک گہرے گڑھے میں ڈوب گیا۔ تین روز قبل کلب روڈ سے عبداللّٰہ ہارون روڈ جانے والی سڑک زیر زمین سیوریج کی لائن بیٹھ جانے کے باعث تباہ ہو گئی اور وہاں کئی فٹ چوڑا گڑھا پڑگیا تاہم سڑک پر مرمت کا کام جاری ہے جو رواں ہفتے کے اختتام تک مکمل کرلیا جائے گا۔ دوسری طرف صدر میں راجہ غضنفر علی روڈ جو کراچی کنٹونمنٹ کی ذمہ داری ہے وہ کسی تالاب کا منظر پیش کر رہی ہے جبکہ صدر سے شاہراہ فیصل جانے والی عبداللہ ہارون روڈ پر بھی پانی موجود ہے۔

اس حوالے سے واٹر بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر اسد اللہ خان کا موقف ہے کہ مذکورہ سڑکوں پر زیر زمین بچھی ہوئی لائنیں پچاس، پچاس سال قدیم ہیں اس لئے ان کا بیٹھ جانا ‘ ٹوٹ جانا یا پھر اس ضمن میں کوئی بھی دوسرا مسئلہ ہوسکتا ہے ۔ ادارہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے اور تیزی سے تعمیری کام کئے جارہے ہیں۔

کراچی کو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، دنیا کے کئی ممالک کے برابر اآبادی رکھنے والا یہ شہر اپنی دریا دلی اور وسیع آغوش کیلئے شہرت رکھتا ہے۔ قدرتی بندرگاہ کی دولت سے مالا مال اس شہر کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے برطانوی حکمرانوں نے اسے سندھ کے دارالحکومت کا درجہ دی، بانی پاکستان نے بھی اسی شہر کو ملک کا دارالحکومت اوراپنا مسکن بنایا اور یہی مدفون ہوئے۔

یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے اس ساتویں بڑے شہر کی حالت زار ناگفتہ بہ ہے اور یہ مختلف النوع مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ جہاں کسی دور میں سڑکیں دھلا کرتی تھیں وہاں آج جا بجا گندگی کے ایسے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جن کی بدبو بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک پھیل چکی ہے۔ کبھی سرکلر ریلوے اور ٹرام شہریوں کو شہر بھر کی سیر کرایا کرتی تھیں لیکن آج یہاں کے شہری سفر کیلئے ذاتی سواری یا پھر مہنگے نجی ذرائع آمد و رفت کے محتاج نظر آتے ہیں۔

کراچی کی تباہی کی وجوہ تو کئی ہیں لیکن اصل سبب اس کی بے سروسامانی اور کوئی پرسان حال نہ ہونا ہے۔ اس نے کیا کچھ نہیں سہا ہے، ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے گھر، دکانیں، ڈھابے اور ٹھیلے لگانے والے سب کو اس شہر نے امان دی ہے لیکن اب 10 گھنٹوں کی مزدوری کے بعد چند پیسے کمانے والے غریبوں کو ان کی رہائش اور روزگار کے مراکز سے اٹھا کر پھینک دیا گیا ہے۔ نوجوانوں اور ادھیڑ عمر کے لوگ سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ دکانیں مسمار کردی گئیں اور گھر گرا دیئے گئے۔ جوان، بوڑھ، بچے اور خواتین سڑکوں پر بے آسرا پھرتے نظر آتے ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ اس سارے عمل کے پیچھے کوئی خاص مقصدیت نہ تھی۔

یہ سب عذاب ابھی اتر رہے تھے کہ مون سون کے موسم نے مزید مسائل پیدا کئے۔ بارشوں کے بعد شہر بھر کے اُبلتے نالوں نے یہاں کے مسائل اُگل کر رکھ دیے، کھلے گٹر اور ننگے تاروں کے ذریعے زحمت بنتی بارانِ رحمت کے متاثرین کے غم میں کوئی شریک نہیں۔ مسائل کے انبار سے نبرد آزما شہریوں کیلئے خدمت اور شہر کی تعمیرکرنے کی دعوے دار صوبائی حکومت اور اختیارات کا رونا رونے والی مقامی حکومت کے درمیان صرف سیاسی جگت بازی دیکھنے میں آئی۔

افسوس صد افسوس کہ ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر کے مسائل کے حل کیلئے کوئی منظم نظام ہے ہی نہیں۔ پرویز مشرف کے بعد سے اب تک کے بلدیاتی اداروں میں محض ناموں کی تبدیلی آئی ہے یعنی کبھی کے ایم سی‘ کبھی زیڈ ایم سی ‘کبھی کمشنری تو کبھی ایل جی او 2012 لیکن مثبت تبدیلی اور ترقی کے معاملات ہنوز التواءکا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقریبا ًایک دہائی سے کراچی والوں کو بلدیاتی نظام کے نام پر تسلی کے سوا کچھ اور نہیں دیا گیا۔ شہر کا ستیاناس ہو چلا ہے لیکن نمائندگان ابھی تک اس بحث میں لگے ہوئے ہیں کہ شہر کس نظام کے تحت چلایا جائے، پھر بلدیاتی انتخابات عمل میں آئے، سیاسی کشمکش کا خمیازہ کراچی والوں نے کچھ اس انداز میں بھگتا کہ مئیر تو آگیا لیکن پہلے دن سے آج تک کراچی کیلئے کام کرنے کے بجائے ناکافی اختیارات اور فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا ہی روتا نظر آرہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بلدیاتی ادارے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے کی بحالی اور سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کا انتظامی اور مالیاتی نظام سندھ حکومت نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے جب کہ پورا نظام بیورو کریسی کے ہاتھوں یرغمال ہے جہاں بلدیاتی نمائندوں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں، موجودہ صورتحال کی تمام تر ذمہ داری مئیر کراچی سندھ حکومت پر ڈالتے ہیں جب کہ دوسری جانب سندھ حکومت کراچی کے حوالے سے اپنے کردار کے گیت گا رہی ہے۔

سندھ اور مقامی حکومت میں جاری کشمکش بھی کسی کروٹ بیٹھتی نظر نہیں آتی، اس حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے مسائل بھی کراچی والوں کے حصے میں ہیں۔ کراچی کی کچی آبادیوں، مضافاتی اور دیہی علاقوں کی حالت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی چھوٹے سے غیر ترقی یافتہ گاﺅں میں آ گئے ہوں۔ سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر دل لہو روتا ہے جہاں صفائی ستھرائی کے ساتھ ادویات اور بنیادی سہولیات بھی ناپید ہیں۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومتی توجہ سے محروم کراچی کے مسائل کو فوری طور پر حل کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیوں کہ یہ شہر پورے ملک کا وقار اور معاشی شہ رگ ہے۔ سندھ حکومت اگر کراچی کے مسائل کا حل چاہتی ہے تو بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور فنڈز فراہم کرے تاکہ بلدیاتی نمائندے عوام کی مشکلات میں کمی لانے کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی رویوں کو بھی بہتر ہونا ہوگا کیوں کہ ہم سڑکوں پر بکھرے ہوئے کچرے کو ہدف تنقید تو بناتے ہیں لیکن خود اسے سڑکوں پر پھینکنے سے باز بھی نہیں آتے، لوڈشیڈنگ کا رونا تو روتے ہیں لیکن کنڈے لگانے کا عمل نہیں روکتے، بے ہنگم ٹریفک سب کا درد سر لیکن ٹریفک قوانین بھی ہم ہی توڑتے ہیں۔

بہت سے کام ایسے ہیں جو ہم کرسکتے ہیں، اس کیلئے حکمرانوں کی جانب دیکھنا راست عمل ہے لیکن جو کچھ ہم کرسکتے ہیں وہ تو کریں۔ بجلی بچائیں، اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ کچرے دان میں ڈالیں، شہر کو اپنائیں، اس کا خیال بھی رکھیں اور اپنی ذمہ داریوں کااحساس کریں۔

ٹاپ اسٹوریز