فارمیسی کی حالت زار

آوازہ

پنجاب، سرکاری اسپتالوں سے ہومیوپیتھک ڈاکٹروں اور حکیموں کی نشستیں ختم کرنیکا فیصلہ

چند میٹھی گولیاں اور دو قطرے دوائی، ہومیو پیتھی کا ہمارے ہاں بس یہی مطلب ہے لیکن جو لوگ جانتے ہیں وہ اس کے سحر سے نکل نہیں پاتے۔ اہل دل جس طرح بابوں بزرگوں کی تلاش میں جان مار دیتے ہیں، محبان ہومیوپیتھی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ بس اسی تلاش میں ڈاکٹر ارشد محمود سے ملاقات ہو گئی۔ تصوف کی طرح اس طریقہ علاج کی بنیاد بھی خلوص، محبت اور محنت سے اٹھی ہے، اس لیے عمومی تاثر یہی ہے کہ ان میٹھی گولیوں اور دوا کے چند قطروں سے مستفید ہونا ہے تو کسی بوڑھے بزرگ کو تلاش کیجئے کیونکہ کوئی سند یافتہ کاروباری اس شعبے میں وارداتیا تو کہلا سکتا ہے، دستِ شفا رکھنے والا مسیحا نہیں بن سکتا۔

عمر رسیدہ نہ ہونے کے باوجود ارشد صاحب میں ایسی تمام خوبیاں موجود ہیں جو اس شعبے کے بزرگوں میں پائی جاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں ان سے ملاقات ہوئی۔ اداس بیٹھے تھے۔ سبب اس اداسی کا یہ تھا کہ جیسے جیسے سردی کا موسم قریب آتا جا رہا ہے، دمے کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے لیکن اس طریقہ علاج کی آزمودہ دوا بازار میں دستیاب نہیں ۔سن کر حیرت ہوئی کہ امرت بن جانے والے چند قطروں کا کال اس ملک میں کیسے پڑ گیا؟ معلوم ہوا کہ اس دوا کا خام مال بھارت سے آتا ہے اور بھارت کے ساتھ تجارت ان دنوں بند ہے، لہٰذا دوا نایاب ہے۔ یہ بپتا سن کر ڈاکٹر عزیزالرحمن کی یاد آئی۔

ڈاکٹر صاحب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے سینئر استاد اور شعبہ قانون کے صدر نشین ہیں۔ نیک بزرگوں کی اولاد ہیں، اس لیے چہرے مہرے سے عالم دین ہی لگتے ہیں چونکہ حافظ قرآن بھی ہیں، اس لیے بھی ذہن دوسری طرف نہیں جاتا لیکن سچ یہ ہے کہ وہ چھپے رستم ہیں اور پاکستان میں قوانین دانش (Intellectul Property Law) کے اولین ماہرین میں سے ہیں۔ اس موضوع میں انھوں نے سویڈن کی اسٹاک ہوم یونیورسٹی سے ایل ایل ایم اور آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کینبرا سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ اپنے اس علم وفضل کے باجود ان کے مزاج میں دھیما پن اور نمود و نمائش سے بیزاری پائی جاتی ہے، اس لیے خال ہی معلوم ہوتا ہے کہ کیا کر رہے ہیں اور کیا کچھ کر چکے ہیں۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور انھوں نے ایک کارنامہ انجام دے دیا۔

بھارت کے ساتھ جیسے جیسے تعلقات میں بگاڑ آتا جا رہا ہے، اس کے اثرات بد ہماری معمول کی زندگی پر بھی مرتب ہونے لگے ہیں۔ اس کی ایک تکلیف دہ مثال گزشتہ دنوں اندرون سندھ میں دیکھنے کو ملی جہاں ایک بچہ پاگل کتے کے کاٹنے کی وجہ سے رے بیز جیسے مہلک مرض کا شکار ہو کر جان سے گیا کیونکہ علاج کے لیے اسے بروقت ویکسین میسر نہ آ سکی۔

سیاسی طور پر شدت اور حدت میں مبتلا پاکستانی معاشرے میں ایسے واقعات سے سبق سیکھ کر مستقبل کی پیش بندی کرنے کے بجائے انھیں باہم مطعون کرنے کے لیے تو استعمال کرلیا جاتا ہے لیکن اس مسئلے کی وجوہات اور اسباب پر توجہ نہیں دی جاتی۔ نتیجے کے طور پر نقصان پر نقصان ہوتا جاتا ہے اور بہتری کی کوئی صورت خال ہی بنتی ہے۔ اندرون سندھ بچے کی الم ناک موت کے سانحے پر بات چیت کے دوران کھلا کہ وطن عزیز ان دنوں دواؤں کی قلت کے جس مسئلے سے دوچار ہے، اس کا ایک سبب بے تدبیری اور بدانتظامی بھی ہو گی لیکن اس کا سب سے بڑا سبب بھارت سے دواؤں اور خاص طور پر دواؤں کی تیاری میں استعال ہونے والے خام مال کی درآمد کی بندش ہے جس کی وجوہات کا تعلق ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں درآنے والے بدمزگی سے ہے، لہٰذا جب تک دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات معمول پر نہیں آجاتے یا اس سلسلے میں کوئی واضح پالیسی اختیار نہیں کر لی جاتی، اس طرح کے مسائل رہیں گے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ سنگین بھی ہوتے جائیں گے۔

بس، کچھ ایسی ہی باتوں سے انھیں تحریک ملی اور انھوں نے اس موضوع پر ایک تحقیقی کتاب بعنوان ”Pharmacy of the Developing World: Lessons from the Evolution of Indian’s Patent Law“ کے نام سے لکھ دی جس میں اس مسئلے کی مبادیات پر بحث کرنے کے بعد اس کے حل کے لیے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ اس معاملے میں ہمارے لیے بھارت سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ بھارت کی قومی آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ صرف تیار شدہ دواؤں کی دنیا بھر سے فروخت سے ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کا ایک غالب حصہ ادویات کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے خام مال کی فروخت سے بھی حاصل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ارشد نے بتایا کہ ہومیوپیتھی کی بہت سی ادویات ایسی چیزوں سے بنتی ہیں جن کی پیداوار صرف پاکستان یا کسی قدر بھارت میں ہوتی ہے جیسے چارے کے لیے استعمال ہونے والا لوسن۔ یہ چیز دنیا کے بعض دیگر حصوں میں بھی پیدا ہوتی ہے لیکن اس خطے میں پیدا ہونے والے لوسن کی افادیت میں کوئی کلام ہی نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جرمنی اور امریکہ کی دوا ساز کمپنیاں لوسن کی فصل کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر اپنے ہاں لے جاتی ہیں پھر ان سے خام مال تیار کر کے ہمارے ہی ملک میں ڈالروں کے عوض فروخت کرتی ہیں۔

یہ معاملہ صرف ہومیو پیتھی تک ہی محدود نہیں۔ انتہائی مہنگے داموں فروخت ہونے والی ایلو پیتھی کی ادویات جن میں بہت سی جان بچانے والی ادویات بھی شامل ہیں، پاکستان میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں سے بنتی ہیں لیکن یہ جڑی بوٹیاں یہاں سے معمولی قیمت پر بین الاقوامی دوا ساز ادارے خرید لیتے ہیں پھر انھیں پروسیس کر کے سونے کے بھاؤ فروخت کرتے ہیں۔ ان ممالک میں بھارت بھی شامل ہے۔ بھارت اس شعبے میں اتنا بڑا جائنٹ کیسے بن گیا؟ یہی اس کتاب سے حاصل ہونے والا سبق ہے۔

ڈاکٹر عزیز کہتے ہیں کہ آزادی کے فوراً بعد ہی بھارتی قیاد ت نے اس اہم شعبے پر توجہ دی اور بہت ابتدا میں اس قسم کے پیٹنٹ قوانین تیار کر لیے جن کی مدد سے اس شعبے میں دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کار کو آسانی ہوئی اور آہستہ آہستہ قدم جماتے ہوئے بھارت اس شعبے میں ایک بڑے ملک کی حیثیت سے ابھرا۔ ان کی تجویز ہے کہ دواؤں کے شعبے میں خود کفالت کے لیے بھارت سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

یہ کیسے ہوگا؟ قوانین کی نوعیت کیا ہونی چاہئے اور اس شعبے کو مستحکم کرنے کے تحقیق اور سرمایہ کاری کس طرح ہونی چاہئے، ڈاکٹر عزیز الرحمن نے یہ سب باتیں لکھ دی ہیں، لہٰذا اس شعبے میں خود کفالت کے لیے ہمیں زیادہ پاپڑ بیلنے کی ضرورت نہیں، یہ کتاب ہمیں بہت کچھ بتا اور سکھا دے گی۔

ٹاپ اسٹوریز