امریکی سیاست خلفشار کا شکار

کورونا: صدر ٹرمپ نے فرنٹ لائن ورکرز کے لیے دوا تجویز کردی

امریکہ تو ہر دور میں ہی مشرق و مغرب کی توجہ کا مرکز و محور رہا  ہے، لیکن ان دنوں خلفشار کا شکار اندرونی سیاست نے بھی ملک کے اندر ہیجان پیدا کر رکھا ہے۔

گذشتہ ہفتے ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کھلےعام سماعت کے لئے قوانین کی تیاری کے حق میں تقریباً اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے ۔ اس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ ڈیموکریٹس 2020 کے الیکشن میں  پوری تیاری سے میدان میں اترنے کا پختہ عزم کر چکے ہیں اور ٹرمپ کو دوسری بار عہدہ صدارت پر براجمان ہونےسے روکنے کےلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے ۔

ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں صدر کے مواخذے کی راہ میں کافی رکاوٹیں حائل ہو جائیں ،تاہم  جس سرعت کےساتھ  ہاوس سماعت  کر رہا ہے اس سے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یوکرائن کے معاملے پر اختیارات کے غلط استعمال جیسے سنگین معاملے کو دیکھنا نہ صرف اس کی پہلی ترجیح بن گیا ہے بلکہ وہ اس کومنطقی انجام تک پہنچانے کے لئے بھی پرعزم ہے۔ ڈیموکریٹس کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات میں یہ ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ کیا صدر ٹرمپ نے یوکرائن کی تقریباً 4 کروڑ ڈالر امداد روکی تھی اور کیا  انہوں نے وہاں کے حکام کو اپنے سیاسی حریف جو بائیڈن  کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے خلاف تحقیقات کے لئے کہا تھا۔ ہنٹر یوکرائن کی گیس کمپنی برمسمار(Burisma) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ فی الحال تو  ہر طرف  صدر ٹرمپ کے مواخذے  پر خبروں، تجزیوں اور تبصروں کا ایک طوفان برپا ہے، لیکن  اب تک سامنے آنے والے ریکارڈ سے یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ صدر ٹرمپ اور یوکرائن کے صدر کے درمیان 25 جولائی کو ٹیلیفونک گفتگو ہوئی تھی۔ اب یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی مشکل امر نہیں رہا کہ صدر ٹرمپ نے اپنےسیاسی حریف اور 2020 کے الیکشن میں متوقع صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے خاندان کے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے لئے یوکرائن پر دباؤ ڈالا تھا، یہ بھی طے ہے کہ اب آئندہ سماعتوں کے دوران صدر ٹرمپ کی  ٹیلی فونک کال سے پہلے اور  بعد کے حالات کا زیادہ توجہ اور گہرائی سے جائزہ لیا جائے گا۔

قرائن بتاتے ہیں کہ اس وقت  سب سے بنیادی سوال یہ  اٹھتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے ذاتی وکیل روڈی جولیانی  نے  یوکرائن کے لئے امریکہ کی خارجہ پالیسی کواس حد تک سبوتاژ کیوں کیا؟

ایک سابق ماہر فایونا ہل نے شہادت ریکارڈ کراتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ روڈی جولیانی یورپ میں متوازی خارجہ پالیسی چلا رہے تھے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایوان نمائندگان کی خفیہ امور کمیٹی کے چیئرمین ایڈم  شف نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ انتظامیہ صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحقیقات میں روڑے اٹکا رہی ہے، اس تناظر میں یہ کہنا بجا بنتا ہے کہ مواخذے کی منزل تک جانے والے راستوں میں کوئی کہکشاں  نہیں  بلکہ یہ خاردار راہ  ہے  کیونکہ وائٹ ہاوس پہلے ہی ہر وہ رکاوٹ پیدا کر چکا ہے جو اس کے اختیارمیں تھی،  حالات اس حد تک گھمبیر ہیں کہ امریکی انتظامیہ کے چند موجودہ  اور بعض سابق عہدیداروں نے تو بیانات تک ریکارڈ کرانے سے بھی انکار کر دیا ہے،تاہم ایک مثبت پہلو یہ  ہے کہ تمام واقعات سے باخبر بہت سے موجودہ ملازمین اور سیاسی  افراد نے کھل کر صدر ٹرمپ سے اختلاف رائے کیا اور سامنے آکر اپنے بیانات قلمند کرائے۔ امریکی خبار ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اورنیوز کے  بعض دیگر معتبر اداروں نے کمیٹیوں کے سامنے پیش کئے گئے  ان عہدیداروں کےتحریری بیانات اور اُن سے کئے گئے سوالات کے جوابات شائع کئے ہیں ۔ ان بیانات اور تحریری جوابات کے نتیجے میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان سے یہ خاکہ ترتیب دینا مشکل نہیں کہ آگے چل کر مواخذے کا یہ معاملہ کیا رخ اختیار کرے گا۔

اب تک جو دستیاب شہادتوں ہیں، ان سے توواضح ہے کہ یوکرائن سے متعلق کام کرنے والے سفارتکار اور نیشنل سیکورٹی کونسل کے حکام اس بات سے آگاہ تھے کہ صدر ٹرمپ اور روڈی جولیانی طویل عرصے سے تسلسل کے ساتھ چلنے والی  خارجہ پالیسی تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔ قومی سلامتی امور کے ماہر اور  نیشنل سیکورٹی کونسل کے قریب رہ کر کام کرنے والے  لیفٹیننٹ کرنل الیگزینڈر ونڈ مین نے بھی گذشتہ ہفتے اپنی شہادت قلمند کرائی۔ اپنے بیان میں وہ کہتے ہیں کہ ایک مضبوط اور آزاد  یوکرائن امریکہ کے سیکورٹی  مفادات کے تحفظ کیلئے ناگزیر ہے۔لیفٹیننٹ کرنل الیگزینڈر ونڈ مین عراق میں خدمات کے دوران زخمی بھی ہو گئے تھے جس پر انہیں امریکی فوج کے اعلیٰ اعزاز ‘پرپل ہرٹ ‘سے بھی نوازا گیا ، تاہم جب شہادت ریکارڈ کرانے  کی بات منظر عام پر آئی تو  صدر ٹرمپ بھی میدان میں اترے اور ٹیوٹر کا محاذ سنبھال کراُن  کے اس عمل کی مذمت کر ڈالی۔  اس ‘نیک کام’ میں صدر ٹرمپ کے بعض اتحادی بھی پیش پیش رہے اور فوکس نیوز پربیٹھ کر کرنل الیگزینڈر ونڈ مین کی حب الوطنی پر بھی سوالات اٹھا دیئے۔ صدر اور ان کے حامیوں کا  یہ رویہ اپنی جگہ، تاہم کرنل ونڈ مین اور شہادتیں ریکارڈ کرانے والے دیگر تمام افراد خود کو یوکرائن میں امریکہ کی حکمت عملی کے زبردست حامی قرار دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق یورپ کی سالمیت اوریوکرائن کے معاملات میں روس کی مداخلت  روکنے کے لئے یوکرائن کی معیشت اور فوج کو امریکہ کی سپورٹ بہت ضروری ہے ۔

ان تمام حالات اور واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لینے اور اب تک کی شہادتوں کے بعد یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کس طرح ٹرمپ اور اُن کے قریبی ساتھیوں نے یوکرائن کی امداد کو اپنے ذاتی سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا۔امریکی انتظامیہ نے یوکرائن میں موجودہ امریکی سفیر ویلیم ٹیلر کے ذریعے جو خط بھیجا تھا اس پر  صدر ٹرمپ نے 29 مئی کو دستخط کئے ، اسی خط کے ذریعے یوکرائن کے صدر ولادیمر زیلنسکی سے اوول آفس میں اُن کی سیاسی مدد کے لئے ملاقات کا وعدہ کیا گیا ، لیکن پھر  اس امید پر یہ پیشکش روک لی کہ ولادیمر زیلنسکی  اپنے امریکی ہم منصب کی مرضی و منشاء کے مطابق  تحقیقات کا آغاز کریں گے، لیکن جب  یہ سب کچھ اُن کی خواہش کے مطابق نہ ہو سکا تو صدر ٹرمپ نے ماہ جولائی میں انہیں فون کر کے مدد اور تعاون کی تجویز پیش کی۔ ولادیمر زیلنسکی اس بار  بھی  ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ اگلے ایک ماہ کے دوران صدر ٹرمپ نے یوکرائن کے لئے 400 ملین ڈالر کی فوجی امداد کو  اپنے مطالبے سے مشروط کر دیا جبکہ دوسری جانب روس کے خلاف یوکرائن کے لئے یہ امداد ناگزیر تھی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر اور زبان زد عام ہے کہ جولائی کے وسط میں صدر ٹرمپ نے اپنے قائم مقام چیف آف اسٹاف میک ملوانےکو  یوکرائن کی امداد روکنے کا حکم دیا تھا جبکہ کانگریس پہلے ہی اس کی منظوری دے چکی تھی۔  یوکرائن میں امریکی سفارتخانے کے ناظم الامور ویلیم ٹیلر کے مطابق نیشنل سیکورٹی کونسل کے عہدیدار ٹم موریسن نے یکم ستمبر کو انہیں آگاہ کیا تھا کہ جب تک  زیلنسکی جو بائیڈن کے بیٹے کے خلاف تحقیقات کی یقین دہانی نہیں کرا دیتے، اُس وقت تک امداد جاری نہیں ہو گی ۔

ولیم ٹیلر نے موریسن کے ساتھ اپنی اور ایک گفتگو کا حوالہ دیا ہے کہ 7 ستمبر کو صدر ٹرمپ نے یورپی یونین کیلئے امریکی سفیر گورڈن سونلینڈ سے کہا کہ اگرچہ وہ کسی سودے بازی کا نہیں کہہ رہے تھے ،  لیکن بہرحال وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ زیلنسکی تحقیقات  شروع کرنے سرعام اعلان  کر دیں۔ ٹائمز اخبار کے مطابق گذشتہ ہفتے بند سیشن کے دوران موریسن نے اس گفتگو کی تصدیق بھی کر دی تھی۔  اگلے ہی دن ویلیم ٹیلرنے لکھا کہ گورڈن سونلینڈ ٹرمپ کی سوچ کو  ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں  ‘ ایک بزنس مین جب اپنے کسی  چیک پر دستخط کرتا ہے تو پہلے کہتا ہے کہ وہ چیز فراہم کی جائے جس کیلئے اسے چیک دیا جا رہا ہے ‘، ٹیلر کے مطابق یہ کوئی دانشمدانہ بات نہیں کیونکہ  یوکرائن کے پاس تو صدر ٹرمپ کی کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کے بدلے انہیں رقم ادا کیا جاتی۔ آگے چل کر ٹیلر  مزید بتاتے ہیں کہ سیاسی مقاصد کے لئے یوکرائن کی سیکورٹی امداد روکنا “پاگل پن” تھا۔

تمام وقوع پذیر واقعات کے  مدنظر رکھ کر حالات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو  صدر ٹرمپ کی جانب سے “کچھ لو اور کچھ دو” کی پالیسی پر ڈٹے رہنا سب کو حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی ہے جس کا سادہ سا مطلب تو یہ ہے کہ ‘تم میری مدد کرو، میں تمہاری مدد کروں گا”لہٰذ  اب یہ بات توبالکل  واضح ہو چکی ہے کہ انہوں نے سیاسی مقاصد کے لئے  سودے بازی کی آفر کی اور  اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔

صدر ٹرمپ شاید اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ پرزور اور بلند آواز میں واقعات کی تردیداور  حقائق کو جھٹلا کر عوام کو بے وقوف بنا لیں گے  جبکہ ان کے بعض ہمدرد کٹھ پتلیاں اور پروپیگنڈا مشین بن کر دن رات خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارثا بت کرنے میں   تلے ہوئے ہیں۔

اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کا غلط استعمال  کرتے ہوئے یورپ میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کا شدید نقصان پہنچایا ، اسی وجہ سے  ہاوس میں ڈیموکریٹ پارٹی کے ارکان  کو یقین ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے مواخذے کی طرف بڑھیں گے۔  مبصرین اس سیاسی کھیل کو جوئے سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک صدر ٹرمپ سے کچھ بھی بعید نہیں کیونکہ  وہ شہرت کے وہ  دیوانے ہیں  کہ موقع محل دیکھے اورنتیجے کی فکر کئے بغیر کہیں بھی کچھ بھی کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحقیقات اس بنیادی سوال سے شروع ہوئی تھیں کہ آیا انہوں نے یوکرائن کے نئے صدر ولادیمر زیلنسکی کے دورہ امریکہ کی راہ میں روڑے اٹکانے کی غرض سے روکی امداد تھی تاکہ 2020 کے امریکی الیکشن میں اہم ترین صدارتی امیدوار جو بائیڈین کی فیملی کے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات شروع کرانے کے لئے اُن پر دباؤ ڈالا جا سکے؟

یاد رہے کہ اب تک دو امریکی صدورکا مواخذہ ہوا ہے جن میں بل کلنٹن (1998)  اور  اینڈریو جانسن (1868) شامل ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز