ٹماٹر کھاتے عوام

گزشتہ روز بہت ڈھونڈنے کے بعد ایک سبزی والے کے پاس ٹماٹر کے دیدار ہوئے، قیمت پوچھی تو اس نے 65 روپے بتائی، میں خوش ہوگئی کہ چلو اس کی قیمت کچھ نیچے آئی لیکن چند ہی لمحوں کے بعد سبزی والے نے کہا کہ 65 روپے پاﺅ یعنی 260 روپے کلو ہیں۔۔۔۔ یقین جانیے کہ اس وقت علم ہوا کہ ہوش کیسے اُڑتے ہیں اور ایسی ہی ہوائیاں مجھے اردگرد کھڑے ہوئے لوگوں کے چہروں پر بھی اُڑتی نظر آرہی تھیں۔

اس وقت سرکارکی جانب سے پھل اور سبزیوں کی روزانہ کی بنیاد پر جو فہرستیں جاری ہوئی ہیں ان میں ٹماٹر کی فی کلو قیمت 85 روپے درج ہے لیکن نہایت دیدہ دلیری سے اسے کھلے عام 260 روپے فی کلو بیچا جا رہا ہے یہی حال دیگر سبزیوں کا بھی ہے یعنی جو کریلا ہم نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا وہ بھی 160 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے جبکہ من پسند مٹر کی قیمت 250 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ ہرے دھنیے اور پودینے کی گڈی 20 روپے سے کم نہیں جبکہ ہری مرچیں بھی بے حال ہیں جو کسی وقت میں سبزی کے ساتھ ”بالکل مفت“ ملا کرتی تھیں۔

شنیدن ہے کہ لاہور میں ٹماٹر 240 روپے فی کلو، آلو 70 روپے، پیاز 90 روپے جبکہ ادرک 360 روپے فی کلو بیچی جا رہی ہے۔ ملتان اور سرگودھا میں ادرک 400 روپے، ٹماٹر 160 روپے اورپیاز 80 روپے فی کلو فروخت کیے جا رہے ہیں۔ پشاور میں ٹماٹر 120 روپے فی کلو‘پیاز 90 روپے فی کلو اورمٹر140 روپے فی کلو مل رہے ہیں۔ کوئٹہ میں بھی سبزیاں عوام کی دسترس سے باہر ہیں، یہاں ٹماٹر 130 اور بھنڈی 150 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہیں۔ خیرپور میں ٹماٹر نے ڈبل سنچری مکمل کر لی ہے جبکہ جھنگ میں اس کی قیمت 220 روپے فی کلو ہو گئی ہے۔۔ اس تمام گفتگو کا مقصد یہ بتانا تھا کہ پورے ملک میں مہنگائی کے سائے بڑھ رہے ہیں۔

دکاندر سے سبزیوں کے مہنگا ہونے کا سبب پوچھیں تو جواب آتا ہے کہ ”پیچھے سے“ ہی مہنگی آ رہی ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ سبزی منڈیوں پر چند بڑے آڑھتیوں کا قبضہ ہے جو قیمتوں کے اُتار چڑھاﺅ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حقیقت کچھ یوں ہے کہ اسٹاک ایکسچینج کی طرح منڈیوں میں بکنے والی اجناس پر”سٹے بازی“ کی جاتی ہے۔ منڈیوں کے یہ ”ماہرین“ ملک میں زرعی اجناس کے زیر کاشت رقبے‘ مجموعی پیداوار‘ کھپت اور پیک سیزن کی طلب وغیرہ کے اعدادو شمار مرتب کر کے قیمتوں کا تعین کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہر موسم میں کسی نہ کسی سبزی یا پھل کی قلت یا بہتات کے نتیجے میں کسان یا عوام کا استحصال کیا جاتا ہے، ٹماٹر کی قیمتوں کے موجودہ بحران کا سبب بھی یہی مڈل مین اور آڑھتی ہیں جو عوام پر مہنگائی کا عذاب مسلط کر کے اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں۔ اس سارے عمل میں زرعی مصنوعات کا ڈیٹا مرتب کرنے والے ادارے ‘ محکمہ زراعت اور مارکیٹ کمیٹیوں کے اہلکار آڑھتیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

تھوڑا سا غور کریں تو یہ بات روشن ہو جائے گی کہ عوام کو کبھی آلو مہنگے ملتے ہیں تو کبھی پیاز‘ کبھی مٹر کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں تو ہم کبھی ٹماٹر کی محض جھلک ہی دیکھ پاتے ہیں۔ زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسان آڑھتیوں اور مڈل مین کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، ایک موسم میں جب کسی چیز کی قلت کے بعد قیمتیں زیادہ ہو جائیں تو اگلے موسم میں کسان اسی کی فصلیں لگا بیٹھتا ہے، نتیجتاً مارکیٹ میں طلب کم ہو کر قیمتیں گر جاتی ہیں اور کسان تباہ و برباد ہو جاتا ہے لیکن اسی صورتحال کا فائدہ منڈیوں میں بیٹھے ہوئے بڑے آڑھتی اُٹھاتے ہیں جو سستے داموں سبزی خرید کر اپنے گودام بھر لیتے ہیں، مارکیٹ میں جعلی قلت پیدا کرتے ہیں اور پھر ان سبزیوں کو مہنگے داموں مارکیٹ میں لا کر بیچا دیتے ہیں۔ م

نڈیوں میں علی الصبح ہونے والی بولیوں میں ضلعی انتظامیہ اور پرائس ڈیپارٹمنٹ کے عملے کی نگرانی بھی ضروری ہوتی ہے تاہم سرکاری اہلکار منڈیوں میں بولیوں کے عمل کی مانیٹرنگ گوارا نہیں کرتے اور اس سارے چکر میں ہم جیسے تنخواہ دار لوگ ہی پستے ہیں۔ سبزی اور پھل والے تو اپنا منافع رکھ کر چیزیں بیچ دیتے ہیں‘ انہیں خریدار کی مشکلات کا نہ احساس ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں اس سے کوئی سروکار ہے بلکہ اگر آپ غور کریں تو وہ زیادہ قیمت پر چونکنے والوں کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں اور بسا اوقات بدلحاظی بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کے باوجود اس ملک کے عوام بنیادی اشیائے ضروریہ بھی انتہائی گراں قیمت حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک جانب مہنگائی ہے تو دوسری جانب بے روزگاری ہے ‘ ایسے میں عوام کریں تو کیا کریں؟ عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے تفکرات سے آزاد کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے، اگرچہ حکومت وقت، وطن عزیز کے مسائل حل کرنے کے لیے مصروف ہے جو یقینا ایک بڑا چیلنج ہے لیکن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر قابو پانا اوراس میں غیر ضروری اضافے کو روکنا بھی انتہائی ضروری ہے۔

حکومتی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹی میں اہل اور قابل عملے کی تعیناتی سے مہنگائی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ذخیرہ اندوزوں اورناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی بھی نتیجہ خیز ہوسکتی ہے۔ عوامی سطح پر اگر کچھ ہوش مندی سے کام لیا جائے تو ٹماٹر، آلو، ہرا دھنیا، پودینہ، ہری مرچیں، لیموں اور لوکی جیسی سبزیاں تھوڑی سی محنت کے نتیجے میں گھر میں اُگائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لئے بہت بڑی جگہ کی بھی ضرورت نہیں ہے، یہ چھوٹے گملوں، پرانے ٹائروں اور استعمال شدہ کنٹینروں میں کاشت کئے جا سکتے ہیں۔ ان چیزوں کے بیج نرسریوں پر باآسانی دستیاب ہیں اور نہ بھی ہوں تو یہ جڑوں اور تازہ سبزیوں کے بیجوں سے بھی سہولت سے اُگائی جا سکتی ہیں۔ میں تو یہی کرنے جا رہی ہوں ‘ آپ بھی انتظار نہ کریں کہ کوئی آ کر آپ کے لئے کنواں کھودے‘ خود محنت کریں اور اپنے آپ کو معاشی مسائل سے باہر نکالیں۔

ٹاپ اسٹوریز