شہری بابو

شہری بابو

پرانی فلمیں دیکھنے والوں نے اکثر یہ سچویشن دیکھی ہوگی کہ ایک شہری بابو گاؤں آتا ہے اور وہاں کی ایک الہڑ مٹیار سے محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ دونوں کی محبت پروان چڑھتی ہے اور پھر اس بابو کے شہر جانے کا وقت آ جاتا ہے۔ گاؤں کی لڑکی اسے رخصت کرتے ہوئے بار بار پوچھتی ہے۔۔۔ بابو، تم واپس تو آؤ گے نا؟۔۔۔ اور شہری بابو اسے قسمیں کھا کر یقین دلاتا ہے کہ وہ ضرور واپس آئے گا۔ گاوں کی لڑکی اسے واپسی کی امیدوں کے ساتھ رخصت کرتی ہے اور اس کے انتظار میں جاگتی آنکھوں کے ساتھ راتیں کاٹتی ہے۔ ادھر شہری بابو شہر پہنچ کراپنے جھمیلوں میں مصروف ہوجاتا ہے اور واپسی کا خیال اس کے دل سے اتر جاتا ہے۔

کچھ یہی صورتحال اس وقت نوازشریف اور حکومت کے درمیان بھی چل رہی ہے۔ حکومت کے لیے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ نواز شریف علاج کے لیے ملک سے باہر گئے اور شہری بابو کی طرح واپس نہ آئے تو کیا ہو گا۔ ان کے سامنے وہ دعوے ہیں جو عمران خان نے اپنی ہر تقریر میں کیے تھے کہ میں ان آر او نہیں دوں گا۔ اب اگر نواز شریف پاکستان سے باہر جاتے ہیں تو تاثر یہ ملے گا کہ کوئی ڈیل ہو گئی ہے۔ حکومتی وزرا میں بھی کئی ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ نواز شریف کو باہر نہ جانے دیا جائے مگر اکثریتی رائے یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ باہر علاج ممکن ہے تو عدالت کی طرف سے ضمانت پر رہائی کے بعد انہیں جانے کی اجازت دینی چاہیئے۔

یہاں معاملہ گارنٹی پر اٹک گیا ہے۔ گاؤں کی مٹیار وہ نہیں ہے جو آنسوؤں کے ساتھ ہیرو کی بات پر بھروسہ کر کے اسے شہر جانے دے۔ وہ کہتی ہے کہ میں تم پر کیسے بھروسہ کروں۔ تم سے پہلے بھی کئی لوگ تھے جو شہر سے آئے  تھے، جاتے ہوئے انہوں نے بھی یہی وعدہ کیا تھا کہ ہم ضرور واپس آئیں گے مگر وہ تمام المیہ فلمیں تھی۔ پرویز مشرف، حسن نواز، حسین نواز، اسحاق ڈار۔۔۔۔۔   کوئی بھی واپس نہیں آیا۔

اب یہ گارنٹی دینے کو تیار کون ہو گا؟ کون ہیرو کا اتنا اعتبار کرے گا اور کون کہے گا کہ ہاں میں ضمانت دیتا ہوں۔ ہیرو کا پچھلا ریکارڈ تو یہی کہتا ہے کہ وہ جب بھی گیا واپس آیا ہے لیکن حکومت کے لیے اس وقت یہ بات کافی نہیں۔ ہیرو کے بھائی نے تو اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ مان لو، گارنٹی دے دو مگر یہاں ہیرو بھی کافی ضدی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں تو ہیرو ہوں، میرا اعتبار کیا جانا چاہیئے۔ اگر ہیروئین کو مجھ پر اعتبار ہی نہیں تو پھر یہ کیسا رشتہ ہے۔ پھر میں شہر نہیں جاتا، آگے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔

یہاں فلم کی کہانی رک گئی ہے۔ نہ ہیرو آگے بڑھ رہا ہے اور نہ ہیروئین آگے بڑھ رہی ہے۔ انٹرول ہو گیا ہے۔ جنہوں نے سنیما کا ٹکٹ لیا ہے وہ انتظار میں ہیں کہ انٹرول کے بعد کہانی کیسے آگے بڑھے گی۔

انٹرول کے بعد حکومت کے پاس کیا آپشن ہیں؟

نہ تو پاکستانی حکومت کا ایسا کوئی معاہدہ برطانوی حکومت کے ساتھ ہے جو نواز شریف  کی ضمانت کی میعاد ختم ہونے پر انہیں واپس بھیجنے پر مجبور کر دے۔ اور نہ ہی اس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ ان کی بیماری کا علاج کب تک چلے گا اور کتنی مدت میں نواز شریف مکمل طور پر صحت یاب ہو جائیں گے۔

اگر حکومت سابق وزیراعظم کو باہر جانے کی اجازت نہیں دیتی اور خدا نخواستہ انہیں کچھ ہو جاتا ہے تو سیاسی طور پر ان کا قد مزید بڑا ہو جائے گا۔

اگر حکومت انہیں باہر جانے کی اجازت دے دیتی ہے اور نواز شریف واپس نہیں آتے تو بھی حکومت سے اس کے ووٹر اور سپورٹر یہ سوال کریں گے کہ اتنی بڑی بڑی باتیں کر کے اگر یو ٹرن ہی لینا تھا تو تبدیلی کے خواب دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟

اگر نواز شریف باہر جانے کے بعد علاج کرا کر واپس آ جاتے ہیں تو بھی انہی کو بہادر کا لقب ملے گا۔

یعنی شاید ہیروین کے لیے فلم کے آخر میں بس ٹریجڈی ہی ٹریجڈی ہے۔ ہیرو باہر جا کر بھی ہیرو رہے گا اور باہر نہ جا کر بھی ہیرو رہے گا۔ ایسے میں ہیروئین کیا کرتی۔۔۔۔۔۔ اس کے لیے انتظار فرمایئے۔

 

ٹاپ اسٹوریز