ہم اور ہمارا معاشرہ

آوازہ

ہم اور ہمارا معاشرہ

ہماری قومی زندگی سرسید کے بغیر نامکمل ہے۔ وہ ہماری تحریک آزادی کے جد امجد اور بنیاد ہیں۔ وہ مسلمانانِ برصغیر کو جدید تعلیم کی طرف متوجہ نہ فرماتے اور اس مقصد کے لیے تحریک نہ چلاتے تو نہ صرف یہ کہ علی گڑھ وجود میں نہ آتا بلکہ برصغیر کے طول و عرض میں مسلمان نوجوانوں کی تعلیم کے بے شمار تعلیمی ادارے بھی قائم نہ ہوتے۔ سرسید کی یہی تحریک ہے جس نے برصغیر کے مزاج میں انقلاب برپا کر دیا اور یہا ں کے لوگوں، خاص طور پر مسلمانوں نے عقلیت پسندی پر توجہ مبذول کی اور اقوام عالم کے ساتھ سر اٹھا کر کھڑے ہوسکے۔

کیا سرسید روز اوّل سے ہی ایسا ہی انداز فکر رکھتے تھے؟ اُن کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس جانب متوجہ ہونے سے قبل بھی اُن کی طبع اگرچہ تحقیق اور تجزیے کی طرف مائل تھی جس کے نتیجے میں آثار الصنادید اور رسالہ اسباب بغاوت ہند جیسی معرکہ آرا کتب تصنیف فرمائیں۔ورنہ اس سے قبل تو اُن کی تمام ترتوجہ برصغیر کی روایت کے مطابق تصوف کی طرف تھی۔

ان کے والد میر متقی جو خود ایک درویش صفت بزرگ تھے، برصغیر کے ایک ہی نہایت برگزیدہ ہستی حضرت شاہ غلام علیؒ سے بیعت تھے۔سرسید کی تربیت میں بھی اس بزرگ کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ اسی بزرگ سے نسبت کا فیضان تھا کہ سرسید نے اوائل عمری میں ہی ”نمیقہ“ نام کی ایک کتاب تصنیف فرمائی جس کا موضوع تصور شیخ ہے۔ برصغیر کے ایک اور روحانی بزرگ حضرت شاہ احمد سعیدؒ نے یہ رسالہ دیکھا تو فرمایا کہ ایسی کتاب کوئی صاحبِ دل اور اہلِ حال ہی لکھ سکتا ہے لیکن اسی صاحب حال نے بعد میں تہذیب الاخلاق جاری کر کے ایک علمی اور تہذیبی تحریک کا آغاز کیا۔

مجھے لگتا ہے کہ سرسید کی اس ماہیت قلب اور انداز فکرکی تبدیلی میں ہی ہمارے آج کے دکھوں کا علاج بھی پوشیدہ ہے۔ اگر میں درست نتیجے پر پہنچا ہوں تواس کا تمام تر کریڈیٹ پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک شہرت تو برصغیر کی صحافت کی بکھری ہوئی کڑیوں کو ایک ضخیم مقالے میں یک جا کر کے اردو صحافت کی جڑوں کی تلاش اور اس کے مزاج کی تشخیص ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس جانب بھی بعد میں آئے۔ اصل میں تو ان کا میدان افسانہ تھا۔ افسانہ بھی ایسا جسے پڑھ کر دل و دماغ میں رنگ ناچنے لگیں اور ہم سوچیں کہ قرۃ العین حیدر کے بعد کہیں اردو کو ایک اور جادو اثر ادیب تو نہیں ملنے والا۔

پھر وہ تصوف کی طرف متوجہ ہوئے۔ ویسے تو تجربہ کوئی بھی ہو، انسان کا قیمتی اثاثہ اور اُس کی شخصیت کی پہچان بنتا ہے لیکن یہ وارداتِ قلب ڈاکٹر طاہر مسعود کے لیے یوں خاص اہمیت رکھتی ہے کہ اِ س کی وجہ سے اِن پر آزمائشوں کے ایک طویل سلسلے کا دروازہ کھل گیا۔ گزشتہ ڈھائی تین دہائیوں کے دوران ان کی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں اِس تجربے کے انتہائی گہرے اثرات ان کی شخصیت پر دکھائی دیتے ہیں۔ یوں گویا تجربے کی اس کٹھالی سے گزرنے کے بعد ڈاکٹر طاہر مسعود عمر کے اس حصے میں اُس مشن پر کاربند ہوتے دکھائی دیتے ہیں جسے اختیار کر کے سرسید نے اس قوم کی قسمت ہی نہیں بدل ڈالی بلکہ برصغیر کے جغرافیے میں تبدیلی کی بنیاد بھی رکھ دی تھی۔

یہ کیا تبدیلی ہے اور اس تبدیلی کی ضرورت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب سمجھنے کے لیے تحریر و تقریر سے زیادہ قوتِ مشاہدہ کے استعمال کی ضرورت ہے۔ کچھ برس ہوتے ہیں، ایک بہت بڑے سماجی اجتماع میں مذہبی تحقیق اور اجتہاد کے تعلق سے شہرت رکھنے والی ایک شخصیت نے کھڑے ہو کر پانی پیا۔ یہ دیکھ کر لوگ چونک پڑے اور دین سے اُن کے تعلق کی گہرائی اور سنجیدگی کے بارے میں سوالات اٹھنے لگے۔ بجائے اس کے کہ وہ صاحب اس بات پر شرمندہ ہو کراور غلطی تسلیم کر کے بات ختم کر دیتے، انھوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور دعویٰ کیا کہ کھڑے ہو کر پانی پینا سنت ہے۔

یہ معاملہ ان جیسی کسی مذہبی شخصیت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہی اس طرح کی مثالیں کثرت سے مل جاتی ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی معاملات ہوں یا سماجی و قانونی،زندگی کے ہر شعبے میں ہمارا روّیہ دکھاوے اورتصنع سے عبارت ہے۔ اچھی بات اوراچھی نصیحت خواہ وہ قانون کی شکل میں ہو یا دین کے احکام کی صورت میں، ہمارا تعلق اسے دل و جان سے اختیار کر لینے کا نہیں بلکہ مجبوری اور دکھاوے کا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتیں ہوتی ہیں جنھیں دیکھ کر بعض بزرگ کہا کرتے ہیں کہ کوئی اچھی بات، عقیدہ یا دین کے احکامات کسی شخص کے حلق سے نیچے نہیں اترے۔

برصغیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ اِ س خطے کے لوگ، خاص طور پر مسلمان ایک طویل عرصے تک ایسی ہی کیفیات کا شکار تھے۔ سر سید اُن چند بزرگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس مرض کی تشخیص کر کے لوگوں کو تعلیم اور تربیت کی غرض سے درست راہ پر گامزن کیا۔ سر سید کو گزرے زمانہ بیت گیا۔ آج ہم ان بزرگوں کی محنت کے پھل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن امتداد زمانہ سے معاشرہ ایک بار پھر ویسی ہی کیفیت کا شکار ہوتا دکھائی دیتا ہے جس میں علم اور عمل میں درمیان تفاوت پیدا ہو جاتا ہے اور بڑا بڑا دعویٰ رکھنے والی شخصیات کو اس تضاد کا احساس تک نہیں ہوتا۔ شاید یہی سبب ہے کہ ڈاکٹر طاہر مسعود اپنے افسانے، جادوئی نثر اور دیگر علمی مصروفیات سے وقت نکال کر اس میدان میں جا کھڑے ہوئے ہیں جس میں سرسید نے سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی اور تہذیب الاخلاق جاری کر کے اصلاح احوال کی فکر کی۔

”ہم اور ہمارا معاشرہ“ کے عنوان سے حال ہی میں ان کا جو مجموعہ مضامین شائع ہوا ہے، وہ اس کی بہترین مثال ہے۔ ان مضامین میں انھوں نے دین، دنیا، ادب، سماج غرض زندگی کا کون سا پہلو ہے جسے موضوع بحث نہیں بنایا اور صرف ایک ہی پیغام دیا ہے،عمل لیکن شعور کے ساتھ۔ ایسا لگتا ہے کہ آج ایک بار پھر تہذیبی سطح پر ویسی ہی جدو جہد کی ضرورت ہے جس کی داغ بیل سرسید علیہ رحمۃ نے ڈالی۔ ڈاکٹر طاہر مسعود مجھے اسی راہ پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز