علالت اور دھرنا سیاست

خبر ہونے تک

علالت اور دھرنا سیاست

علالت اور دھرنا آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، کشمیر جو ہماری شہ رگ ہے، بابری مسجد جو جان سے زیادہ عزیز تھی، پتہ نہیں کہاں گم ہو گئے، مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم نوازشریف کی علالت اور علاج کے لیے باہر جانے کا معاملہ حکومتی اداروں کے درمیان شٹل کاک بن کر رہ گیا ہے، میڈیا اس حوالے سے باقاعدہ دو پارٹیوں میں بٹ چکا ہے۔

اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے پر بھی میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہے، عوام کنفیوز ہے کہ حقیقت کیا ہے، ہر دو طرف کے اینکرز اور تجزیہ کار اپنی بات اس دھڑلے سے پوری طاقت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہی حقیقت ہے، ایک دن ایک بات دوسرے دن اس کے الٹ بات۔

اب نواز شریف کا معاملہ ہی لے لیں، شور مچا دیا گیا کہ ڈیل ہو گئی ہے، نواز شریف کی طرف سے کسی نے ایک بھاری رقم بھی خزانے میں جمع کرا دی جس کے باعث زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ بھی بتایا گیا، بس صبح نوازشریف لندن روانہ ہو رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہوا تو دوسرا بیانیہ آ گیا، میڈیکل رپورٹس پر شک کیا جا رہا ہے، پھر تیسرا بیانیہ آیا کہ کوئی حکومتی ادارہ باہر بھیجنے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ ای سی ایل کا فیصلہ وزیر اعظم کریں۔

وزیراعظم نے بھی کابینہ کو شامل کیا، کابینہ نے بھی پتلی گلی پکڑی اور کہا کہ ضانتی بونڈز لیے جائیں۔۔ ایسا کیوں؟ ایسے کیا خدشات ہیں جو سیکیورٹی بونڈز سے دور ہو جائیں گے، حکومتی ایوان میں واقعی لرزہ طاری ہے۔ خدا نخواستہ نوازشریف کی جان کو واقعی کوئی خطرہ ہے؟ کیا حکومتی مبینہ لاپرواہی یا وقت ضائع ہونے سے صحت کے مسائل بڑھ گئے ہیں اور حکومت کو خدشہ ہے کہ لندن کے اسپتالوں میں کیے جانے والے ٹیسٹ کوئی بھانڈہ پھوڑ دیں گے؟

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب تو بار بار ایک بات دہرا رہی ہیں جو اہم اور قابل توجہ ہے کہ صحیح ٹیسٹ لندن میں ہی ہوں گے جو اصل بیماری کا پتہ چلائیں گے! یا پھر ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کیا ان حکومتی ذمہ داروں کی بات درست ہے جو بیماری کی سنگینی کو جعلی قرار دے رہے ہیں؟

جو کچھ بھی ہے ملک کی سیاست اور بالخصوص حکومت کے لیے درست نہیں، بیمار بلکہ شدید بیمار نواز شریف سزا پانے اور بیمار ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان کی سیاست کا گہراترین موضوع ہیں، نواز شریف جس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں، 70 سال کی عمر، تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم، دو مرتبہ وزیر اعلٰی رہنے کے بعد اگر داؤ پر کچھ ہے تواس کی سیاسی ساکھ ہے جس میں موجودہ حالات کے باوجود اضافہ ہی ہوا ہے۔

اگر نوازشریف رعایت لے کر ملک سے باہر جاتے ہیں تو پھر نہ صرف ان کی بلکہ پورے خاندان کی سیاسی ساکھ سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گی، دوسری طرف نوازشریف کو خدانخواستہ کچھ ہو جاتا ہے تو پھر پوری حکومت کی سیاسی ساکھ ہی سوالیہ نشان نہیں بنے گی بلکہ انھیں عدلیہ کا سامنا بھی کرنا ہو گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بڑھکیاں مارنے والے حکومتی ذمہ داران کوئی فیصلہ لینے سے کترا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو حکومت فیصلہ تو مولانا فضل الرحمٰن کے لانگ مارچ سے متعلق بھی نہیں کر پائی، انہوں نے اسلام آباد کے بعد پورے ملک میں لاک ڈاؤن کااعلان کردیا ہے جو یقینا ملک کا کاروبارزندگی شدید متاثرکرے گا۔

جس لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے وہ کرفیو سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ کرفیو میں تو لوگ بند اور محصور ہوتے ہیں یہ تو کھلے اور متحرک ہوں گے، ہر دو صورتحال میں حکومت کا بڑا امتحان ہے جبکہ میڈیا میں حکومتی ہمنوا حکومت سے بڑھ کر لفاظی پر اترے ہوئے ہیں، وہ صورتحال کی سنگینی کو محسوس نہیں کر رہے یا کرنا نہیں چاہتے، بقول کچھ لوگوں کے یہ سارا ریٹنگ کا شاخسانہ ہے، ملک اور عوام سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔ یہ لوگ تجزیہ کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ فضل الرحمٰن اسٹیبلشمنٹ کا بندہ ہے اب چونکہ اسے سیٹ نہیں ملی تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آن کھڑا ہوا ہے۔۔۔ ایک ہی بیانیہ میں اسقدر تضاد۔۔۔

اگر فضل الرحمٰن اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ رہا ہے توکیا وہ اس قدر طاقت ور ہو گیا کہ انہی کے سامنے آ کھڑا ہوا، دوسری طرف سے آواز آتی تھی کہ فضل الرحمٰن کا کھیل مک گیا اور وہ بوریا بستر سمیٹنے کے لیے فیس سیونگ چاہتے ہیں۔ پھردوسرا بیانیہ آتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ مولانا کے ساتھ ہے یعنی اسٹیبلشمنٹ تقسیم ہے، ایک اور آواز آتی تھی کہ اس سب کے پیچھے میاں نواز شریف ہے۔

اس سب کے ساتھ ساتھ مولانا نے پلان بی پر عمل کا اعلان کر دیا ہے، ملک سیاسی طور پر مفلوج ہوتا دکھائی دے رہا ہے ملک کی تین بڑی سیاسی قوتیں بظاہر ساتھ نہیں ہیں لیکن اپنے اپنے محاذ پر مصروف عمل رہ کر حکومت کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان بار بار حکومت کو للکار رہے ہیں، مسلم لیگ ن اپنے قائد نوازشریف کی علالت کو لے کر متحرک ہے تو پیپلز پارٹی بھی سابق صدر اور پیپلز پارٹی پالیمنٹیرینز کے سربراہ آصف علی زرداری کی صحت کے حولے سے ہر ایوان میں صدا بلند کیے ہوئے ہے، یعنی یہ تینوں جماعتیں ایک ساتھ نہ ہوکر بھی ساتھ ہیں۔ تینوں کا ہدف حکومت ہے اور اس کا ادراک شاید حکومت کو نہیں ہے جو فروعی جملے بازی سے آگے نکل ہی نہیں پا رہی۔

یہ صورتحال تو سیاستدانوں اورحکومت کے درمیان ہے،  عوام اور ملک کس نہج پر پہنچ گئے اس کا ادراک کرنے والے بھی کہیں نظر نہیں آتے، ایسا لگتا ہے کہ پورا ملک آڑھتیوں اور ذخیرہ اندوزوں کے حوالے ہے، آٹا ساٹھ روپے کلو اور ٹماٹر 300 روپے کلو تک پہنچ گئے ہیں۔ بزرگ تو اسے قیامت کی نشانی سے تعبیر کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ایوب خان نے چینی پر چار آنے بڑھائے تھے تو حکومت الٹ گئی تھی، یہاں کلو پر دو سو ڈھائی سو بڑھا دیے جاتے ہیں مگر کانوں پر جو نہیں رینگتی، حکومت تو ہے ہی ذمہ دار، اپوزیشن بھی مزے سے عوام کا خون نچڑتا دیکھ رہی ہے۔ لگتا ہے وہ بھی ساجے دار ہے اور عوام سے اسے بھی کچھ لینا دینا نہیں، کشمیر اور بابری مسجد کی طرح عوام بھی حکومت، اپوزیشن اور میڈیا کا ایجنڈا نہیں لگتے۔

ٹاپ اسٹوریز