سیاسی تحریکیں اور عوام

آوازہ

سیاسی تحریکیں اور عوام

سیاسی تحریکوں کی اثرانگیزی کے بارے میں ایک سوال پرجمیعت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری نے عجب بات کہی۔ فرماتے ہیں کہ جب تحریک نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم چلی، وہ بچے تھے، اس لیے نہیں جانتے کہ اس تحریک کا مزاج اور افتاد کیا رہی ہے۔ہماری تاریخ میں تحریکوں کی ماں کا درجہ تو بلاشبہ تحریک پاکستان کو حاصل ہے لیکن 1977 ء کی تحریک کی اہمیت بھی بنیادی ہے۔ کسی نظریاتی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے بھی کہ ہماری تاریخ میں شاید وہ پہلی اور اب تک آ خری تحریک ہے جس کا دباؤ حکومت نے محسوس کیا اور ایک حد تک اس کے سامنے جھکی بھی۔

اس کی اگر کوئی کمزوری تھی تو بس یہ کہ خود تحریک چلانے والوں کے درمیان کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو اس کی کامیابی کی راہ میں حائل تھے کیونکہ ان کے مقاصد تحریک کے مقاصد سے مختلف تھے۔ ایسے مقاصد رکھنے والوں کے بارے میں بات ہونی چاہیے لیکن سردست موضوع یہ ہے کہ کوئی تحریک عوامی کیسے بنتی ہے اور عوام کے دل میں جگہ کیسے بناتی ہے؟

اس سوال پر غور کرتے ہوئے ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے ادارے گیلپ کا سروے بھی سامنے آ گیا کہ عوام کی اکثریت مولانا فضل الرحمان کے دھرنے یا ان کی تحریک کے حق میں نہیں۔ کیا یہ رائے اُن لوگوں کی ہے جوحکومت کے حامی ہیں؟ یقیناً ہوں گے لیکن کم و بیش ان ہی لوگوں نے رائے یہ بھی دی ہے کہ نوازشریف کی صحت کے معاملے میں حکومت کا رویہ مناسب نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رائے دہندگان کی اکثریت نے کسی دوسرے کے بجائے اپنے ذہن سے یہ فیصلہ کیا ہے۔

یہ صرف مولانا فضل الرحمان کے دھرنے یا لاک ڈاؤن کی بات نہیں، عمران خان، حتیٰ کہ طاہر القادری صاحب کے دھرنے کی بات بھی نہیں۔ اگر کچھ ماضی میں چلے جائیں تو 1979 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی جیسے ہمالیہ سے بڑے اور ہلاکت خیز واقعے کے خلاف فطری غم وغصے کے اظہار کی بھی نہیں کیونکہ ان سب مواقع پر رائے عامہ اس طرح متحرک نہیں ہو سکی یا سیاسی قوتیں اسے متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں، لہٰذا ان سب مواقع پر کوئی ایسی تحریک وجود میں نہیں آ سکی جو معاشرے کو اِس پیمانے پر متاثر کر پاتی کہ حکمرانوں میں بے چینی پیدا ہو جائے۔ اس پس منظر میں یہ سوال فطری ہے کہ پھر 1977 ء میں ایسا کیا ہوا تھا جس نے احتجاجی تحریک کو وہ کیفیت عطا کر دی جس کی مثال آج تک نہیں ملتی؟

لاہور کے رانا نذرالرحمن ایک چھوٹی جماعت یعنی نوابزادہ نصر اللہ خان کی پاکستان جمہوری پارٹی سے وابستہ تھے لیکن فی الاصل عوامی آدمی تھے۔ پاکستان قومی اتحاد کی قیادت سے لے کر مرحوم ذوالفقار علی بھٹو تک سب ہی یقین رکھتے تھے کہ یہ شخص لاہور کے جس حلقے سے بھی کھڑا ہو جائے، جیت جائے گا۔ یہی سبب رہا ہو گا کہ بھٹو صاحب نے خود بھی انھیں ٹکٹ کی پیشکش کی۔ وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ جیسے ہی 1977 ء میں قومی اسمبلی کے نتائج آنے شروع ہوئے لوگوں کی بڑی تعداد اتحاد کے دفاتر میں جمع ہو گئی اور اس نے فیصلہ سنا دیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ اس فیصلے پر قیادت نہیں پہنچی، عوام پہنچی۔ یہ ایک حیران کن بات تھی۔ بات یہیں پر رکی نہیں، قیادت کے کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے ہی یہ لوگ سڑکوں پر بھی نکل آئے۔ اتحاد کی قیادت نے تحریک چلانے کا فیصلہ بعد میں کیا۔ یہ دوسری حیران کن بات ہے۔

اس تحریک میں تشدد ہوا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد جان سے بھی گئی، تحریک کو مارشل لا جیسے ناخوش گوار انجام تک پہنچانے میں اس تشدد کا کردار بھی بہت اہم ہے لیکن یہ اس تحریک کا وہ طاقت ور عنصر ہرگز نہیں جس کی طاقت نے حکمرانوں کو پریشان کر دیا۔ یہ طاقت نہ کوئی دھرنا تھی اور نہ راستوں اور شاہراہوں کی بندش جیسے حربے اختیار کیے گئے تھے۔ اصل میں ہوا یہ کہ پاکستان کے ہر شہر یا کم از کم ضلعی صدر مقام سے ہر روز شاید نماز عصر کے بعد شہر کی کسی مرکزی مسجد میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوتی، کچھ تقریریں ہوتیں، اس کے بعد یہ لوگ احتجاجی نعرے لگاتے ہوئے سڑک پر نکل آتے۔

ان لوگوں میں پانچ افراد زیادہ نمایاں ہوتے، ان کے گلے میں گلاب اور گیندے کے ہار پڑے ہوتے، کبھی کبھی لوگ انھیں کاندھوں پر بھی اٹھا لیتے۔ یہ احتجاجی جلوس نعرے لگاتا ہوا چند سو قدم آگے بڑھتا پھر الٹے قدموں پر پیچھے پلٹتا جب نعرے لگا کر ان کا دل بھر جاتا یا پولیس زچ ہو جاتی تو جلوس حتمی طور پر آگے بڑھتا، سامنے پولیس ہوتی، پانچ افراد آگے بڑھتے اور پولیس انھیں اپنی حراست میں لے لیتی۔ بس، یہ پانچ ہی لوگ تھے جو ہر روز ہر شہر سے نکلے اور جیل جا پہنچے۔ یہ پانچ لوگ دراصل وہ پانچ قطرے تھے جو اس دیس کے ہر کوچے سے ٹپکے اور اِن کے جمع ہونے سے دریا نہیں سمندر بن گیا۔

اگر کوئی ہمت کر کے اُس زمانے کی جیلوں کا ریکارڈ نکالے تو پتہ چلے گا کہ یہ قید خانے ٹھسا ٹھس بھر چکے تھے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ پولیس ان لوگوں کو پکڑ تو لیتی لیکن چونکہ انھیں رکھنے کی جگہ نہ ہوتی، اس لیے انھیں دور دراز جنگلوں میں جا کر کہیں چھوڑ دیتی۔ بس، ہر شہر سے نکلنے والے یہی جلوس تھے اور ان جلوسوں میں گرفتاری دینے والے رضا کار جنھوں نے ایک طاقت ور حکومت کو ناکوں چبوا دیے۔ اس سے زیادہ ہوا تو ہڑتال کر لی گئی یا پھر پہیہ جام ہو گئی جس سے کاروبار زندگی رک گیا۔ اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ 1977 ء سے لے کر آزادی مارچ تک کوئی بھی ایسا احتجاج ہوا پے جس میں عوام نے ایسی آمادگی کے ساتھ دلچسپی لی ہو، اس خوش دلی کے ساتھ قربانیاں دی ہوں؟

اگر کسی کو برا نہ لگے تو گزارش ہے کہ 1977 ء کے بعد سے اب تک جو تحریک بھی چلی، عوام کی شرکت کے بغیر چلی، زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ طاقت استعمال کر لی گئی۔ ہمارے ہاں طاقت کے استعمال کا ایک تجربہ ایم کیو ایم نے کیا جو دہشت گردی اور تخریب کاری کی حدود میں داخل ہو گیا، دوسرا تجربہ دھرنوں کے ذریعے طاقت کے استعمال کا تھا۔

مولانا نے تنظیمی طاقت پر بھروسہ کیا لیکن تجربے سے ثابت ہوا کہ عوام کی رضا کارانہ شرکت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ 1977ء کے بعد ہم بہت سی تحریکوں کا تجربہ کر چکے ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ اگر ہمارے سیاسی ذہن نے اپنی سیاسی مہمات کا اس پہلو سے جائزہ نہ لیا تو سیاسی کارکن کی توانائی اور وسائل اسی طرح ضائع ہوتے رہیں گے اور سیاست پرعوام کے بجائے ڈرائینگ روم غالب رہے گا۔

ٹاپ اسٹوریز