مرسوں مرسوں سے مارسوں مارسوں تک۔۔۔

’مارسوں مارسوں سندھ نہ ڈیسوں‘

مارسوں۔۔۔۔میرے چھ سالہ صحافتی کرئیر کا یہ پہلا کالم ہے جسے شب 12بجکر 17 منٹ پر تحریر کر رہی ہوں، کچھ ایسے واقعات جن پر پروگرام میں بحث کیلئے دئیے گئے وقت کےمطابق سمٹ بھی جائے تو علم صحافت کا پرچار کرتے ہوئے بعض اوقات وہ بھی اپنے جذبات اور احساسات کو بیان کرنے کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔ ایک ایسے ہی واقعے نے مجھے یہاں نوحہ کناں ہونے پر مجبور کر دیا۔

لیجئے 12بجکر 19 منٹ ہورہے ہیں، ایک ٹی وی چینل پر شب بارہ بجے کا خبر نامہ چل رہاہے، ”این آئی سی ایچ آر “ میں زیرِ علاج چھ سالہ حسنین جس کے سر سے پاؤں تک پٹیاں ہی پٹیاں ہیں، اسکی معصوم صورت کو پہچاننے کیلئے صرف بائیں آنکھ ،بائیں جانب کا کان اور ہونٹ ۔۔۔دو سہی  ، لیکن آدھے زخمی اور پنڈلیوں سے نیچے پاؤں کا کچھ دکھائی دیے جانے والا حصہ دیکھ کر روح پہلے ہی چیخ چنگھاڑ رہی ہے ، رہی سہی کسر پیارے حسنین!!! بے رحم حالت پر صوبائی وزرا نے سیاسی بیانات داغتے ہوئے پوری کر دی ہے۔سچ کہوں تو ایسا لگ رہاہے کہ ان کی تیز دھار زبانوں نے تمہارے زخمی ٹانکے ادھیڑ دیے ہوں۔

پیارے حسنین ! کیا ہی خوبصورت ہوتا کہ تم کسی فوجی آمر کے گھر پیدا ہوئے ہوتے! کتنا طلسماتی منظر ہوتا کہ تم آلِ شریف کی اولاد ہوتا ! کیسی ایسی نظیر ہوتی تمہاری کہ تم ریاست مدینہ کا راگ آلاپنے والے وزیراعظم کے گھر کا چراغ ہوتے !!!! ہائے ظلم ہے تمہارے ساتھ۔۔۔  کہ تم ایک ایسی لاوارث اشرافیہ کے باغ کے وہ کھلتے ہوئے پھول ہو جسکے باغبان تمہیں بسترِ مرگ پر، روندی ہوئی حالت میں ، زندگی اور موت کی لڑائی لڑتا دیکھ رہے ہیں۔

چھوڑو حسنین اتنے اداس مت ہو!کچھ ہے جو  مجھے ابھی تمہیں بتانا ہے، ہاں بتانا ہے!!! کہ تم نے آنکھیں ایک ایسے شہر میں کھولیں جس نے اس وطن عزیز کو “شہید ذوالفقار علی بھٹو “ کی صورت میں غریبوں کا دم بھرنے والا بیٹا دیا اور اسکی پرچھائی کی نظیر’’بینظیر بھٹو‘‘ کی صورت میں ایک نڈر بیٹی اور خاتون وزیراعظم دی۔ لیکن افسوس’’بھٹو زندہ ہے کا نعرہ‘‘ آج تمہاری شکل میں زندہ نعشوں کی ترجمانی کر رہا ہے’’مرسوں مرسوں سندھ نا ڈیسوں کا نعرہ‘‘ اب مارسوں مارسوں سندھ نا ڈیسوں کی عکاسی کر رہا ہے۔

”روٹی، کپڑا، مکان کا وعدہ بھی اسی وقت پورا ہوگا “ جب زندہ رہے گی انسانی جان” چیخوں، چلاؤں ، خود کو پیٹوں یا تاروں بھرے روشن آسماں کے نیچے سردی کی چبھن کو محسوس کرتے ہوئے اپنی بے بسی کی دہائی دوں ۔۔۔یا کہوں! کہ سائیں! ایک نظر ادھر بھی سائیں؟؟؟

چھوڑو حسنین تم ماتم کر ہی لو خود پر، کیونکہ جس لاڑکانہ میں تم نے آنکھیں کھولیں، اسکے سائیں کی نواسی آج تمہاری حالت پر سیاست کر رہی ہے، وہ کہتی ہے کہ ’’میڈیا والوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ کے پی اور پنجاب میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔‘‘ وہ تمہاری آواز بننے والوں کو دیگر شہروں کی اور دیکھنے کا اشارہ کر رہی ہے جہاں اسکی سیاست دم توڑ چکی ہے۔

تمہارے ماں باپ نے جنہیں روٹی، کپڑا  اور مکان کے نام پر ووٹ دیا تھا ان کے بے لگام اور بے پیندوں کے سیاسی لوٹے تمہیں بھنبھوڑنے والے شکاری کتوں کو لگام ڈالنے کے بجائے تم سے کہہ رہے ہیں کہ تم اُن کتوں کو نا چھیڑو۔۔۔ کاش وہ سمجھ جائیں کہ اتنے زخم ان کتوں نے نہیں دیے کہ جتنا ان کے الفاظ تمہیں کاٹ کھائے۔

کہاں تم چھ سال کے حسنین اور کہاں تمہاری عمر سے چھ گنا عمر میں بڑی وزیرِ صحت ڈاکٹر صاحبہ، اگر تم میں اتنی سمجھ بوجھ ہوتی تو کیا تمہیں کوئی بچہ کہتا ؟؟؟ چلو مان لیا کہ تمہاری ہی غلطی تھی ، لیکن اب تک جو 28 ہلاکتیں ہوئیں کیا وہ بھی تمہاری چھیڑ چھاڑ اور لاپرواہی کا نتیجہ ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ نے کہا تھا کہ ہمارے پاس 13 ہزار کے قریب اینٹی ریبیز ویکسین موجود ہے، میرا مشورہ ہے کہ وہ مزید ہزاروں ویکسین کا آرڈر دے دیں اب، کیونکہ کتے پکڑنا اب سائیں سرکار کے بس کی بات نہیں رہی، سائیں کی غفلت ایک ایسا وقت بھی لائے گی کہ سندھ میں جب انسان نہیں رہیں گے تو صرف کتے ہی کتے ہوں گے۔

پھر وزرا کے منہ پھاڑتے بیانات اور آصفہ بھٹو صاحبہ کے سیاسی بیانات بھی میرا اور تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے’’ارے ابھی تو میں نے کہا ۔۔۔انسان ختم ہو جائیں گے۔۔۔صرف درندوں کا راج ہوگا‘‘

ٹاپ اسٹوریز