آذر بائیجان میں ملتان

آوازہ

”چلیں آئیں اِچری شہر(Icherisheher) چلتے ہیں“۔ باکو میں ہمارا تیسرا یا چوتھا دن تھا اور غیر سرکاری طور پر اب تک ہم صرف بحرِ گیلان (Caspian Sea) کی سیر ہی کر پائے تھے۔ اس لیے بے چینی تھی کہ اس شہر کے گلی کوچوں میں نہ گھومے، یہاں وہاں بھٹک کر اِس کے درو دیوار سے جان پہچان نہ کی اور خاص طور پر تحفے تحائف جمع نہ کیے تو پھر کیا کیا۔

بس یہی بے کلی دل و دماغ سے نکل کر زبان تک آن پہنچی تو مایا نے مسکراتے ہوئے کہا، اس میں پریشانی کی بات کیا ہے، چلیں آئیں، اِچری شہر چلتے ہیں۔ شہر کا لفظ ادا کرتے ہوئے یوں لگا جیسے منہ اس کا شہد سے بھر گیا ہے۔ میں وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے غوث پور جا پہنچا۔ ہمارے جھنگ ملتان کے گاؤں دیہات میں بہت سے الفاظ جب ایسے ہی منہ بھر کے بولتے ہیں تو لگتا ہے معصومیت کا شیرہ ان سے اب ٹپکا کہ اب ٹپکا۔ پنجاب کے اس گوشے کے لب ولہجے کی یورشیا کے اِن گلی کوچوں کی بولی ٹھولی سے مماثلت کیسی؟ یہ سوچ کر ہم لوگ بغیر کسی سوال جواب کے مایا کے پیچھے چل دیے۔

باکو کی یہ الہڑ مٹیار بے پروائی سے لمبے ڈگ بھرتی آگے بڑھتی جاتی تھی اور اس شہر کی منہ زور ہوا میں اس کے ارغوانی بال یوں اڑتے تھے جیسے کپاس کے کھیت میں پُھٹی چنتی لڑکیوں کے پلو زمستانی ہوا سے لہرانے لگیں۔ پلوؤں سے توجہ بھٹکی تو اُس شان دار پہناوے تک جا پہنچی جو ہمارے ہاں لاچا کہلاتا ہے۔ زبان کے بعد مجھے لگا جیسے ہمارے اور ان کے درمیان یہ دوسری مماثلت ہے۔ فرق بس اتنا تھا کہ یہ لاچا مختصر ہوتے ہوتے اتنا رہ گیا ہے جسے آسانی کے لیے تمان (Tuman) کا نام دیا جاتا ہے لیکن لڑکیاں بالیاں ترجمے کی زحمت گوارا نہیں کرتیں۔

نو صدیوں کے الٹ پھیر میں سانس لیتے ہوئے اِچری شہر میں کچھ طلسماتی سی فضا ہے ورنہ کہاں ہمارے دھول مٹی سے بھرے گاؤں دیہات اور کہاں فرش تا عرش سلیقے سے چنا ہوا پتھروں کا شہر جس کے گلی کوچوں سے گزرتی ہوا یوں سیٹیاں بجاتی ہے جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ اِچری شہر ہمارے پرانے لاہور کی طرح قلعہ بند ہے۔ اِدھر ہماری طرف کی دیواروں کو تو جانے کن چوروں نے آ لیا لیکن اس کی دیواریں سلامت ہیں۔ صاف ستھری، اونچی اور سفید۔ یہی کچھ دیکھتے سوچتے ہوئے ہم ایک منڈیر کے کنارے جا پہنچے۔ مایا نے کہا کہ ذرا جھانک کر تو دیکھئے:
”یہاں ایک کنواں ہوا کرتا تھا“۔
”کہاں،کیسے، اب کہاں ہے؟“۔
”صدیوں کی دھول سے اٹ گیا“۔
مایا نے رسان سے جواب دیا۔ خاموشی سے ہمارے چہروں کے تاثرات اُس نے دیکھے اور مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ ملتان سرائے ہے۔
مایا کا بیان اس کے بعد بھی جاری رہا، کوئی بات کان میں پڑی کوئی نہیں پڑی لیکن اب یہ سب بے کار تھا۔ بات کرتے کرتے مایا صدیوں کا سفر کرتی ہوئی دور کہیں شاہراہ ریشم کی طرف جا نکلی جس کے اونچے نیچے پہاڑی میدانی راستوں پرتیرتی ہوئی آواز جرس ہی نہیں، اونٹوں کے وہ قافلے بھی صاف دکھائی دینے لگے جو کبھی ملتان سے چل کر ماہ و سال کے سفر دنوں میں طے کرتے ہوئے اس دیار تک پہنچتے ہوں گے۔
”ارض ِ ملتان سے یہاں دو طرح کے لوگ آتے، انواع و اقسام کے ساز و سامان سے لدے پھندے تاجر یا سراخانی کی آتش گاہ کی زیارت کو جانے والے حضرت زرتشت کے عقیدت مند“۔

یہ بیان بھی مایا ہی کا تھا لیکن یوں لگا جیسے کسی گہرے پرانے غار سے نکلنے والی کوئی آواز ہو لیکن جیسے جیسے اس کا جملہ مکمل ہوتا گیا، ساراطلسم پل بھر میں ٹوٹ پھوٹ کر ملتان سرائے کے کنوئیں میں جا گرا۔ مایا کا منہ بھر کے بات کرنا، بات کرتے ہوئے شرما جانا اور اسکرٹ پر لاچے کا دھوکا، ساری کہانی کھل گئی۔ کچھ دیر جب ہم ملتان سرائے میں لکڑی کی مختصر کرسیوں پر بیٹھے منہ میں شکر کی ٹکیہ ڈال کر آذربائیجانی چائے کی چسکیاں لے رہے تھے، میں نے سرخ یاقوتی چائے کا بلوریں گلاس مایا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ تمھاری زبان میں جانے ایسا کون سا جادو ہے کہ پل بھر کے لیے مجھے یوں لگا جیسے اِس ملتان اور اُس ملتا ن کے بیچ ہزاروں فرسنگ کا فاصلہ دم بھر میں سمٹ کر رہ گیا ہو۔ زبان میں کوئی فرق، نہ بود و باش میں کوئی اجنبیت۔ طاہر حسن اس شہر کی چائے پر مرمٹے تھے، کیسے شوق سے وہ پیالی اٹھا کر لبوں تک لے جاتے۔ یہ جملہ ان کے کان میں پڑا تو تڑپ پیالی رکھی اور کہا کہ یہی بات تو میں بھی سوچ رہا تھا۔

”تو سوچئے نا! سوچتے کیوں نہیں“۔

مایا شرارت بھرے لہجے میں بولی پھر کہا۔ہم آپ میں سے ہیں اور آپ ہم میں سے۔ ذرا سے حالات کیا بدلے، یہ فاصلے پیدا ہو گئے ورنہ ہمارے درمیان ایسی کون سی اجنبیت تھی۔ انٹرنیشنل ریلیشنز کی طالبہ پر پہلے داستاں گو کا گماں گزرا تھا، اب وہ رشتے ناطوں کی حفاظت کرنے والی ایسی بی اماں محسوس ہوئی جن کے دم سے رشتے تعلق کی مضبوط ڈوری سے بندھے رہتے ہیں۔

اگلی شب ہم باضابطہ طور پر ملتان سرائے میں مدعو تھے۔ صدر مملکت کے ساتھ جب ہم سرائے میں داخل ہونے کے لیے ڈھلوان راستے سے گزرے تو دائیں بائیں کی بوڑھی دیواروں پر ناقہ لیلیٰ بھی صاف دکھائی دی اور آوازجرس نے کانوں میں رس گھولا۔ ہمارے ان دوستوں نے روشنی اور آواز کے امتزاج سے وہ منظر ان دیواروں پر تخلیق کر ڈالا تھا جس آرزو میں شاہراہ ریشم کی گزر گاہیں آج تک ترستی ہیں۔

یہ مسافر ابھی تک ان مناظر کے سحر میں تھا کہ اس دیس کے مغنیوں اور رقاصوں نے اپنے فن کا ایسا جادو جگایا کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ان کی موسیقی اپنی جگہ، رقص کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ آزربائیجانی رقاص قراقلی ٹوپی، شیروانی جیسے کرتے اور تنگ پائجامے زیب تن کیے کچھ ایسے تھرکتے ہیں کہ نگاہ ٹکتی نہیں۔ ان کے ہاتھ پاؤں میں گویا بجلی بھری ہے جو ایک آہنگ کے ساتھ حرکت میں آ کر چکا چوند کر دیتی ہے۔ کوہ قاف کی سرزمین پر ایسے طلسماتی مناظر دیکھنے کے بعد ہم ملتان سرائے سے نکلے تو سامنے مینار محبت المعروف میدان (Maiden) ٹاور ضوفشاں تھا۔

ٹاپ اسٹوریز