مسیحا کی تلاش

گزشتہ برس جس افغان بچی کو اپنی بوڑھی ماں کے ہمراہ گلیوں میں کوڑا سمیٹتے دیکھا کرتا تھا گزشتہ روز اسے بار بار اپنا دوپٹہ سمیٹتے دیکھا تو خیال آیا کہ اب اس کی ماں کو اپنی خمیدہ کمر پر کمیاب رزق کی تلاش کے ساتھ ساتھ بچپن اور جوانی کی سرحد پہ کھڑی بیٹی کی حفاظت کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا۔ ایک ایک دروازے سے گھورتی نگاہوں اور ہر چہرے پر پھیلی معنی خیز مسکراہٹ کا مفہوم اس بچی کو سمجھانا پڑے گا۔ خوشبودار لفظوں کے گجرے ہاتھوں میں لے کر گلی گلی پھرنے والے بے ایمان بیوپاریوں سے بھی خبردار کرنا ہو گا۔

کل پہلی بار ماں بیٹی کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا جس نے اسلام آباد کے سرد موسم میں صرف شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ پہلی نگاہ میں یہ فیصلہ کرنا دشوار تھا کہ اس کے لباس اور چہرے میں سے کس پر میل کی زیادہ تہیں جمی ہوئی ہیں۔

اس کی نظریں اس ٹھیلے والے پر جمی تھیں جو ایک اعلیٰ مکان سے برآمد ہونے والے باپ، بیٹے کو آئس کریم کے انتخاب میں مدد کر رہا تھا۔ میں نے افغان بچے کی آنکھوں میں امید کی قوس قزح تلاش کرنے کی کوشش کی مگر وہاں فقط حسرتوں کا راج نظر آیا۔

مکان سے نکلنے والے شخص کی تمام تر محبتوں کا مرکز اس کا بچہ تھا جس کے انداز میں تیقن کی پر اعتماد روشنی بکھری ہوئی تھی۔ آئس کریم کا انتخاب ہو گیا اور باپ بیٹا واپس اپنے مکان میں چلے گئے۔ افغان بچے کی نگاہیں بس ان کا تعاقب کرتی رہیں۔

اس دوران وہ لڑکی اور اس کی ماں ایک ایک دروازے پر دستک دے کر کوڑا اکٹھا کرنے میں مصروف رہیں۔ بچے کی حسرت اس طویل گلی کے ایک ایک کونے میں دیوانہ وار رقص کرتی رہی مگر نہ ہی  امیر شخص نے اس کی آہ و فغاں سنی اور نہ ہی ماں بیٹی کسی واردات قلبی سے گزرے۔ بقا کی خوفناک جدوجہد ایک عفریت کی طرح ان کی تمام حسیات پر غالب رہی۔

اپنی اولاد سے محبت کائنات کے حسین ترین جذبوں میں سے ایک ہے۔ جب وہ باپ اپنے بیٹے کو آئس کریم لے کر دے رہا تھا تو اس کی ذات پر یہی خوبصورت جذبہ حاوی تھا اور اسی کی روشنی چہرے پر بکھری ہوئی تھی۔لیکن انسان صرف خود غرض جبلتوں کا مرکب نہیں ہے۔ ذات کی تکمیل کے لیے قدرت نے کئی اور زاویے بھی تخلیق کیے ہیں جن سے مس کیے بغیر وجود کا کندن سونا نہیں بن سکتا۔ فرد کی شخصیت کا ایک جزو ایسا ضرور ہونا چاہیئے جو محدود جبلتوں کا حصار توڑ کر اپنی محبتوں کی رسائی میں دیگر افراد کو بھی شامل سکے۔

تمام پیغمبروں، صوفیوں اور مصلحین نے ذات کے اسی حصے کو ابھارنے اور اسے جبلت جیسا طاقتور بنانے کی تعلیمات دی ہیں۔ ان تعلیمات پر کسی نہ کسی سطح پر عمل بھی ہوتا ہے۔ تاہم محبتوں کا افق فرد کی اپنی افتاد طبع اور اس کے اختیارات کے مطابق سکڑتا اور وسیع ہوتا رہتا ہے۔

ایک عام فرد کی ذات میں انسانی ہمدردی کے جتنے بھی سمندر موجزن ہوں اس کے اختیار کی مملکت بہت محدود ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کسی بااختیار یا دولتمند شخص کے پاس دیگر انسانوں کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی اہلیت بڑھ جاتی ہے۔ اگر اسی ترتیب میں دیکھا جائے تو ریاست کا حاکم ان سب سے زیادہ بااختیار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی پسند کے سیاسی رہنما سے امیدیں باندھ لیتے ہیں اور اس کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

عام انسانوں کی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز بننے کا فن کسی بھی سیاستدان کو خوب آتا ہے۔ اس کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ سماج کے کتنے بڑے حصے کو اپنی محبت اور شفقت کا یقین دلا سکتا ہے۔ تاہم اصل امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب اقتدار و اختیار کی سب کنجیاں اس کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہیں، صرف اسی وقت پتا چلتا ہے کہ وہ ایک مسیحا ہے یا فقط حکمران۔

پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں مسیحا کی تلاش میں بھٹکتی کئی نسلوں کو فقط حکمران ہی نصیب ہوئے ہیں جن کی محبتوں کا مرکز ان کی اپنی ذات اور آل اولاد ہوتے ہیں۔ وہ اسلام آباد کے مکان سے نکلنے والے باپ سے کسی طور مختلف ثابت نہیں ہوئے۔ عوام کے حصے میں ایک غریب بچے جیسی حسرتیں ہی آئی ہیں۔

دانا لوگ کہہ گئے ہیں کہ عوام حکمرانوں کی نقالی کرتے ہیں، اسی لیے جس دن ہر امیر باپ اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ کسی غریب بچے کی حسرتوں کا مداوا بھی کرنے لگے گا تو سمجھ جائیں کہ بالآخر ایک مسیحا تخت نشیں ہو چکا ہے۔ یہ معیار کڑا سہی لیکن کیا کریں کہ خوبصورت خوابوں کی بدصورت تعبیریں دیکھ دیکھ کر تھک جانے والی آنکھیں کسی کمتر پیمانے پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز