دھرنا سیاست کی کہانی

خبر ہونے تک

دھرنا سیاست کی کہانی

علالت اور دھرنا سیاست کا ایک مرحلہ مکمل ہوا، نواز شریف علاج کی غرض سے لندن پہنچ گئے جبکہ مولانا اسلام آباد سے نکل کر پورے ملک میں پھیل گئے۔ حکومت حسب سابق اپنی برتری اور کامیابی کے ڈنکے بجا رہی ہے، اس مرحلے میں ملک کئی امتحانات سے گزرا، کھیل تو تھا ہی سیاست کا مگر اس میں آئین، قانون، پارلیمینٹ، حکمرانی، سب کو امتحانی مرکز میں حاضر ہونا پڑا۔ کامیابی کے دعوٰے سب کر رہے ہیں، اگر کوئی ناکام اور نامراد رہا تو وہ عوام ہیں جنھیں اس سارے مرحلے کے دوران سبزیاں بھی گوشت کے بھاؤ کھانی پڑیں، اس کے ساتھ ہی مسلسل نوکریوں سے نکالے جانے کے عمل کا بھی سامنا رہا۔

کہا جاتا ہے کہ سیاست اور حکومت عوام کی فلاح بہبود کے لیے ہوتی ہے لیکن سارے مرحلے میں سیاست اور حکومت کی فلاح و بہبود صرف اور صرف علالت اور دھرنے کے لیے تھی، عوام بیچارے تو بوجھ ڈھانے کے لیے تھے اور ہیں، حکومت اور اپوزیشن کسی ایک نے آگے بڑھ کر اس مصنوعی مہنگائی کو نہیں روکا، شاید یہ ان کا ایجنڈا نہیں اور شاید اس لیے بھی نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے سب سے بڑے مددگار یہی ذخیرہ اندوز ہوتے ہیں، انھیں کیسے روکا جا سکتا ہے۔

عوام کو علالت اور دھرنے کی لال بتی کے پیچھے لگائے رکھا اور ذخیرہ اندوز اپنا کام کرتے رہے۔ بظاہر پہلا مرحلہ چوہدری برادران کے تعاون سے خوش اسلوبی کے ساتھ طے کرلیا گیا لیکن دوسرا مرحلہ جس میں بظاہر کوئی چیلنج نظر نہیں آ رہا، بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں لانگ مارچ اور دھرنا سیاست فوری طور پر کچھ حاصل کیے بغیر انجام کو پہنچی ہیں لیکن کچھ وقت بعد ان کے اثرات بھرپور انداز میں سامنے آئے۔

نوّے کی دہائی ہمارے سامنے ہے، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت ختم کرانے میں اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی) نے 1989 میں نوازشریف کی قیادت میں عوامی تحریک منظم کی، ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک بھی لائے، اس وقت آئی جے آئی کو ناکامی ہوئی لیکن کچھ ماہ بعد بینظیر بھٹو حکومت ختم کر دی گئی، نواز شریف حکومت کے خلاف اسی طرح 1992.93 میں بینظیر بھٹو نے جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے تحریک چلائی، لانگ مارچ ٹرین مارچ کیے، انھیں بھی فوری نتائج نہیں ملے تاہم چند ماہ بعد نواز حکومت کو جانا پڑا۔

پھر دوسری بار نواز شریف نے نے بینطیر حکومت کے خلاف تحریک منظم کی، جلسے جلوس کیے، کاروان نجات چلایا، ستمبر1996 میں آخری ریلی لاہور میں نکالی جہاں پنجاب اسمبلی کے مرکزی دروازے پر بابائے قوم محمد علی جناح کی تصویر روندنے کا افسوس ناک واقعہ بھی رونما ہوا، لاٹھی چارج، شیلنگ اور فائرنگ بھی ہوئی۔ اس وقت بھی فوری طور پر کچھ نہیں ہوا لیکن دو ماہ بعد، نومبر میں، بینظیر حکومت ختم ہو گئی۔

اس لڑائی یعنی ایک دوسرے کے خلاف لانگ مارچ، دھرنے، جلسے اور جلوسوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی ایک بھی حکومت کی میعاد پوری نہیں کرسکا بلکہ اس سے زیادہ خوفناک بات یہ ہوئی کہ دونوں قومی رہنماؤں کو دس سال کے لیے جلاوطنی پر مجبور ہونا پڑا اس دوران دونوں رہنماؤں نے حالات سے سبق سیکھا اور عہد کیا کہ آئندہ ایک دوسرے کی ٹانگ نہیں کھینچیں گے، میثاق جمہوریت کیا، اے آر ڈی کے پلیٹ فارم سے دونوں جماعتوں نے پہلی بار جمہوریت کی بحالی کے لیے مشرف فوجی حکومت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی۔ اس کے نتیجے میں بعد میں بننے والی دونوں جماعتوں کی حکومتوں نے اپنی اپنی میعاد یعنی پانچ پانچ سال پورے کیے۔

تحریک انصاف کے قومی سیاست میں بھرپور انداز سے متحرک ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ اور دھرنا سیاست کا آغاز ہو گیا ہے مگر اس مرتبہ دونوں روایتی حریف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس کا حصہ نہیں بنے بلکہ اس مرتبہ لانگ مارچ اور دھرنے میں نئے کردار سامنے آئے ہیں، مولانا طاہرالقادری نے پیپلز پارٹی حکومت کے دور میں مارچ اور دھرنا کیا، عمران خان نے 2014 میں نوازشریف کے خلاف مارچ اور دھرنا کیا جو چار ماہ جاری رہا لیکن اس کا حسب سابق اور حسب روایت کوئی فوری نتیجہ برآمد نہیں ہوا، عمران خان کو بھی چار ماہ بعد اسی طرح بوریا بستر لپیٹ کر نامراد لوٹنا پڑا تھا جس طرح مولانا فضل الرحمان کو دو ہفتوں میں کوئی مراد پائے بغیر واپس جانا پڑا۔

تاریخ شاہد کہ فوری مراد نہ ملنے کا یہ مقصد نہیں کہ مراد ملنی ہی نہیں، تاریخی شہادت کے مطابق مراد ملنے میں وقت لگ سکتا ہے، اس کے بڑے واضح اشارے موجود ہیں جس طرح حکومتی حلقوں خاص طور وزرا کی بدن بولی صاف پتہ دے رہی ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہونے جا رہا ہے، ان کے بیانات کا پھیکا پن  اورغلط کو صحیح قرار دینے کی جدوجہد بہت کچھ عیاں کر رہی ہے، چوہدری برادران جو جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں ان کا متحرک ہونا یوں ہی نہیں، کہاوت ہے کہ”بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے“ اس پر ان کے بیانات کہ مولانا بہت کچھ لے گئے ہیں، کچھ باتیں امانت ہیں ایسے ہی نہیں کہی جا رہیں۔

اسی طرح خود مولانا کی حرکات و سکنات اور ان کا اطمینان کچھ ایسا ہی نظر آ رہا ہے جیسا نواز شریف کا محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف ستمبر 1996 کے آخری ریلی کے بعد تھا، ادھر نوازشریف کے لندن پہنچنے کے بعد اس خدشے کا اظہار پھر کر دیا گیا ہے کہ ان کی بیماری میں اس تیزی سے بگاڑ کا پتہ چلانا ضروری ہے، نوازشریف کے صاحبزادے نے تشخیص میں کسی سازش کو تلاش کرنے کی بات کی ہے، حکومتی دعوؤں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف اب حکومت کی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں، وہ پہلے بھی آٹھ سال باہر رہ چکے ہیں جس میں ان کا قد گھٹا نہیں بلکہ بڑھا تھا اب جن حالات میں وہ گئے ہیں یا یوں کہا جائے کہ انھیں بھیجا گیا ہے، اس میں نوازشریف کا پلّہ بھاری ہے نواز شریف کے دیے گئے وقت میں واپسی ممکن نظر نہیں آتی تاہم تاریخی حوالے سے مرادوں کے بر آنے کی امید بہت ہے۔

ٹاپ اسٹوریز