لال لال لہرائے گا

خبر ہونے تک

’لال لال لہرائے گا َ لگ پتہ چل جائے گا‘ کے نعرے کی گونج نے ملک کی سیاست میں طلاطم پیدا کردیا اور سوچ کے نئے دریچے کھول دیے۔ ایک ہی دن ملک کے 21 شہروں میں نوجوان لڑکے لڑکیا ں لال رنگ میں رنگے سڑکوں پر اس طرح نمودار ہوئے کہ دیکھنے والوں نے دیکھا اور سوچا کہ جب کبھی ایشیا سرخ ہے کا نعرہ بلند کیا جاتا تھا تو نہ صرف دائیں بازو کی طلبہ تنظیم ایشیا سبز ہے کا نعرہ لے کر میدان میں کود جایا کرتی تھی بلکہ پولیس اور خفیہ ایجنسیاں بھی متحرک ہو جایا کرتی تھیں۔ آج صرف نعرہ ہی نہیں اور ایک دو درجن نوجوان ہی نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں وہ بھی کئی شہروں کی پچاس سے زائد جگہوں پر سراپا لال ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تھے اورنعرے بلند کر رہے تھے۔

لڑکے لڑکیوں کی دائیں بائیں کی تمیز سے ہٹ کر آزادی کے ساتھ منظم انداز میں پرجوش نعرے بازی پیغام دے رہی تھی کہ کچھ نیا ہونے جارہا ہے، نوجوانوں کے اس جم غفیر کا کوئی قائد نہیں بلکہ نوجوان خود ہی لیڈر تھے۔ ان کے کوئی بڑے مطالبات نہیں تھے بلکہ طلبا یونین کی بحالی، ہراسمنٹ قوانین کا اطلاق، کمیٹیوں میں طلبا کی نمائندگی، مزید جامعات کا قیام،جامعات سے سیکیورٹی فورسز کو ہٹانا، فیسوں میں حالیہ اضافہ واپس لینا، جی ڈی پی کا پانچ فیصد تعلیم کے لیے مختص کرنے کے علاوہ طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ، تعلیمی اداروں سے تشدد کا خاتمہ، پرائمری تک قومی زبانون میں تعلیم لازمی قرار دینا، لائبریریوں کی تعداد میں اضافہ جیسے مطالبات شامل تھے، انہیں تسلیم کرنے میں حکومتوں نے بھی توقف نہیں کیا بلکہ دوسرے ہی دن طلبا یونین کی بحالی کے فیصلے کرنا شروع کردیے۔

جس انداز میں یہ نوجوان سڑکوں پر آئے اور سول سوسائیٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کو جس طرح دور رکھا اور لا ل لال کا نعرہ بلند کیا، اس پر جہاں انھیں بے تحاشا پزیرائی ملی وہاں بہت سے سوالات بھی اٹّھے اور کئی کہانیاں اور نظریات بھی سامنے آئے۔ سوالات میں دو بنیادی سوالات ہیں، ایک سوال یہ کہ کسی سیاسی جماعت کے بغیر اتنے منظم مظاہرے کیسے؟ دوسرا سوال یہ کہ حکمرانوں کا اتنا فوری اور مثبت ردعمل دینے کا مقصد کیا تھا؟

ایک نظریہ یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے یوٹرن لیا ہے، جنرل ضیاء الحق کے اقدامات سے ملک کو جو نقصانات ہوئے، انہیں طاقتور حلقے اب دوہرانا نہیں چاہتے، اس کو بیلینس کرنے کے لیے لبرل قوتوں کو بھی ہموار میدان دینا چاہتے ہیں۔ دوسری تھیوری یہ تھی کہ پاکستان اب چین اور روس سے دوستی بڑھا رہا ہے، یہ دونوں ممالک سرخے ہیں تو خود بھی سرخ لبادہ اوڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ عین اسی طرح جب سرخے روس کے خلاف امریکہ کی محبت میں سبز رنگ اپنایا تھا تیسری تھیوری بڑی اہم ہے اور وہ یہ کہ دائیں بازو کی جماعت نے لبرل ازم کا لبادہ اوڑھ کر اسے اندر سے ختم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ عین اسی طرح جس طرح ماضی میں کمیونسٹ پارٹی مختلف سیاسی جماعتوں کی صفوں میں شامل ہوکر اس کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ چاہتی تھی۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ان لال مظاہروں میں متحرک نوجوانوں کا تعلق سبزجماعت سے تھا۔

تھیوریاں، کہانیاں اور سوالات کچھ بھی ہوں ایک حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے عوام ملکی حالات سے بیزار ہوکر سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو چکے ہیں، ایک وقت تک وہ اسٹیبلشمنٹ پر بھروسہ کرتے تھے لیکن اب خود کوئی راستہ نکال رہے ہیں۔ دنیا بھر میں نوجوان طبقہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ متحرک، باشعور اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتا ہے، پاکستان کا نوجوان بھی انہی صفات کا حامل رہا ہے۔ 1968 کی ایوب خان کے خلاف تحریک ہو یا پھر1977 کی بھٹو حکومت کے خلاف تحریک، ان سب میں نوجوانوں یعنی طلبا نے صف اوّل کا کردار ادا کیا تھا، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ سیاسی جما عتیں دیر سے تحریک میں شامل ہوئی تھیں، ابتدا میں تو یہ طلبا تحریکیں ہی تھیں۔

آج پھر اگر نوجوان بالخصوص طلبا متحرک ہو رہے ہیں توملک کے لیے یہ مثبت اشارہ ہے، طلبا کے متحرک ہونے سے ملک میں سوچ، فکر، فلسفہ اور نظریہ کی سیاست ہو گی، دہشت گردی، انتہا پسندی، تنگ نظری، فرقہ واریت کی سیاست کا خاتمہ ہو گا جسے جنرل ضیا کے دور میں تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت جنم دیا گیا تھا۔ حکومت تو وہ گیارہ سال کر گئے لیکن اس سوچ کے باعث ملک کو ایک ایسے اندھے کنویں میں پھینک گئے جہاں سے نکلنے کے لیے چالیس برسوں سے اس ملک کے عوام کوششوں میں لگے ہیں۔

آج نوجوانوں کے متحرک ہونے سے امید بندھی ہے کہ شاید یہ ملک اس اندھے کنویں سے نکل آئے گا اور آمریت، بری طرز حکومت، اقرباپروری، لوٹ کھسوٹ کی حکومتوں کے خلاف کامیاب تحریک چلے گی لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں نظریے اور فلسفے پر بات ہو۔ طلبا کو اپنی فکر اور سوچ کی آزادی ہو، اگر ایسا ماحول دیا گیا تو ملک کو وہ متحرک قیادت بھی ملے گی جس کی چالیس پہلے نس بندی کردی گئی تھی۔ ماضی میں قیادت پیدا کرنے والی ان نرسریوں کو بانجھ بنا دیا گیا تھا، موروثیت اور علاقائیت کو پروان چڑھایا گیا تھا جس سے تشدد نے جنم لیا

موجودہ حکومت بات کرتی ہے کہ موروثیت کا خاتمہ کرے گی تو یہ وقت اس کے لیے بہت سازگار ہے کہ تعلیمی اداروں میں نظریے اور فلسفہ کی آزادی کو یقینی بنائے، طلبا کے متحرک مثبت کردار کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرے، طلبا یونینوں کی بحالی کی باتیں تو شروع ہو گئی ہیں لیکن اس کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہیں، کہیں پھر کوئی نہ اٹھ کھڑا ہو کہ طلبا یونین کی بحالی سے انتشار بڑھے گا اس سوچ کو غلط ثابت کرنے کے لیے حکومت، سیاسی جماعتوں اور خود طلبا کو مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہو گا، یہی وقت ہے ملک کی قیادت کی نرسری کو پھر سے کھاد اور نیا بیج دے کر آبیاری کی جائے اور ملک کا مستقبل روشن کیا جائے۔

ٹاپ اسٹوریز