طلبا یونین حقیقی جمہوریت

خبر ہونے تک

پاکستان میں 42 سال بعد حقیقی جمہوریت کی بحالی کے امکانات روشن ہونے لگے ہیں، وفاق اور صوبوں کی جانب سے تعلیمی اداروں میں طلبا یونین کی بحالی کے اقدامات شروع ہو چکے ہیں، کابینہ سے منظوری کے بعد پارلیمینٹ میں قانون سازی کے لیے متعلقہ حلقوں سے تجاویز طلب کی جا رہی ہیں، طلبا تنظیموں اور سابق طالب علم راہنماؤں نے سر جوڑکر بیٹھنا شروع کردیا ہے، حقیقی جمہوریت کی جانب اس پہلے قدم کا سہرا ’’لال لال لہرائے گا‘‘ کے نعرے کے سر جاتا ہے۔ یہ نعرہ بلند کرنے والے نوجوانوں خاص طور پر طلبا نے تعلیمی اداروں میں لوٹ کھسوٹ، معیار کے خاتمے، حکومتوں کی عدم توجہی اور اپنے سے پہلے دونسلوں کی بربادی اور سیاسی قیادت سے مایوسی کے بعد خود یہ علم اٹھایا۔

کہا جاتا ہے کہ صوبہ پختون خواہ میں طالب علم مشال کے بہیمانہ قتل نے طلبا اور سول سوسائٹی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا، مختلف شہروں میں طلبا اور سول سوسائٹی کے مختلف گروپوں میں بحث و مباحثے ہونے لگے تھے، پھر ایک دن ملک کے درجنوں شہروں میں ہزاروں نوجوان ’’لال لال لہرائے گا‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر امڈ آئے، اس کے بعد ملک کے ایوانوں کے بھی درودیوار کھڑکھڑانے لگے، طلبا یونین بحال کرنے کے اقدامات ہونے لگے لیکن اب بھی ایک خدشہ ہے اور وہ یہ کہ جمہوریت دشمن عناصر کہیں اس مرتبہ بھی کامیاب نہ ہوجائیں۔

جمہوریت اور باصلاحیت عوامی قیادت کے مخالفین اوران کے پروردہ عناصر بھی میدان میں نکل آئے ہیں، بعض لوگوں نے تاریخ کو غلط طور پر بیان کرتے ہوئے میڈیا میں پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے کہ طلبا یونین کی بحالی سے خلفشار پھیلے گا جبکہ حقیقت یہ کہ طلبا یونین کی بحالی سے نظم و ضبط قائم ہوگا، علم کے دیے روشن اور دماغوں کے دریچے وا ہوں گے اور ملک کے لیے حقیقی سیاسی قیادت بھی پیدا ہوگی، ملک سے خاندانی اور موروثی قیادت و سیاست کے ساتھ ساتھ برادری، علاقائیت، فرقہ واریت کی سیاست کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی کیوں کہ جب دماغوں کے دریچے وا ہوں گے اور نظریے اور فلسفے پر بحث ہوگی تو حقیقت سامنے آئے گی۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب طلبا یونین بحال تھیں اس وقت ہر فکر، نظریے اور سوچ کے طلبا ایک ساتھ پڑھتے تھے، دائیں بازو اور بائیں بازو کے گروپوں میں بحث و مباحثہ ہوتا تھا، طلبا کے تقریری جوہر نکھرتے تھے، تحریری صلاحیتیں سامنے آتی تھیں، قائدانہ کردار ابھرتا تھا، یہی طلبا آگے چل کر عملی زندگی میں بھی کامیابیاں سمیٹتے تھے، کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ یونین کی سرگرمیوں حصہ لینے والے طلبا کسی سے پیچھے رہے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یونین کے صدور اور سیکرٹریزکامیاب سیاستداں، کامیاب بزنس مین، کامیاب افسرغرض جس شعبے میں گئے کامیاب رہے۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا حقیقی جمہوریت اور حقیقی قیادت کے مخالفین کو یہی خوف ہے کہ طلبا یونین کی بحالی ان کی زبردستی کی بالادستی کا خاتمہ کر دے گی۔

اب تک جمہوریت کے حوالے سے محض نعرے بازی ہی ہوتی رہی ہے، انتخابات کو ہی جمہوریت قرار دیا جاتا اور سمجھا جاتا رہا ہے، موجودہ حکومتوں نے جمہوریت کی اس نرسری کو بحال کرنے کا جو بیڑا اٹھایا ہے اگر اس میں کامیابی حاصل کرلی تو یہ ملک کی بڑی خدمت ہوگی۔ 40 سال پہلے مارشل لا دور میں آمر نے اس نرسری کو اجاڑا تھا، پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت میں محترمہ بینظیر بھٹو نے یونین بحال کرنے کی کوشش کی تو جمہوریت دشمن عدالت چلے گئے اور یونین بحال نہیں ہوسکیں، پیپلزپارٹی کی دوسری حکومت میں یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمٰی کا حلف اٹھانے کے ساتھ ہی طلبا یونین بحال کرنے کا اعلان کیا مگر بوجوہ وہ اس پر عمل نہ کر سکے۔ شاید اس وقت کوئی مصلحت تھی یا کوئی دباؤ کہ پیپلزپارٹی کی حکومت قانون سازی کی طرف نہیں گئی لیکن اب پیپلزپارٹی کی ہی صوبائی حکومت سندھ نے قانون سازی کے لیے پہل کی ہے۔

وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت بھی قانون سازی کی طرف جا رہی ہے جو درست اور مثبت قدم ہے، اس سے طلبا یونین کی بحالی کے امکانات کافی حد تک روشن نظر آتے ہیں کیوں کہ کوئی بھی پارلیمانی جماعت اس کی مخالف نہیں ہے، پارلیمینٹ میں مسودہ آتے ہی منظور ہو جائے گا اور مسودہ کی تیاری میں زیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں ہوگی، 40 سال قبل جب طلبا یونینوں پر پابندی لگائی گئی تھی اس وقت ملک میں اس حوالے سے جو قانون تھا اسے چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے۔ تاہم نئے مسودے میں نجی تعلیمی اداروں کو یونین کے انتخابات کرانے پر پابند کیا جانا ضروری ہوگا۔

جب یہ پابندی لگائی گئی تھی اس وقت جامعات کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی کالج بھی چند سو سے زیادہ نہیں تھے اور وہ سب کے سب سرکاری شعبے میں تھے، اب جامعات کی تعداد سینکڑوں اور کالجوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، ان میں اکثریت نجی شعبے کی ہے لہٰذا قانون سازی کے وقت اس صورت حال کو مد نظر رکھنا ہوگا، نجی تعلیمی اداروں میں بھی طلبا یونینز کو لازمی قرار دینا ہوگا میڈیا پر طلبا یونین کی بحالی کی مخالفت کرنے والے عناصر نجی تعلیمی اداروں کے تنخوادار بھی ہوسکتے ہیں جو نہیں چاہیں گے کہ طلبا متحد ہوں اور ان کی من مانیوں خاص طور سے فیسوں کے معاملے پر سوال اٹھائیں۔ طلبا یونین کی بحالی غریب، مڈل اور اپر مڈل کلاس طلبا کی بڑی دفاعی لائن بھی ہے۔

ٹاپ اسٹوریز