ہنگامہ نہیں بغاوت

آوازہ

ارادہ اور ڈیمو کریسی رپورٹنگ انٹرنیشنل نے ملک بھر سے صحافیوں کو جمع کر رکھا تھا۔ اس میں کچھ بات جمہوریت کی ہوئی، کچھ صحافت کی اور کچھ غیر سرکاری انجمنوں کی۔ یہ سب باتیں ہوا کیں لیکن لوگوں کی توجہ کا مرکز ذوالفقار علی مہتو بنے ہوئے تھے۔ مہتو چوں کہ سیدھے لاہور سے آ رہے تھے، اس لیے احباب جاننا چاہتے تھے کہ اس شہر پر، اس شہرکے مریضوں، نیز دل کے اسپتال پر کیا بیتی؟ مہتو نے بہت کچھ بتایا لیکن پل پل کی خبر دینے والے ٹیلی ویڑن اور سوشل میڈیا کے عادی صحافی اس سے کچھ بڑھ کر سننا چاہتے تھے۔ سوال یہ تھا کہ سب باتیں درست ہیں لیکن حملے کی کہانی اس میں فٹ نہیں ہوتی، چلیے اگر حملہ ہو ہی گیا تھا تو پولیس کیوں موقع سے غائب رہی؟

اب اس طرح کا کوئی سوال ہوتا ہے تو اب ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے کہ بھئی مورال کا مسئلہ ہے، یہ بے چارے اس خوف میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی نیا ماڈل ٹاؤن نہ ہو جائے۔ ویسے وکیل حملہ کرنے آ بھی نہیں رہے تھے۔ مہتو نے بڑے وثوق سے بتایا تو فطری طور پر سوال پیدا ہوا کہ پھر یہ سب کیسے ہو گیا؟ یہی تو معمہ ہے؟ لحظہ توقف کے بعد وہ پھر بولے اور بتا یا کہ وکلا تحریک کے بعد اب ہر کوئی وکیلوں سے ڈرتا ہے اور یہ بھی خوب جان گئے ہیں کہ لوگوں کو ڈرانے کا طریقہ کیا ہے۔

بس، اسی پر چوہدری محمد اکبر چیمہ کی یاد آ گئی۔ چوہدری صاحب سرگودھا بار کے صدر ہوا کرتے تھے اور ایسے صدر کہ برادری انھیں پے درپے کئی برس تک اس عہدے پر منتخب کرتی رہی۔ ایک بار کسی کام سے کراچی سٹی کورٹس جانا ہو، بار کے صدر کچہری کے دروازے پر کھڑے کسی کی منت کرتے، کسی کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتے۔ مقصد یہ تھا کہ عدالت میں آنے والے اپنی گاڑی باہر کھڑی کر کے آئیں۔ کچھ دنوں بعد ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ بار کے سربراہ کی حیثیت سے یہ آپ کیسے کام کرتے ہیں؟ فرمایا کہ ووٹ یوں ہی تو نہیں مل جاتے۔ اکبر چیمہ ایسا کچھ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ تو کسی سے ووٹ بھی نہیں مانگتے تھے۔

ایک بار شہر میں کوئی جھگڑا ہو گیا، پولیس نے اس کے سبب بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔ شہر کے بڑے مل بیٹھے تاکہ مسئلے کا کوئی حل نکالا جا سکے۔ فیصلہ ہوا کہ ایک وفد پولیس کے پاس بھیجا جائے تاکہ صورت حال کو واضح کر کے نوجوانوں کو رہا کرایا جا سکے۔ مجلس شہریان کے صدر نے ان سے کہا کہ آئیے، چوہدری صاحب تھانے چلتے ہیں۔ چوہدری صاحب نے بات سنی اور کہا کہ جو حکمت عملی آپ نے اختیار کی ہے، وہ بالکل درست ہے لیکن میں آپ کے ساتھ تھانے نہ جا سکوں گا۔ اجتماعی مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہنے والے اکبر چیمہ کا یہ جواب لوگوں پر بجلی بن کر گرا۔ اس پر انھوں نے وضاحت کی، دیکھئے، وکلا تھانے نہیں جایا کرتے، ان کا ضابطہ اخلاق انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔

چیمہ صاحب جس زمانے میں بار کی قیادت کر رہے تھے، وہ بھٹو صاحب کا زمانہ تھا اور وکیل کیا، معاشرے کے بہت سے طبقات نے ان کی حکومت اور پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا۔ یہ عین ان ہی دنوں کی بات ہے جب چیمہ صاحب کی قیادت میں وکیلوں نے جلوس نکالا۔ مسئلہ یہ تھا کہ شہر میں دفعہ 144 نافذ تھی، پانچ یا اس سے زائد افراد جمع نہیں ہو سکتے تھے۔ سوال پیدا ہوا کہ ایسی صورت میں جلوس کیسے نکالا جائے؟ نوجوان وکیلوں کا کہنا تھا کہ ایسی کی تیسی دفعہ 144 کی، ہم جلوس نکالیں گے اور ڈنکے کی چوٹ نکالیں گے۔ چیمہ صاحب ایسے مواقع پر خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہتے اور لوگ تجاویز پیش کرتے رہتے، سب لوگ اپنی اپنی کہہ چکتے تو آخر میں وہ فیصلہ سناتے۔ اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا۔

چیمہ صاحب نے کہا کہ جلوس تو نکلے گا اور بہر صورت نکلے گا لیکن دفعہ 144 کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوگی۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اعتراض ہر اعتبار سے درست تھا۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ جلوس بھی نکل آئے اور قانون بھی نہ ٹوٹے؟ بالکل ممکن ہے، چیمہ صاحب نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا اور ہدایت کی کہ چار وکیل دو دو بینر اٹھائے ایک گروپ کی شکل میں کچہری سے نکلیں گے اور پہلے گروپ میں وہ خود ہوں۔ پھر شہر والوں نے یہ عظیم الشان جلوس اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے چار چار وکیلوں کا گروپ پورے وقار سے نکلا اور پورے شہر کا چکر لگاتا ہوا واپس ضلع کچہری میں جا کر منتشر ہو گیا۔

تو وکیل ایسے ہوتے تھے لیکن اب تو لگتا ہے کہ ان کی جون ہی بدل گئی ہے۔ لاہور میں اسپتال کے واقعے کو اسی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اب یہ کسی خاص کا خیال نہیں، گلی کوچوں میں یہی تاثر راسخ ہو گیا ہے کہ وکیل اب قانون کی معاونت نہیں کرتے بلکہ سینہ زوری اور ضرورت ہوتو زور بازو سے اپنے مؤکل کی خدمت بجا لاتے ہیں۔ اسپتال پر حملے کو اس طرز عمل کی انتہائی شکل سمجھ لیجئے۔ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن کچھ وکیلوں اور کچھ اندر کی خبر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر ہے کیونکہ بلوائیوں نے ایک وزیر کے ساتھ ہاتھا پائی کی ہے۔ لوگ کہتے ہیں، کوئی اور ہوتا تو معاملہ ضرور سنگین ہوتا، یہ تو فیاض چوہان تھے جو اپنی زبان کے ہاتھوں مجبور ہیں، اس لیے ان کے ساتھ ایسا ہوا تو کیا برا ہوا؟ یہ انداز فکر درست نہیں۔

فیاض الحسن چوہان پسندیدہ ہوں یا ناپسندیدہ، وہ ایک صوبے کے وزیر ہیں، اس لیے ریاست کے اقتدار اور رٹ کی علامت ہیں۔ ان پر ہاتھ ڈالنا دراصل ریاست کے اقتدار اعلیٰ پر ہاتھ ڈالنا ہے۔ اس اعتبار سے یہ معمولی واقعہ نہیں۔ یہ جرم وکیلوں سے سرزد ہوا ہے یا کسی اور سے، اس معاملے کو سنجیدگی سے سمجھنے اور اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اسے دور کی کوڑی نہ سمجھا جائے کیوں کہ ملک کئی زاویوں سے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے گزر رہا ہے۔ بہت سے اندرونی چیلنج ہمارے سامنے ہیں جبکہ بیرونی صورت ایم کیوایم کے بانی کی ایک تازہ ہرزہ سرائی کی صورت میں سامنے آئی ہے جس میں اس نے پاکستان کے خلاف بھارت سے مدد طلب کی ہے۔ تاریخ سے شغف رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایسے ہنگاموں سے فائدہ اٹھا کر ہی دشمن واردات کیا کرتا ہے۔ اس پس منظر میں لاہور کا واقعہ محض ایک حادثہ دکھائی نہیں دیتا۔

ٹاپ اسٹوریز