بے وطن (1)

آوازہ

ابا جی نے ایک روز اعلان کیا:

”آج سے گھر کا سودا سلف عبدالصمد بنگالی کے ہاں سے آئے گا“۔

وہ عجب زمانہ تھا۔ ہمارے بزرگ بات بات پر جذباتی ہو جاتے، مشرقی پاکستان کے ذکر پر آنسو بہاتے اور اُس دیار سے کسی کے آنے کی خبر ملتی تو اس کی راہ میں پلکیں بچھا دیتے۔

بھٹو صاحب کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا، بھارت کی قید سے رہائی کے بعد بہاریوں اور محب وطن بنگالیوں کی پاکستان آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ اس مقصد کے لیے سرگودھا میں سلانوالی روڈ پر گلشن کالونی بسائی گئی اور اُس کے باسیوں کی گزر بسر کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا جس کے سبب دیکھتے دیکھتے ہی باغ جناح کے مرکزی راستے پر کھوکھوں کا بازار وجود میں آ گیا۔ ابا جی کے فیصلے کا سبب سمجھ میں آیا تو اس بنگالی کی زیارت کی خاطرمیں بھی باغ جناح جا پہنچا جہاں ناٹے قد کا ایک سانولا سا شخص اجنبی لہجے میں باتیں کرتا، کنستر سے گھی نکال کر تولتا یا پلٹ کر پیچھے دیکھتا اور اپنے بچوں کو کوئی ہدایت جاری کرتا، یہ عبدالصمد تھے۔

ہم پاکستانیوں کا معاملہ بھی عجیب ہے، جلد جذباتی ہوجاتے ہیں اور جس قدر جلد جذباتی ہوتے ہیں، اسی تیزی کے ساتھ جذبات کا طوفان اتر بھی جاتا ہے، گلشن کالونی کا حشر بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور کمپنی باغ میں تخلیق پانے والے بازار کا بھی۔ بلدیہ سرگودھا، جس نے یہ بازار قائم کیا تھا، خود اسی نے تجاوزات قرار دے کر اسے مسمار کر ڈالا۔ بازار تو ختم ہو گیا لیکن عبدالصمد بنگالی اس کے باوجود نظر آتے رہے۔ کبھی وہ اباجی کے مطب پر تشریف لاتے اور دیر تک باتیں کرتے۔ کبھی وہ حکیم عبدالرحمن ہاشمی کے دارالرحمت کی محفلوں میں دکھائی دیتے اور کبھی کہیں آتے جاتے۔ صمد صاحب کو دیکھ کر میں اگرچہ مایوس ہوا تھا لیکن جب ان سے ملنے کے مواقع بار بارملے اور انھیں اپنے بزرگوں کی قربت میں دیکھا تو میری دلچسپی ان میں بڑھنے لگی۔

صمد صاحب پاکستان آئے تو بھرپور جوان تھے، دبلے پتلے تھے لیکن ہاتھ پاؤں کے مضبوط تھے۔ چمکتی ہوئی آنکھیں ان کی ذہانت کا رازکھولتیں۔ ان کے کالے سیاہ بال میں نے اپنی آنکھوں سے کھچڑی بنتے دیکھے، کوئی یہی زمانہ تھا جب خشخشی داڑھی بھی ان کے چہرے پر نظر آنے لگی۔ اس کے بعد وہ کہیں غائب ہو گئے اور مجھے یہ فکر لاحق ہوئی کہ یہ شخص آخر کہاں گیا؟ یہ پہلی بار تھی جب میں نے فکر مندی سے ان کے بارے میں سوچا۔ اسی زمانے میں کچھ ایسی باتیں میرے علم میں آئیں جو حیران کن تھیں۔

صمد صاحب مشرقی پاکستان کے ضلع رنگ پور کے ایک گاؤں چیلا ہاٹی کے درمیانے درجے کے زمین دار اور تاجر تھے۔ زمین زرخیر تھی، اس لیے حویلی میں دھان اور پٹ سن کے ڈھیر لگے رہتے۔ محنت کی عادت تھی، اس لیے باقی وقت آڑھت میں گزرتا یا پھر تیستا نودی(ندی) سے بہہ کر آنے والے پتھروں کے کاروبار میں۔ گزر بسر اچھی ہورہی تھی کہ یکا یک حالات بدلے اور پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنانے کی باتیں ہونے لگیں۔ اسی دوران میں ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک ایسا واقعہ ہوگیا جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے اس خوش حال خاندان کے حالات بدل گئے۔

چیلا ہاٹی مشرقی پاکستان کا آخری قصبہ تھا۔ یہ قصبہ بھارت سے اتنا قریب ہے کہ گھر میں جلنے والے چولہے کادھواں بھی سرحد کے پار دکھائی دیتا ہے۔ اس نازک زمانے میں مکتی باہنی کے غنڈوں نے سرحدی قربت کا ناجائز فائدہ اٹھایا، ایک شام وہ سرحد عبور کر کے چیلا ہاٹی میں داخل ہوئے اور گلی کوچوں میں چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کر روزی کمانے والے حافظ بہاری کو بکرے کی طرح ذبح کر دیا۔ صمد صاحب نے یہ خبر صدمے کے ساتھ سنی اور اعلان کیا:

”چیلا ہاٹی تے آر اے ای رقم ہو بے نا“(چیلا ہاٹی میں آئندہ ایسا نہ ہو سکے گا)۔

پھر یہ اعلان حقیقت میں بدل گیا حالاں کہ مشرقی پاکستان میں ان دنوں مکتی با ہنی کے بے لگام غنڈوں نے اودھم مچا رکھا تھا لیکن چیلا ہاٹی کی بات دوسری تھی۔ اس گاؤں میں عبدالصمد شورکار (سرکار) کو چیلنج کرنا آسان نہ تھا، علاقے میں ان کا رسوخ تھا، خدمت خلق کے کاموں کی وجہ سے مخالفین بھی ان کا احترام کرتے تھے، اسی لیے یہ علاقہ مکتی باہنی کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہا۔ مشرقی پاکستان کے شمال میں یہ واحد علاقہ تھا جہاں بازار معمول کے مطابق کھلتے، گلی کوچوں میں چہل پہل ہوتی، بچے اسکول جاتے، شادی بیاہ کی تقریبات میں میلاد ہوتے اور لڑکیاں بالیاں ”بھویّا“ گاکر خوشی کا اظہار کرتیں۔ لوگ خوش تھے اور صمد صاحب ان سے بھی زیادہ کہ وہ اپنی دانست میں دشمن کو شکست دینے میں کامیاب ہو چکے تھے لیکن اُس روز ان کے صدمے کی انتہا نہ رہی جب میجر غلام رسول ساہی نے انھیں ہدایت کی کہ وہ علاقہ چھوڑ دیں۔ اصل میں فوج کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ سید پور کا رخ کرے اور چیلا ہاٹی خالی کرد ے کیونکہ صوبے کے دیگر حصوں میں مکتی باہنی کی سرگرمیوں میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔

ایک اطلاع یہ بھی تھی کہ جنوب کے بعض علاقوں میں بھارتی فوج داخل ہو چکی ہے۔ رفتہ رفتہ چیلا ہاٹی کے قرب و جوار کے حالات بھی بگڑنے لگے یہاں تک کہ مکتی با ہنی نے صمد شورکار کے سر کی قیمت مقرر کردی۔ اعلان کیا گیا کہ جو شخص انھیں قتل کرے گا، اسے مقامی سنیما گھرانعام میں دیا جائے گاحالانکہ جنوب کا یہ واحد علاقہ تھا جہاں حافظ بہاری کے قتل کے بعد خون ریزی کا کوئی ایک واقعہ بھی رونما نہیں ہوا تھا،حتیٰ کہ ہندو تک محفوظ رہے تھے جس کا کھلے عام اعتراف کیا جاتا، یہی بات مکتی با ہنی کے لیے ناقابلِ قبول تھی۔

”میں اپنا گھر بار چھوڑ کر کہاں جاؤں؟“۔

صمد صاحب نے میجر ساہی سے کہا۔ چیلا ہاٹی ان کے باپ دادا کا شہر تھا، یہی شہر تھا جس میں ان کے والد محی الدین شورکار نے تحریک پاکستان کی قیادت کی تھی اوران کے بزرگ کَچھ بہار کے راجہ کے منیم کی حیثیت سے اس علاقے میں صاحب اختیار رہے تھے۔ اِن کے لیے چیلا ہاٹی کو چھوڑنا آسان نہ تھا لیکن جب میجر غلام رسول ساہی نے انھیں اونچ نیچ سمجھائی تو وہ خاموش ہو گئے، اندر گئے، بیوی سے کہا کہ اٹھ نیک بخت کوچ کا وقت آن پہنچا اور وہ نیک بخت تین کپڑوں میں ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ گھر سے نکل کر صمد صاحب دو قدم آگے بڑھے، رکے، پھر پلٹ کر دیکھا، صدر دروازے کے پاس وہ بانس ابھی تک نصب تھا جس پر دوماہ قبل انھوں نے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اپنے ہاتھوں سے لہرایا تھا،وہ بانس سے یوں لپٹ گئے جیسے کوئی اپنے پیارے سے گلے ملتا ہے، بوسا دیا اور الٹے پیروں چلتے ہوئے واپس لوٹے۔اِس دم اُن کی آنکھیں بھر آئیں اور ہچکیوں کے سبب بات کرنی مشکل ہوگئی۔ جلد ہی یہ قافلہ گھر بار کھلا چھوڑ کر کسی نا معلوم منزل کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔

(جاری ہے)

ٹاپ اسٹوریز