بے وطن (2)

آوازہ

یہ سفر بڑا کٹھن تھا۔ کبھی فضائی حملے کا سامنا کرنا پڑا اور کبھی مکتی با ہنی کا۔ صمد صاحب کے پاس ایک سب مشین گن تھی جو انھوں نے اپنی بیل گاڑی پر نصب کر لی۔ قافلہ سید پور روڈ پر نیلفا ماری کے قریب پہنچا تو مخالف سمت سے آنے والی ایک جیپ نے اس پر گولیوں کی باڑھ ماردی جس پر ان لوگوں کو اپنی بیل گاڑی میں دبک جانا پڑا۔ اوسان بحال ہوئے تو پتہ چلا کہ صمد صاحب کی اہلیہ کی ساڑھی میں کئی سوراخ ہو چکے ہیں، گولیاں بچوں کے سروں کے اوپر سے سنسناتی ہوئی گزری تھیں لیکن اللہ کے فضل سے کسی کا بال تک بیکا نہیں ہوا تھا۔ صمد صاحب سجدہ شکر بجا لائے اور ان کی اہلیہ کو چند روز قبل گھر آنے والے اس مجذوب کی یاد آ گئی جو پراسرار طور پر رات کے پچھلے پہر اُن کے گھر آیا، دال بھات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ رنّا گھور(باورچی خانہ) میں لٹکی شکیا (چھینکا) میں پڑے دودھ اور مسسِپ (نعمت خانہ، وہ چھوٹی الماری جس میں اس زمانے میں کھانے پینے کی چیزیں رکھی جاتی تھیں) میں رکھی بھات (چاوّل) میں سے اسے حصہ دیا جائے۔ یہ ایک حیران کن بات تھی کیوں کہ عبدالسلام نے یہ بات جب اپنی ماں سے آکر کہی تو انھوں نے اس کی تصدیق کی کہ گھر میں یہ چیزیں ایسے ہی رکھی ہیں جیسے بتایا گیا ہے۔ مجذوب نے کھانا کھا کر اہلِ خانہ کو دعا دی، صاحب خانہ کو طلب کر کے حالات کی خرابی کی خبر دی پھر انھیں سات تعویز دیے اور ہدایت کی کہ گھر کے ہر فرد کے گلے میں ایک ایک تعویزڈال دیا جائے۔ صمد صاحب نے بیوی کی بات سنی تو ایک بار پھر سجدے میں گر گئے۔

چیلا ہاٹی سے سید پور کا 60 کلومیٹر سفر سات روز میں طے ہوا۔ قافلہ منزل سے ابھی دور ہی تھا کہ آسمان پر بھارتی ہیلی کاپٹر نظر آئے، مشہور تھا کہ فضائی جائزے کے بعد فوج ضرور حملہ کرتی ہے، صمد صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بیل گاڑی سے کود کر دھان کے کھیت میں گھس گئے اور بچوں سے کہا کہ وہ پودوں سے انھیں ڈھک دیں، بچوں نے اپنا کام کیا اور صمد صاحب نے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ شروع کردی۔ اس کسمپرسی میں بھی دفاعِ وطن کے لئے اُن کا جذبہ عروج پر تھا۔

قافلے کے سید پور پہنچنے سے پہلے ہی 16 دسمبر کا بے مہر دن گزر چکا تھا۔ یہ لوگ سید پور چھا ؤنی پہنچے تو فوج کے افسروں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ اس خاندان کو بھی جنگی قیدی بنا لیا گیا۔

سید پور چھاؤنی میں قیامت کا منظر تھا۔ پاک فوج کے جوانوں کے لیے ہتھیار ڈالنے کی خبر ناقابلِ یقین اور ناقابلِ عمل تھی۔ فوجیوں کو پریڈ گراؤنڈ میں جا کر ہتھیار ڈالنے کا حکم ملا تو کئی غیرت مند جوانوں نے دیکھتے ہی دیکھتے بندوق کی نالی کنپٹی پر رکھ کر جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔

دل و دماغ میں ہل چل مچا دینے والے یہ مناظر صمد صاحب اور اُن کے بچوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔

دو برس بھارت کی قید میں گزارنے کے بعد یہ خاندان پاکستان پہنچا جہاں حکومت نے دیگر خاندانوں کی طرح اسے بھی سرگودھا میں گیارہ ہزار روپے کے آسان قرضے کے عوض تین مرلے کا چھوٹا سا مکان فراہم کیا۔ صمد صاحب اور ان کے کنبے نے آٹھ برس یہیں گزارے۔ زمین داروں کے اس ممتاز خاندان کا ان حالات میں گزارا مشکل تھا، صمد صاحب کو چیلا ہاٹی، اس شہر میں اپنی وسیع و عریض حویلی اور دھان کے کھیتوں کی یاد ستانے لگی اور انھوں نے مشرقی پاکستان واپسی کا فیصلہ کر لیا جو اب بنگلہ دیش کہلاتا تھا۔ گیارہ ہزار روپے میں ملنے والا گھر انھوں نے 18 ہزار روپے میں بیچا اور واپسی کی راہ لی۔

آٹھ برسوں کے دوران دنیا بدل چکی تھی۔ ان کی حویلی میں کالج قائم ہو چکا تھا، حویلی کا صدر دروازہ اگر چہ وہی تھا، اس کے ساتھ نصب بانس بھی اپنی جگہ موجود تھا لیکن اس پر اب ان کا محبوب جھنڈا نہیں لہراتا تھا، صمد صاحب نے نظر اٹھا کر ایک بار دیکھنے کی کوشش کی پھر سر جھکا کر اپنے والد کے گھرمیں داخل ہوگئے۔ اپنے مرحوم باپ کے بستر پر وہ کئی روزتک منہ لپیٹے پڑے رہے، ایک روز ہمت کر کے گھر سے نکلے تو شریر بچوں کی ٹولی نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے نعرہ لگایا:

”خانیردالال“ (یعنی فوج کا ساتھی)۔

کچھ دن یہ تماشا رہا پھر لوگ اس کے عادی ہو گئے۔ اس کے بعد صمد صاحب جب گھر کے کام کاج سے فارغ ہو جاتے تو قصبے کے کسی چائے خانے میں جا بیٹھتے اور اُس زمانے کی باتیں کیا کرتے جب چیلا ہاٹی پاکستان کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ لڑکوں بالوں کو نیا مشغلہ مل گیا،اب وہ ان کے اردگرد بیٹھ جاتے اور مطالبہ کرتے:

”چاچا! آمار چاء کھاواؤ“(یعنی چاچا! ہمیں چائے پلاؤ)

صمد صاحب بچوں کے شرارت بھرے چہروں پر ایک نظر ڈال کر مسکراتے اور چائے کا آرڈرکردیتے جس پر بچے ایک اور مطالبہ کرتے:

”چاچا!آرپاکستانیرگولپوشناؤ“(چاچا!ہمیں پاکستان کے بارے میں بتاؤ)

اس مطالبے پر وہ خوش ہوجاتے اور اپنے محبوب کے تذکرے میں ڈوب جاتے۔ چیلا ہاٹی کے چائے خانوں میں بر س ہا برس تک پاکستان کا تذکرہ زندہ رکھنے والی یہ آواز 11 مئی 2013 کو ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔

عبدالصمد صاحب نے عجب قسمت پائی تھی، پاکستان کی خاطر وطن چھوڑا لیکن پاکستان میں جڑ نہ پکڑ سکے، واپسی کا کشٹ انھوں نے ضروراٹھایا لیکن اپنے ”گھر“میں پہنچ کر بھی بے وطن ہی رہے۔

ٹاپ اسٹوریز