دور اندیش

آوازہ

باراک اوباما صدر منتخب ہوئے تو ریاض اینڈی نے انکشاف کیا کہ قائد اعظمؒ نے تو یہ پیشین گوئی 1948 میں کر دی تھی۔
”وہ کیسے؟“۔
احباب کوحیرت نے آ لیا، ریاض لحظہ بھر پُرسکون رہا پھر یادوں کو ٹٹولتے ہوئے کہا:
”قائد اعظمؒ نے فرمایا!
”ینگ مین! سیاہ فام امریکی پہلے کھیلوں میں نام پیدا کریں گے پھر وہ سیاست پر چھا جائیں گے“۔
”قائدِ اعظم ؒ کا یہ بیان کیا تم نے خود سنا؟“ طنزیہ لہجے میں کہا گیا۔
اس نے جواب دیا:
”نہیں میں نے یہ بیان کرنل اجمل سے سنا“
ریاض نے جواب دیا۔
”اور یہ کرنل صاحب کون تھے؟“۔
یہ سوال سُن کر ریاض کے چہرے پر اطمینان کی لہرآئی اور اس نے کہا:
”قائدِ اعظمؒ کے اردلی تھے“۔

ریاض کی وضاحت پرحاضرین اب ایک دلچسپ کہانی کے انتظار میں دم سادھ کر بیٹھ گئے۔ ریاض لحظہ خاموش رہا پھر کہا:
”اس کہانی کا آغاز ایک تربوز سے ہوتا ہے جس کے کردار اور راوی خود کرنل اجمل ہیں“۔

یہ کہہ کر ریاض نے گویا کرنل اجمل کی زبانی کہانی کا آغاز کر دیا:
”دوپہر ہوئی، سب لوگ آرام کے لیے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تو قائداعظمؒ نے مجھے طلب کیا، چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ تھی جس کے نور نے علالت کے آثار کچھ دیر کے لیے مِٹا دیے“۔

میرے سوکھے دل کی کلی کھِل اٹھی جو قائد کا علیل چہرہ دیکھ دیکھ کر مرجھا چکی تھی۔ سفید بیڈ شیٹ، سفید تکیہ اور سفید کرتے پاجامے میں ملبوس قائد اعظمؒ! یہ منظر ایسا تھا جو میری آنکھوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہوگیا۔ میں ابھی مبہوت کھڑا تھا کہ قائد کے چہرے کی مسکراہٹ میں کچھ اور اضافہ ہوا، انہوں نے فرمایا ”ینگ مین! میرا ایک کام کروگے؟“۔
”یس سر!“۔ میں نے مستعد سپاہی کی طرح کہا۔

میرا جواب سن کرقائد کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ کچھ اور دل نشیں ہو گئی، مطمئن ہوئے، پھر قریب آنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”سنو“۔
میں تقریباً ان کے سینے پر جُھک گیا، قائد نے فرمایا: ”مجھے ایک تربوز لا دوگے؟“۔

یہ فرمائش سُن کرمیں حیران رہ گیا“۔

کرنل نے گہری سانس لی، پھر کہا:
”قائد اعظمؒ سخت علیل تھے اور بوجہ علاج و آرام زیارت میں مقیم تھے۔ پرہیز اور دواؤں نے ان کے منہ کا ذائقہ بگاڑ رکھا تھا، تربوز کی طلب بھی اسی سبب سے تھی لیکن ڈاکٹر سے اس کی اجازت نہ مل سکتی تھی۔ کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش ہر چیز کی نگرانی کرتے اور مادر ملت دوا اور غذا پر کڑی نظر رکھتیں۔ ان دونوں سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا، اس لیے قائد اعظمؒ نے اس کام کے لیے مجھے چُنا۔ اُس روز دوپہر تک انھوں نے انتظار کیا، مادر ملت اور کرنل صاحب کھانے کے بعد آرام کے لیے چلے گئے تو قائدِ اعظمؒ نے مجھے طلب کر کے اپنے دل کی بات کہہ دی۔ میں مشکل میں پڑ گیا لیکن ذرا سی دیر میں، جیسی فوجیوں کی تربیت ہوتی ہے، میں نے فیصلہ کر لیاکہ میں قائد اعظم ؒکی یہ خواہش ضرور پوری کروں گا۔
میں نے یہ سوچا اور سائیکل لے کر تربوز کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ ریزیڈنسی سے بازار ذرا فاصلے پر تھا، اس لیے واپسی میں تھوڑی دیر تو لگی لیکن کام ہو گیا۔ قائد اعظمؒ کوجب اس کی خبر میں نے کی تو اُن کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ دھوپ ڈھلنے لگی تھی، اس لیے خدشہ تھا کہ اب کسی وقت بھی کوئی آ سکتا ہے اس لیے باقی کام رات پر چھوڑ دیا گیا۔ رات ہوئی اورلوگ سونے کے لیے جا چکے تو قائد اعظمؒ اور میرے درمیان اشاروں کنایوں میں بات چیت شروع ہو گئی۔

میری کیفیت عجیب تھی، ایک طرف قائد اعظمؒ کے ساتھ رازداری کی خوشی اور دوسری جانب مادرِ ملت اور کرنل الٰہی بخش کے ہاتھوں پکڑے جانے کا خوف، میں تنے ہوئے رسے پر چل رہا تھا لیکن اس کے باوجود جب مجھے اس اعتماد کا خیال آتا جو قائد اعظمؒ نے مجھ پر کیا تھا توسینہ فخر سے پھول جاتا۔ اس وقت مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے دو بچے ساری دنیا سے چھپ کر کسی شرارت میں مصروف ہوں۔ قائد اعظمؒ نے مجھے چھریاں کانٹے اور پلیٹ لانے کا حکم دیا اور اپنے سامنے تربوز کٹوایا۔ تربوز کٹ گیا تو ممکنہ مضر اثرات سے بچنے کے لیے اِس کی قاشوں پر کالی مرچیں چھڑ کوائیں۔ یہ ہو گیا تو وہ اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ دو قاشیں پوری رغبت سے کھائیں پھر برتن ہٹا دینے کا حکم دیا اور اطمینان سے لیٹ گئے“۔

کرنل اجمل نے بات مکمل کی تو محفل پر سناٹا چھا گیا، دیر تک خاموشی رہی، کچھ قائد اعظم ؒ کی تکلیف کے بارے میں جان کر اور کچھ اس حیران کن واقعہ کے سبب۔

ریاض کی زبانی یہ واقعہ سنا تو مجھے ایک بچے کی یاد آئی، قائدؒ کی ایک ادا نے جسے ہمیشہ کے لیے اپنا بنا لیا تھا۔

یہ واقعہ علی گڑھ کا ہے، کسی خواب کی طرح خوبصورت اورہمیشہ یاد رہنے والا۔ یہ باتیں اُن دنوں کی ہیں جب قائد اعظم محمد علی جناحؒ ہندو قیادت کی ضد اور ہٹ دھرمی سے مایوس ہونے کے بعد کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ کی قیادت سنبھال چکے تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کے اس غیرمعمولی اور شان دار دور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم اجلاس اگرچہ ہندوستان کے بہت سے شہروں میں ہوتے رہے لیکن علی گڑھ اور نواب فیض علی خان کی کوٹھی کی بات ہی دوسری تھی۔ قائد اعظم ؒ اس گھر کو اپنا گھر سمجھتے اور اس کے باسیوں سے بے تکلفی اورمحبت کے ساتھ پیش آتے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں کے درمیان میں وقفے ہوتے تو کچھ بزرگ کمر سیدھی کرنے کے لیے کمروں میں چلے جاتے، جنھیں چائے کی طلب ہوتی، وہ یہاں وہاں بیٹھ کر ہلکی پھلکی باتوں میں مصروف ہوجاتے لیکن قائد اعظمؒ کی عادت مختلف تھی،وہ اِدھراُدھروقت ضائع کرنے کی بہ جائے سیدھے لان میں چلے آتے اور نوجوانوں کی محفل میں آ کران میں گھل مل جاتے۔ ہم لوگ یہاں کرکٹ کھیلا کرتے تھے، ایک دن تو وہ ہمارے کھیل میں شریک بھی ہو گئے۔

مرزا صاحب نے بتایا: ”کھیل کے میدان میں وہ چند منٹ کی رفاقت میری زندگی کا حاصل ہے“۔

کھیل کے میدان کی طرح اس گھر کی ڈیوڑھی کا ایک واقعہ بھی مرزا صاحب کی مہکتی ہوئی یادوں کا حصہ ہے۔ قائد اعظمؒ ایک بار کہیں جانے کے لیے گھر سے نکل کر گاڑی کی طرف بڑھے تو ایک نو عمر اچانک اُن کے سامنے آگیا اور ایک لفافہ اُن کی خدمت میں پیش کیا۔ قائد اعظمؒ کے چہرے پر خوش گوار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور انھوں نے اپنی بارعب آواز میں پوچھا: ”What is this?“

مرزا جواد بیگ کہتے ہیں کہ قائد اعظمؒ کی با رعب آواز سن کر ایک بار تو میرا حوصلہ جواب دے گیا لیکن ماموں کو پاس کھڑے دیکھ کر ہمت پکڑی اور کہا: ”مسلم لیگ کے فنڈ کے لیے“۔

قائدِ اعظم مسکرا دیے، لفافہ لے کر شیروانی کی اوپری جیب میں رکھا اورکچھ دیر کے بعد روانہ ہو گئے۔ مرزا صاحب کا خیال تھا کہ اتنی محنت سے جمع کیے ہوئے روپے تو گئے۔ خدشہ تھا کہ برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی لڑائی میں مصروف یہ عظیم شخص اپنی بے پناہ مصروفیات کے سبب یقینا بھول جائے گا کہ جب وہ نواب فیض علی خان کے گھر سے روانہ ہو رہا تھا تو ایک بچے نے کچھ رقم اس کے حوالے کی تھی۔ پریشانی بالکل جائز تھی لیکن چند ہی دنوں کے بعد مرزا صاحب کے خیالات بدل گئے۔

مرزا صاحب بتاتے ہیں کہ ایک روز میں لان میں بیٹھا تھا کہ خدمت گار نے اطلاع دی، آپ کی چٹھی آئی ہے جس پر میں بھاگتا ہوا ڈاکئے کے پاس پہنچا، لفافہ اُس کے ہاتھ سے تقریباًجھپٹ لیا اور بے صبری کے ساتھ کھولا۔ میرے ہاتھ میں پچاس روپے کی رسید تھی جس پر سیکرٹری جنرل آل انڈیا مسلم لیگ نواب زادہ لیاقت علی خان کے دستخط تھے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ قائد اعظم ؒ نے ایک معمولی سی بات کو بھی یاد رکھا اور چندے میں دی جانے والی رقم کی رسید ارسال کرانی ضروری سمجھی۔ مرزا جواد بیگ دہائیوں پہلے کے اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے آب دیدہ ہوگئے اور انھوں نے گلوگیر آواز میں کہا: ”ایسے تھے ہمارے قائدِ اعظمؒ!“۔

نظم و ضبط قائدِ اعظمؒ کا طرزِ زندگی تھا، وہ ایک ایک پیسے کا حساب رکھتے اور اپنے نام آنے والے ہر خط کا اہتمام سے جواب دیتے لیکن اس واقعے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آنے والی نسلوں کی تربیت کا معاملہ بھی اُن کے پیش نظر تھا۔

فروری 1948 کا ایک اور واقعہ قائد اعظمؒ کے اسی انداز فکر کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح آل پاکستان مسلم یوتھ لیگ کی عبوری سربراہ اور مرزا جواد بیگ اس کے سیکرٹری جنرل تھے۔ قائداعظمؒ کی ہدایت پر کراچی میں صدر کے علاقے جہاں اِن دنوں کوآپریٹو مارکیٹ ہے، دفتر قائم کر کے سرگرمیاں شروع کر دی گئیں۔ ایک روزاپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرنے کے لیے یہ لوگ قا ئد اعظمؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اُنہیں ڈانٹ پڑ گئی۔ وجہ یہ تھی کہ اجلاس میں شریک لوگوں کے ہاتھوں میں گورنر جنرل ہاؤس کی اسٹیشنری تھی جسے دیکھ کر قائد اعظمؒ خفا ہوگئے اور اجلاس اُس وقت تک کے لیے ملتوی کر دیا، جب تک یہ لوگ اپنی اسٹیشنری کا انتظام خود نہیں کر لیتے۔اس واقعے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں وہ اپنی عزیز از جاں بہن کو سرزنش کرنے سے بھی نہیں چوکے۔

آل پاکستان مسلم یوتھ لیگ کی اہمیت قائد اعظمؒ کی نظر میں اتنی زیادہ تھی کہ وہ اس کے اجلاسوں میں بذاتِ خود شریک ہوتے اور اُس کی کارکردگی کا جائزہ لیتے لیکن یہ احتیاط ہمیشہ پیشِ نظر رکھی کہ اِن سرگرمیوں سے سرکاری فرائض کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ چنانچہ مسلم لیگ ہو یا مسلم یوتھ لیگ وہ ہمیشہ اس طرح کے تمام اجلاس دفتر کا وقت شروع ہونے سے پہلے کر لیا کرتے۔

قائد اعظمؒ سرکاری وسائل کے استعمال میں محتاط ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کے استعمال میں بھی بڑے جزرس تھے۔ مرزا جواد بیگ بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں اُنہوں نے قائد اعظم ؒ جیسی نفاست پسند شخصیت کو دھول اور مٹی میں بھی کام کرتے ہوئے دیکھا۔

”یہ کہانی بڑی دلچسپ ہے!“ مرزا صاحب نے ایک روز اپنی یادوں میں ڈوب کرلطف لیتے ہوئے بتایا۔”قائد اعظمؒ کے دفتر میں ایک عام سی کال بیل تھی جس کے دبانے سے اُس کے اندر لگا دھات کا ٹکڑا آہنی خول سے ٹکرا کر آواز پیدا کرتا لیکن یہ آواز باہر بیٹھے ہوئے چپراسی تک نہ پہنچ پاتی۔ اِس لیے اُسے کام بتانے کے لیے انہیں اُٹھ کر ہر بار دروازے پر اُس کی نشست تک آنا پڑتا۔ قائداعظمؒ کو اس تکلیف سے بچانے کے لیے فیصلہ ہوا کہ دفتر میں برقی گھنٹی لگا دی جائے۔ اُس زمانے میں یہ کام ذرا مشکل تھا۔ بجلی کا تار بچھانے کے لیے دفتر کے اندر اور باہر کھدائی کی ضرورت تھی۔ طے پایا کہ یہ کام شام کو قائداعظمؒ کے دفتر سے اُٹھنے کے بعد اور صبح دفتر پہنچنے سے پہلے کر لیا جائے لیکن اِس دوران میں کام مکمل نہ ہوسکا اور اگلی صبح عین وقت پر قائد اعظمؒ دفتر میں داخل ہوئے تو کام جاری تھا۔

یہ دیکھ کر سید جعفر علی نے کارکنوں کو کام روکنے کا حکم دے دیا۔ یہ لوگ ا پنا سامان سنبھال کر جانے لگے تو قائد اعظمؒ کی نظر ان پر پڑگئی جس پر انھوں نے جعفر صاحب سے پوچھا کہ اِن لوگوں نے کام کیوں بند کر دیا ہے، انھوں نے وجہ بتائی تو قائد اعظم نے حکم دیا کہ کام جاری رکھا جائے، لہٰذامزدوروں نے دوبارہ کام شروع کر دیا۔ اب صورت یہ تھی کہ قائد اعظمؒ اپنی نشست پربیٹھے کام میں مصروف ہیں، دوسری طرف مزدوروں کی کھٹ پٹ جاری ہے جس سے شور بھی اٹھ رہا ہے اور دھول مٹی بھی اڑ رہی ہے۔

قائد اعظمؒ بڑی نفاست کے ساتھ پرُسکون طریقے سے کام کرنے کے عادی تھے۔ شور شرابا اور گرد آلود ماحول اُن کے مزاج سے مطابقت رکھتا تھا اور نہ ان کی صحت اس کی اجازت دیتی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے اِس صورتِ حال کو برداشت کیا تو اس کا سبب یہی تھا کہ سرکاری وسائل اور وقت کا ضیاع انہیں پسند نہ تھا اور وہ ابتدامیں ہی اس کی مثال قائم کردینا چاہتے تھے۔

گورنر جنرل کی حیثیت سے وہ کارِسرکار میں ضابطے کی خلاف ورزی کسی صورت میں برداشت نہ کرتے۔ ایسی ہی ایک کوشش میں سیکریٹری خزانہ ممتاز حسین صاحب اُن سے ڈانٹ کھا بیٹھے تھے۔

ممتاز صاحب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ فائل قائد اعظمؒ کے سامنے رکھتے، ذرا پیچھے ہٹ کر احترام سے کھڑے ہو جاتے، قائد اعظمؒ فائل دیکھتے جاتے اور دستخط کرتے جاتے۔ درمیان میں کوئی بات پوچھنے کی ہوتی تو سوال بھی کرلیتے۔ اُس روز بھی سب کچھ معمول کے مطابق ہوا لیکن ایک فائل پر قائد اعظم رُک گئے اور اُن کی طرف سوالیہ نظر سے دیکھا، خفگی واضح تھی لیکن ممتاز حسین نے اس کے باوجود ہمت کر کے وضاحت کی کوشش کی جس پرقائد اعظمؒ نے سختی کے ساتھ کہا:

” It should go to the Prime Minister! ”

ممتاز حسین نے خاموشی سے فائل اُٹھا لی۔ واقعہ یہ تھا کہ سیکرٹری خزانہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتے تھے جس سے وزیراعظم لیاقت علی خان متفق نہ تھے چنانچہ انہوں نے براہ راست قائد اعظمؒ سے منظوری لینے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔ اس طرح قائد اعظمؒ نے سرکاری حکام ہی نہیں بلکہ پوری قوم پر واضح کر دیا کہ اس ملک میں کوئی کام خلاف ضابطہ نہیں ہو سکتا۔

مرزا جواد بیگ علی گڑھ میں اپنے گھر سے لے کر دہلی میں قائد اعظمؒ کے گھر تک کے معمولات کے شاہد اور گواہ رہے ہیں۔ میں نے ایک بار اُن سے قائدِاعظمؒ کے مذہبی عقائد کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے دوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ وہ اوّل و آخر مسلمان تھے لیکن اس مختصر جواب سے میری تسلی نہ ہوسکی۔ مزید سوالات پر اُنہوں نے واضح کیا کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے مشورے سے اُ نھوں نے قرآنِ حکیم کا مطالعہ قیام پاکستان سے بہت پہلے شروع کردیا تھا۔ اس مقصد کے لیے ایک عالم دین روزانہ دہلی میں 10۔ اورنگ زیب روڈ یعنی ان کے گھر میں اُنھیں قرآن حکیم کی تعلیم دیا کرتے تھے۔

قائدِاعظمؒ نے اپنے عہد کی جدید ترین تعلیم حاصل کررکھی تھی، مال دولت سے بھی اللہ نے انھیں خوب نوازاتھا۔ ایسے انعامات عام لوگوں کا توازن بگاڑ دیتے ہیں لیکن قائد اعظم ؒ کا معاملہ مختلف تھا۔ ان عوامل نے مل کر اُن کی زندگی میں قدیم و جدید کا حسین امتزاج پیدا کر دیا تھا۔ پاکستان کیسا ہونا چاہیے؟ اس کی عملی شکل دیکھنی ہو تو قائد اعظم ؒکی تصویر دیکھ لیجیے۔ قراقلی ٹوپی، شیروانی اور شلوار قمیص میں ملبوس فراٹے سے انگریزی بولتا ہوا ایک طویل قامت شخص جس کے سامنے بڑے بڑوں کی ٹوپیاں گر جاتی ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز