نیا عمرانی معاہدہ

خبر ہونے تک

نیا عمرانی معاہدہ

الیکٹرانک میڈیا نے پاکستان کی ہر خاتون و مرد، ہر نو جوان، بزرگ کو ایسا تجزیہ کار بنا دیا ہے کہ ایک بار وہ کوئی موقف اختیار کرلیں تو اس سے ہٹتے نہیں ہیں، ان کی لغت میں کوئی رائٹ، کوئی لیفٹ یہاں تک کہ کوئی یو ٹرن نہیں۔ ان لوگوں کے درمیان یوں تو برسوں سے ہر موضوع پر گفتگو بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے لیکن آج کل جو موضوع زیر بحث ہے وہ خاصا اہم اور حساس ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مفاہمت اور مصالحت کی پالیسی پر عمل شروع ہو گیا ہے، نظریہ ضرورت کو توہماری عدلیہ نے دفن کردیا ہے، پرویز مشرف کو سنائی جانے والی سزا اور آرمی چیف کی توسیع کے حوالے سے عدلیہ کے فیصلے ثبوت کے طور پر پیش کیے جارہے ہیں لیکن این آر او یعنی مفاہمت اور مصالحت کی سیاست اس کی جگہ جڑ پکڑتی نظر آرہی ہے۔

این آر او کی سیاست پرویز مشرف نے شروع کی، آصف زرداری نے جاری رکھی، میاں نواز شریف نے پس پشت ڈالا اور عمران خان نے واشگاف انداز اور لہجہ میں کہا اور متواتر کہا کہ وہ این آر او نہیں دیں گے۔ اپوزیشن این آراو چاہتی ہے اسی لیے وہ ملک میں سیاسی ماحول خراب کررہی ہے لیکن کچھ ہفتوں سے تسلسل کے ساتھ رو نما ہونے والے واقعات بتا رہے ہیں کہ این آر او پر خاموشی سے عمل شروع ہو چکا ہے۔ بحث یہ بھی ہو رہی ہے کہ ”پاکستان میں کونسا نظام ہے“؟ پاکستان میں کوئی نظام نہیں، نہ کوئی جمہوریت ہے، نہ ماشل لا ہے، نہ ہی اسلامی نظام یا کمیونزم کا نظریہ رائج ہے۔ من مانیاں ہیں، پیسہ کا زور ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا نظام ہے۔

عوام کے درمیان جاری بحث میں مذکورہ نکا ت پر زور رہتا ہے یہ گفتگو گھروں کی بیٹھکوں سے چائے خانوں، شادی بیاہ کی تقاریب سے جنازوں اور بازاروں سے دفاتر تک ہر جگہ سنی جا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا ان کی اس بحث کے لیے ابلاغ کا بڑا کردار ادا کررہا ہے جو چند لوگوں کی گفتگو کو عالمی سطح پر لے جارہا ہے۔ ریٹائرڈ آرمی چیف پرویز مشرف کوخصوصی عدالت سے سنائی جانے والی موت کی سزا اگر نظریہ ضرورت کا خاتمہ ہے تو سابق صدر آصف زرداری کی ضمانت پر رہائی، سزا یافتہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی علاج کی غرض سے بیرون ملک روانگی کی اجازت سمیت د یگر سیاسی رہنماؤں کی ضمانتوں پر رہائی کے تازہ ترین معاملات این آر او کے سوا اور کیا ہوسکتے ہیں؟

کہا جارہا ہے کہ جس پرویز مشرف کے دور میں ترقی ہوئی، مہنگائی کنٹرول میں رہی، پیٹرولیم مصنوعات اور ڈالرزکے لین دین میں استحکام رہا، وہ غدار قرار پایا اور جن (آصف زرداری، نواز شریف) کے ادوار میں لوٹ کھسوٹ کو پر لگ گئے تھے، قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں، من مانی کو عروج ملا، زمینوں پر قبضے ہوئے اور ترقیاتی فنڈز خورد برد ہوئے ان لوگوں کو آزاد چھوڑدیا گیا ہے۔ اس قسم کے بحث و مباحثہ کو صحافتی زبان میں چنڈو خانہ کی خبر کہا جاتا تھا، پرنٹ میڈیا کے دور میں جب کبھی اس قسم کی کوئی خبر سامنے آتی تو سینئر صحافی فورا کہتے تھے کہ آ گئی چنڈو خانہ کی خبر۔

آج چنڈو خانہ کا کردار سوشل میڈیا احسن طریقے سے ادا کررہا ہے سوشل میڈیا کو یہ راہ دکھانے والا ہمار الیکٹرانک میڈیا ہی ہے، اب تو سوشل میڈیا نے الیکٹرانک میڈیا کے بھی بخیے ادھیڑنا شروع کردیے ہیں۔ نتیجے میں ملک میں سیاسی استحکام، معاشی نظام، حکومتی رٹ، سماجی معاملات یہاں تک کہ میڈیا سب کچھ اتھل پتھل ہو کر رہ گیا ہے، قومی اداروں کے ٹکراؤ کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں، سنجیدہ حلقوں میں غور کیا جارہا ہے کہ نظریہ ضرورت اور این آراو کے مضمرات سے جتنا نقصان ہو چکا اسے برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ سوچنا یہ کہ آئندہ ایسی صورت حال سے کیسا بچا جائے، اس کے لیے کیا کیا جائے۔

ایک جانب سے نئے عمرانی معاہدے کی بات بھی آ رہی ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ اداروں کے اختیارات اور ان کے آپس میں روابط پر ازسرنو گفتگو ہو اور اداروں کی حدود کے تعین کے ساتھ ساتھ ایک کی دوسر ے کے معاملات میں مداخلت روکی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو حالات ہمارے ملک کے ہو گئے ہیں اور انٹرنیٹ کا دور ہے ایسے میں نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت تو ہے لیکن یہ یاد رہے کہ نئے عمرانی معاہدے کا مقصد صرف اداروں تک محدود نہیں ہوتا، یہ معاملہ آئین میں بڑی تبدیلیوں تک جا پہنچتا ہے اور بعض صورتوں میں نئے آئین تک۔

دوسرے ہزاریے کی پہلی صدی کے پہلے دو عشروں نے پاکستان کو بہت کچھ سوچنے اور بہت کرنے پر مجبور کردیا ہے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں کئی قومیں آباد ہیں جن کی بود باش زبان، ثقافت الگ الگ ہیں، ان کے درمیان ہم آہنگی اور یگانگت ہی ملک کو استحکام دے سکتی ہے۔ فوج کے حکومت میں آئینی کردار کے حوالے سے بھی بات کی گئی، پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام کی باتیں ہمارے ملک کی سیاست میں ہوتی رہیں، اسی طرح مزید صوبوں کا قیام، دہشت گردی، طالبان فیکٹر سے پیدا صورت حال، مشترکہ مفادات کی کونسل، فنانس کمیشن جیسے معاملات ایک نئے عمرانی معاہدے کے متقاضی ہیں۔

بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، بھارت میں مسلمانوں کی امگریشن پر پابندی، پڑوسی ممالک سے تعلقات میں آنے والا اتار چڑھاؤ، سی پیک کے بعد چین اور امریکہ سے تعلقات کی نوعیت بھی ہمیں اپنی خارجہ پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لینے پر مجبور کرتی ہیں۔ وہ باتیں جو قوم کو ایک لڑی میں پرو سکیں، ایسے اقدامات اور ایسے ہی معاہدے کی ضرورت ہے۔

ٹاپ اسٹوریز