بابائے قوم کی معطر یادیں

آوازہ

قومیں اپنے قائدین کو کیسے یاد رکھتی ہیں، یہ دیکھنا ہو تو واشنگٹن چلیے۔۔۔۔ دریائے پوٹامک کے کنارے۔ یوں تو یہ دریا شہر میں جگہ جگہ سامنے آتا ہے اور اپنی بہار دکھاتا ہے لیکن جارج واشنگٹن میموریل کی بات الگ ہے۔ اُس روز جب میں وہاں پہنچا تو دھوپ چھاؤں کے بیچ آنکھ مچولی کا سماں تھا، اس پر بادل مستزاد جو دریا میں اترنے والی سیڑھیوں پر اوپر تلے دل موہ لینے والی ترتیب میں کھڑے نغمہ سرا مغنیوں پر سایہ فگن تھے۔ سرخ وردی پوش ان نونہالوں کی نگاہوں کے عین سامنے وہ فیصل آباد کی گمٹی جیسا چبوترہ تھا جس کے بیچوں بیچ دیو قامت سیاہ سنگی کرسی پر حضرت جارج واشنگٹن براجمان تھے، پس، میں نے ان جواں سال گلوکاروں کو ان کے حال پر چھوڑا اور اس قوم کے بزرگ کی جانب بڑھا۔

امریکی اپنے باپ کو جتنا بڑا سمجھتے ہیں، اس کی نشست اور خود اس کا مجسمہ بھی اتنا ہی بڑا بنایا ہے، اس کے سامنے، آگے پیچھے اور دائیں بائیں کھڑے لوگ ویسے ہی لگتے ہیں جیسے پھولے ہوئے پروں والی ایک گولڈن مرغی کی پناہ میں اس کے چوزے۔ یہ منظر کچھ ایسا ہے دیکھنے والا، خواہ وہ کوئی بھی ہو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اس مسافر نے بھی یہ منظر دل کے البم پر منتقل کیا لیکن متاثر وہ ایک اور چیز سے ہوا۔

جارج واشنگٹن کی یادگار جس نے ڈیزائن کی، وہ صرف صاحبِ ذوق ہی نہیں کوئی صاحب علم اور نظریاتی بھی ضرور رہا ہو گا، تبھی تو جو کوئی زائر، مسافر یا سیاح اس عمارت میں جاتا ہے، کوئی نہ کوئی تحفہ لیے بغیر نہیں لوٹتا۔ وہ اگر آثار قدیمہ، تعمیرات کے علم یا فن مجسمہ سازی کا دلدادہ ہو تو یہاں موجود تمام مظاہر پر اس امریکی بزرگ کے افکار اور اقوال کی چھاپ بھی موجود ہے، چاہے تو آنکھوں کے راستے دل و دماغ میں اتار لے،چاہے ان سے روشنی پکڑ کر اپنا راستہ سیدھا کر لے۔ اور اگر آپ کو سووینیر اکٹھے کرنے کا شوق ہے تو وہ بھی دستیاب ہیں لیکن اس بزرگ کے کسی نہ کسی پیغام کے ساتھ۔ میں نے یہ سوچا تو ایک گونہ حسرت کے ساتھ سوچا کہ میرے قائد اعظم کا مقام تو دنیا کے عظیم ترین قائدین میں بھی ممتاز ہے۔ ان کا کردار، ان کے افکار جس کسی کی نگاہ سے بھی گزرے، ان کا گرویدہ ہو گیا۔ یہ سب ہوا لیکن از خود ہوا یا پھر کسی کی کسی انفرادی کوشش سے ہوا، ہم نے بابائے قوم کے افکار و خیالات سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے کیاکبھی کوئی منظم کوشش بھی کی؟

سچ یہ ہے کہ یہ سوال دل میں ایک ہوک کی طرح اٹھا اور سینہ فگار کر گیا لیکن یہ سال کچھ ایسا بابرکت رہا ہے کہ بابائے قوم کے افکار و نظریات اور ان کے طرز زندگی کے بارے میں ایک دو نہیں اکٹھی پانچ کتابیں منصہ شہود پر آئی ہیں۔ یوں بابائے قوم کی زندگی کا وہ کون سا گوشہ ہے جو ریکارڈ پر نہیں، ان کے سوانح نگاروں کا کام بھی سونے میں تولنے کے قابل ہے لیکن بہت سا کام بکھرا ہوا بھی تھا۔ مثلا ًکسی صحافی یا اہل دل نے تحریک پاکستان کے کسی گم شدہ یا معروف کارکن سے ملاقات کی اور ان کے مشاہدات ریکارڈ کردیے یا قائد اعظم کے رفقائے کار اور مسلم لیگ کے قائدین نے اپنی ملاقاتوں، مشاہدات اور تجربات قلم بند کردیے، ایسی بے شمار تحریروں کے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ کسی اخبار یا رسالے میں شائع ہو کے ایک آدھ بار سامنے ائیں پھر طاق نسیاں ہو گئیں۔

تحریک پاکستان اور بابائے قوم کے ایک عاشق زار ڈاکٹر ندیم شفیق ملک نے سوچا کہ بانی پاکستان کے بارے اگر کہیں کوئی ایک آدھ مضمون، کوئی واقعہ حتیٰ کہ کوئی واقعہ بھی کہیں شائع ہوا ہے تو اسے تہہ خانوں میں پڑے اخبارات کے فائلوں سے نکل کر قوم کے سامنے آنا چاہئے۔ انھوں نے یہ سوچا اور اس کام میں جت گئے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ قائد اعظم کی معطر یادیں،قائد اعظم کی منور یادیں،قائد اعظم کی پائندہ یادیں،قائد اعظم کی رخشندہ یادیں اورقائد اعظم کی تابندہ یادیں کے ملتے جلتے عنوانات کے تحت یادوں کی ایک کہکشاں مرتب ہو کر قوم کے سامنے آگئی ہے۔اس طرح اپنے بزرگوں کے افکار کی ترویج کے سلسلے میں جس محرومی یا خلاکا احساس دیار غیر میں جاکرہوتا تھا، اس میں کمی کی ایک بامعنی صورت پیدا ہوئی ہے۔

یوں، بابائے قوم کی سال گرہ اور یوم وفات پر اخبارات میں سال میں دو مرتبہ باقائدگی سے بہت کچھ شائع ہوتا ہے لیکن اس مواد کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی خصوصی اشاعتوں میں ایک طرح کی میکانکی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے لہٰذا ہر بار وہی کچھ پڑھنے کو ملتا ہے جو پہلے بھی نگاہ سے گزر چکا ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں چشم دید واقعات کے بیان سے نہ صرف تازگی پیدا ہوجاتی ہے بلکہ اس میں ایک ایسا تنوع بھی ہوتا ہے، رسمی اورمیکانکی تحریریں جس سے محروم ہوتی ہیں۔

قائد اعظم کی سیاست اور اصول پسندی کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ان تحریروں سے وہی مسئلہ پیدا ہوا جو بزرگ اور عبقری شخصیات کے بیان میں پیدا ہوجاتا ہے یعنی انھیں گوشت پوست کے انسان سے اوپر اٹھا کر ان کے بارے میں ایک غیر انسانی قسم کا تاثر پیدا ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے بابائے قوم کے بارے میں بھی ایسا ہی ہوا اور ہم نے جب یہ جانا وہ قاعدے قوانین کی پابندی پر زور دیتے ہیں تواس کے ساتھ ہی یہ تاثر بھی لیا کہ وہ انسانی محسوسات کو بھی نظر انداز کر دیا کرتے ہوں گے لیکن شخصی یادوں اور تذکروں کا کمال یہ ہے کہ ان میں انسان کی عظمت کا بیان بھی نازک انسانی کیفیات کے ساتھ ہوتا ہے، یوں عظمت کی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود بھی انسان؛انسان ہی رہتا ہے۔یہ کتابیں اس طرح کی کیفیات اور محسوسات کا خزینہ ہیں۔

قائد اعظم ایک بار آرام کے لیے فدامحمد خان صاحب کے ساتھ قبائلی علاقے میں ان کے آبائی گھر گئے۔ دوران سفر گاڑی میں پہاڑی علاقے کی ٹھنڈی محسوس کرکے میزبان نے گاڑی کا شیشہ چڑھا دیا تو قائد مسکرائے اور فرمایا کہ اسے کھول دو۔ اگرچہ میں بیمار ہوں لیکن اس کے باوجود میں اس تازگی اور خنکی سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔ ایک بار کسی نے تحریک پاکستان کے لیے عطیہ دیا تو اسے جمع کرانے کے لیے وہ خود بینک پہنچ گئے۔ وہاں جاکر انھیں یہ معلوم ہوا کہ دو مسلمانوں کے سوا سارا عملہ ہندوؤں پر مشتمل ہے تو مقامی قیادت کو اس پر متوجہ کیا اور ہدایت کہ صرف سیاست کے ہو کر نہ رہ جاؤ، نوجوانوں کے کیرئر بھی توجہ دو تاکہ قیام پاکستان کے بعد زندگی کے مختلف شعبوں میں افراد کار میسر آسکیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کی مرتب کردہ یہ کتابیں ہمارے سامنے بابائے قوم کی اصل تصویر پیش کرتی ہیں، یوں ان کے ساتھ ہماری محبت میں گہرائی،گیرائی اور معنویت پیدا ہوجاتی ہے۔بابائے قوم کی سال گرہ پر یہ پانچ کتابیں قوم کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔

کتاب کم قیمت ہو، بیان سادہ اور دل نشین ہوتو اور کیا چاہئے، اب اگر تو ڈاکٹر صاحب ایک زحمت اور بھی کر ڈالیں، جارج واشنگٹن کی طرح مزار قائد پر بھی ان خوش نما تحفوں فراہمی کا بندو بست کردیں،اس طرح واشنگٹن میموریل کی طرح مزار قائد کے ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ معنوی حسن میں بھی اضافہ ہوجائے گا اور جو صاحب دل بھی مزار قائد پر اپنی عقیدت کا نذرانہ لے کر جائے گا،ان کے افکار قائد کا تحفہ لے کر لوٹے گا، بالکل ایسے ہی جیسے مولانا روم کے مزار پر جانے والے والے عقیدت مند اپنی اپنی زبان میں مثنوی کا تحفہ لے کر لوٹتے ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز