ہوا بدلنے کے آثار

آوازہ

کوئٹہ کا ایک سفر کبھی نہیں بھولتا، ریل گاڑی اسٹیشن پر پہنچی تو مسافروں نے اس پر ہجوم کیا۔ اُن زمانوں میں اوّل ٹرین پر سوار ہونا، پھر اس میں جگہ بنانا جان جوکھوں کا کام تھا۔ خوش قسمتی سے جنھیں جگہ مل جاتی، وہ آنے والوں کا راستہ بند کر دیتے۔ گاڑی کے اندر جہاں بیٹھنے کی جگہ ہوتی، لوگ باگ ایک دوسرے پر چڑھے دکھائی دیتے۔ کوئی جگہ بنانے کی کوشش کرتا تو پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگ اُسے کاٹ کھانے کو دوڑتے۔ بیچ کی طویل راہداری، نشستوں کے درمیان تھوڑی سی جگہ، غرض اندر داخل ہونے نیز باہر نکلنے کے کسی مقام پر بھی تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی۔ گزشتہ برس ڈیڑھ برس کے دوران میں اپنے دیس کے جو حالات بنے، ان کی وجہ اس بھولے بسرے سفر کی یاد بار بار آئی لیکن اب جب سے ہواؤں کا رخ بدلا ہے، اس یاد سے منسلک ایک اور یاد بھی سر اٹھانے لگی ہے۔

سفر طویل ہو، کم ازکم اتنا کہ آپ کو اس دوران میں بار بار کھانا تناول کرنا پڑے، پانی کے انتظام کے لیے کچھ زحمت اٹھانی پڑے، اس کے علاوہ بھی جو انسانی ضروریات ہیں، ان کی تکمیل کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑے، کیا جائے۔ یہ سفر کچھ ایسا ہی تھا۔ ستر، اسی یا زیادہ سے زیادہ سو کلو میٹر گزرے ہوں گے کہ ایک نئے مشاہدے نے دنگ کر دیا۔ گاڑی کے مختلف حصوں میں وہ جو آپا دھاپی تھی، بے چینی تھی اوربے ثباتی کا احساس تھا، کسی ان دیکھی کوشش بلکہ نظام کے تحت سکون میں بدل گیا، کچھ اس طرح کہ سفر کی اس کیفیت میں بھی قیام جیسی صورت دکھائی دینے لگی۔ وہ لوگ جو قدرے عمر رسیدہ اور نسبتاً پڑھے لکھے تھے، انھوں نے اپنے بیگ ٹٹولے اور ان میں سے کوئی اخبار، رسالہ یا کتاب برآمد کی، ٹانگیں سیدھی کیں، تکیے سے ٹیک لگائی اور پڑھنا شروع کر دیا جو عورتیں پکی عمر کی تھی، ان کے بیگوں سے اون کے گولے برآمد ہوئے اور ان کے پر کار ہاتھوں میں میکانکی رفتار سے سلائیاں حرکت میں آ گئیں۔

بڑی بوڑھیوں کے درمیان کھسر پھسر شروع ہوگئی اور لڑکیوں بالیوں کے بیچ گپ شپ اور جواں سال ماؤں نے بچے گود میں لے کر اوڑھنی سے انھیں ڈھک لیا۔ ٹرین کے ایسے مناظر جس کسی نے بھی دیکھے ہوں گے، مجھے یقین ہے کہ اس کے دل کے دریچوں پر پھیلے صفحات پر یہ تصویریں ہمیشہ کے لیے مرتسم ہو گئی ہوں گی۔

کسی جادوئی حقیقت کی طرح جب میں نے یہ منظر دیکھا تو پاس بیٹھے اپنے پیارے دوست امجد نواز وڑائچ سے کہا کہ امجد بھائی! کچھ دیر قبل کتنی بے سکونی تھی، اب کیسا سکون ہے جیسے یہاں کبھی کوئی پریشانی تھی ہی نہیں۔ اُن دنوں امجد بھائی ایسے تھے کہ انھیں دیکھ کر کرنل شفیق الرحمن (مرحوم جنرل بن کر ریٹائر ہوئے لیکن جب تک انھیں کرنل نہ کہا جائے، ان کی شوخی بھری تحریرں کا تصور ہی ذہن میں نہیں آتا) کا ایک کردار ذہن میں آجاتا جس کے بارے میں وہ لکھا کرتے تھے کہ وہ زیر مونچھ مسکراتا ہے۔ میرا جملہ سن پر ان کی نوعمری کے باوجود گھنی مونچھیں پھڑپھڑائیں، مسکراہٹ واضح تھی۔ وہ مسکرائے اور ایک بات کہی۔

اپنے اس دوست کی باتیں اور دوران گفتگو مثالیں سن کر ہم لوگ حیران ہوا کرتے اور سوچتے کہ ایسی باتیں انھیں کیسے سوجھتی ہیں۔ یہ بات تو بہت بعد میں جا کر اس وقت سمجھ میں آئی جب چوہدری شجاعت حسین صاحب سے ملنے اور انھیں سننے کا موقع ملا کہ نجیب الطرفین جاٹو ں کو اللہ نے ایک ایسا ملکہ عطا کیا ہے کہ وہ اچانک منہ میں آنے والی کسی کہاوت، کسی پنجابی ٹپے یا ایسے ہی کسی جملے اور بعضے کسی تمثیل سے ایسی بات کہہ دیتے ہیں جسے سمجھنے کو بعض اوقات زمانے لگ جاتے ہیں۔ امجد کی مونچھیں پھڑپھڑائیں تو بالکل چوہدری شجاعت ہی انداز میں انھوں نے کہا کہ فاروق بھائی، یہ جو بوری ہوتی ہے نا بوری، بوری دیکھی ہے کبھی؟ اس میں جب سامان ڈالتے جاتے ہیں اور بورا بھرتے بھرتے لگتا ہے جیسے اس کا دامن سمٹ گیا اور سامان اس کی گنجائش سے بڑھ کر باہر نکل آیا، ایسی کیفیت میں دانش مند بورے کو ہلاتے جلاتے ہیں، ایسے میں اس کا دامن کچھ وسیع ہوتا ہے اور سامان اس میں سماتا چلا جاتا ہے۔ تو میرے بھائی، اس ٹرین کو بھی اسی بورے کے موافق سمجھ۔۔۔ امجد بھائی نے دانش کے موتی لٹائے اور ایک بار پھر زیر مونچھ مسکرانے لگے۔

مجھے لگتا ہے کہ قوموں کی زندگی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ نئے آنے والے خوب شور مچاتے ہوئے آتے ہیں، جتنا بس چلتا ہے اکھاڑ پچھاڑ کرتے ہیں، کسی کو نہ چھوڑنے کی بات کہتے ہیں لیکن ٹرین جب سو ڈیڑھ سو کلو میٹر کا سفر کر چکتی ہے تو بہت کچھ اپنے ٹھکانے پر آنے لگتا ہے۔ عمران خان نے گزشتہ بدھ کی شام وزیر اعظم ہاؤس میں ملک کے سینئر بیوروکریٹ جمع کیے اور انھیں احتساب کی نفیسات نیز حکمت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ نیب آرڈیننس کا نفاذ اس لیے ضروری ہو گیا تھا کہ اس ملک کی مشینری خوف زدہ ہو چکی تھی، اس لیے کار مملکت کا چلنا ممکن نہیں رہا تھا۔

ہماری سیاست کے بورے کے دامن کی کشادگی کا ایک اور اشارہ بیرسٹر فواد چوہدری کے سخن سے بھی ملتا ہے۔ ہمارے ان بیرسٹر صاحب کی شخصیت بھی خوب رنگا رنگ ہے۔ ایک زمانے میں اُن کی گفتار میں اتنا زور و شور تھا کہ ان کے مقابلے کی آرزو میں کئی نامور از قسم دانیال عزیز اور طلال چوہدری ڈھیر ہوئے لیکن خدا کی قدرت دیکھئے کہ خود ان پر آنچ تک نہ آئی۔ ایسے ہی معاملات میں کہا جاتا ہے، وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔

اللہ کی قدرت سے جب ان کی جماعت حکومت میں آگئی تو ہمارے یہی بیرسٹر صاحب ایک نئے آہنگ کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے۔ وہ احتساب کا خوش کن نعرہ بلند فرماتے اور حزب اختلاف کے تلملانے پر کہا کرتے، جنہاں کھادیا ں گاجراں، ڈھڈ انہاں دے پیڑ۔ یعنی جن لوگوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہے، اب وہ اپنے کرتوتوں کی سزا پائیں۔ اب اِنہی شعلہ نوا بیرسٹر صاحب کی زبان کوثر تسنیم سے دھلی محسوس ہوتی ہے اور وہ فرما رہے ہیں کہ دیکھئے، ہم نے اب ہوش کے ناخن نہ لیے تو سمجھئے، مستقل تو ہم سے روٹھ گیا۔ اس سے قبل خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ سنایا تو انھوں نے ایک پھر خدا لگتی بات کہی کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ادارے مل بیٹھ کر اپنے اپنے دائرہ کار کا تعین کریں اور طے کرلیں کہ ان کی خلاف ورزی نہیں کرنی۔ اب جو عمران خان نے اوّل کراچی میں تاجروں اور اس کے بعد اسلام آؓاد میں بیوروکریٹوں کو جمع کر کے احتساب کی اڑتی ہوئی دھول کو بٹھانے کی بات کہی ہے، وہ بھی ہواؤں کے اسی بدلتے ہوئے رخ کی نشان دہی کرتی ہے۔

اس کایا کلپ پر حزب اختلاف ہو، وہ فدائین ہوں جو راشن لے کر مخالف کی ایسی کی تیسی کر دینے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہوں، وہ سب نہایت آسانی کے ساتھ منہ کھول کے کہہ سکتے ہیں کہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے یا زیادہ سخت الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انھیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوا ہے تو عقل بھی ٹھکانے آ گئی ہے۔ بات یہ ہے کہ جو جس انداز میں سوچتا ہے، اسی طرح ردعمل کا اظہار بھی کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جذبات کی چڑھی ہوئی آندھی جب اترتی ہے اور معاملات ٹھکانے پر آتے ہیں تو سمجھ دار لوگ ایسے ہی حقیقت پسندی سے کام لیتے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر اہل معاملہ بھی خیر کے کام میں اہل خیر کا ساتھ دیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔ مجھے لگتا ہے، خدا کرے ایسا ہی ہو، کہ یہ جو حزب اختلاف نے فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں اضافے کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ غیر مشروط تعاون کا فیصلہ کیا ہے، اس کے پس پشت بھی یہی فکر کار فرما ہے۔

ٹاپ اسٹوریز