عوام اور تاریخ

خبر ہونے تک

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مہنگائی میں تواتر سے اضافہ ہی ہوا ہے، 1971 سے 2007 تک اس اضافہ نے تناسب کے اعتبار سے بمشکل سنگل ڈیجیٹ کو عبور کیا ہوگا لیکن 2007 کے بعد جیسے مہنگائی کو پر لگ گئے، کہیں ٹھہرنے کا نام ہی نہیں لیتی، اب تو یہ تین ڈیجٹ کی حدود میں داخل ہو گئی ہے، ہر حکمراں نے سابقہ حکمرانوں کو اس مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے عوام کو سہانے خواب دکھائے مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت یا حکمراں ایک فیصد بھی مہنگائی کم نہیں کرسکا، حالیہ دور میں معیشت کے حوالے سے بڑے بلند بانگ دعوے کیے گئے، احتساب کے عمل کو بھی تیز کیا گیا، احتساب کے ذمہ داروں نے بھی بڑے دعوے کیے، لیکن نتیجہ صفر ہی رہا، اب احتساب کے قوانین میں نرمی کرکے ان سرمایہ کاروں کو سہولیات دینے کی کوشش کی جارہی ہے جو حکمرانوں کے فنانسر رہے ہیں۔

گزشتہ 50 سالہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر حکومت نے سرمایہ داروں کے منافع میں اضافے کی پالیسیاں بنائی ہیں، تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ سرمایہ دار نے پیپلزپارٹی سے لے کر تحریک انصاف تک ہر پارٹی کی برسوں آبیاری کی ہے اور سرمایہ کا اصول ہے کہ اپنی رقم پر کئی گنا زیادہ منافع کمایا جائے۔ گزشتہ 50 سال کی حکومتوں نے انہیں سرمایہ کاری سے کئی گنا منافع دیا، آج بھی یہی ہورہا ہے۔ موجودہ حکومت کی آبیاری کرنے والے سرمایہ کاروں کے لوگوں کی اہم عہدوں پر تعیناتی سے لے کر ان کی مرضی اور منشا کے مطابق مالیاتی پالیسی کی تشکیل موجودہ حکومت کی ترجیح ہے۔

سرمایہ داروں کے مفاد میں پالیسی بنانا کوئی غلط بات نہیں، سرمایہ اگر ملک میں گردش کرے گا تو اس سے عوام کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری پالیسی میں بدانتظامی اور نااہلی یا پھر مسلسل بدعنوانی کے باعث یہ منافع انتہا کو پہنچ گیا اور اس پر ظلم یہ کہ منافع ملک سے باہر چلا گیا اور جارہا ہے۔ عوام دیکھتے ہی رہ گئے کہ شاید اب دن بدلیں گے  لیکن ایسا نہ ہو سکا، بالاتر طبقات کے البتہ دن ہی نہیں راتیں بھی بدل گئیں۔ اشرافیہ کی جماعت میں نت نئے لوگ شامل ہونے لگے، حکومتی اور سرکاری ذمہ داران قومی اثاثوں کو ہڑپ کر گئے، عوام کی صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، پانی کی فراہمی کے لیے مختص رقوم بھی حکمرانوں کی جیبوں میں جانے کا عمل مسلسل جاری ہے، یوں یک نہ شد دو شد یعنی عوام دو پاٹوں کے بیچ پس رہے ہیں، یہ عوام ہی ہیں جو حکمرانوں کو مسند اقتدار تک پہنچاتے ہیں اور خود ان کے اقتدار تلے دب کر رہ جاتے ہیں۔

عوام نے ہردور میں ملکوں کی آزادی استحکام اورجمہوریت کے لیے ہمیشہ تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ عرب بہار کے دور میں مہینوں رات رات بھر قاہرہ کے چوراہے پر دھرنا ہو یا پھر پاکستان میں ڈی چوک اسلام آباد پر پی ٹی آئی کا چار ماہ طویل دھرنا،عوام ہی سب سے آگے تھے مگر بدقسمتی سے ہر دور اور ہر حکومت نے ان کے کردار کی نفی کی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوامی جدوجہد کا ثمر ہمیشہ بالا طبقات نے کھایا، سڑکوں پر گولیاں عوام نے کھائیں، لاشیں بھی عوام نے ہی اٹھائیں۔ لاٹھیاں عوام پر برسیں، جیلیں عوام نے بھگتیں، انتخابی جلسوں کی شان بھی عوام نے بڑھائی، یہاں تک کہ موسم کی سختیوں کی پرواہ کیے بغیر پولنگ اسٹیشنوں پر جاکر لائینوں میں لگ کر ووٹ بھی دیے، نتیجے میں بالا طبقے ایوانوں میں پہنچے اور پھر ان ہی نے عوام پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔

لیکن تاریخ خاموش نہیں رہتی، برسوں بعد بھی چیخ اٹھتی ہے۔ ہم نے ہمیشہ وہ تاریخ پڑھی ہے جو حکمرانوں نے لکھی یا لکھوائی جس میں عوام کا کہیں ذکر نہیں لیکن اب ایسا نہیں، آج کے ڈیجیٹل دور میں عوام کی ساری جدوجہد منظر عام تو آ رہی ہے لیکن تاریخ کا باقاعدہ حصہ بنتی نظر نہیں آ رہی، ایک دن یہ ضرور تاریخ بنے گی، دنیا بھر میں عوام کی تاریخ مرتب کی جا رہی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ عوام کا حقیقی اقتدار آنے میں دیر نہیں ہے۔

پاکستان میں بھی عوام کی تاریخ مرتب ہو رہی ہے، یہ جستجو ممتاز تاریخ داں ڈاکٹر مبارک علی نے کی ہے۔ سو زائد اپنی کتابوں میں انھوں نے برصغیر، ایشیا، یورپ، امریکہ اورافریقہ کے عوام کی جدوجہد کو اجاگر کیا ہے، پاکستان میں انھیں مورخِ عوام کے خطاب سے نوازا گیا۔

مورخِ عوام ڈاکٹر مبارک علی کی علمی خدمات کے اعتراف اور عوام کی تاریخ لکھنے پر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آرٹس کونسل میں انسٹیٹیوٹ آف ہسٹیریکل اینڈ سوشل سائنسز کے زیر اہتمام ایک تقریب منعقد ہوئی جسے سجانے میں ڈاکٹر جعفر احمد پیش پیش تھے جبکہ بیرون ملک اور اندرون ملک سے تاریخ نویسوں اور تاریخ بینوں نے نہ صرف ڈاکٹر مبارک علی کی خدمات کو سراہا بلکہ اس امر کا بھی اظہار کیا کہ جس طرح انھوں نے تاریخ مرتب کی ہے اس طرح کی تاریخ کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ خو د ڈاکٹر مبارک علی نے دنیا کے مختلف ممالک میں عوام کی تاریخ کو ترتیب دینے کے لیے ہونے والی تحقیق پر روشنی ڈالی۔

یہ تو ایک علمی اور تاریخی بحث ہے جو ہوتی رہے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمراں طبقات آج بھی عوام کی تاریخ مسخ کرنے اور ان کے تاریخی فیصلوں کو اپنے حق میں کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام کی جدوجہد کے بغیر حکمرانوں کی کامیابی ممکن نہیں ہے اور عوام اب اس جدوجہد کا ثمر اپنی زندگی کی خوشحالی صورت میں چاہتے ہیں۔ پاکستان کے عوام بھی اب اپنی جدوجہد کا ثمر چاہتے ہیں، وہ اب طفل تسلیوں پر گزارا نہیں کریں گے۔ پاکستان کے عوام گزشتہ پانچ دہائیوں سے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، ان کی چوتھی نسل بھی ہاتھ میں کشکول لیے ہوئے ہے، انھیں عالمی بنک، آئی ایم ایف، منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں جیسے الفاظ سے کوئی سروکار نہیں، انھیں روزگار، تین وقت کی روٹی اور بچوں کا محفوظ مستقبل چاہیے۔ دوسری صورت میں آج کے عوام جب اپنی تاریخ خود مرتب کریں گے تب بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

ٹاپ اسٹوریز