ایم کیو ایم اور حکومتیں

خبر ہونے تک

سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ گفتگو بڑے زور دے کر کہی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت روایتی ٹریک پر آنا شروع ہوگئی ہے یی ٹی آئی کی حکومت بھی اب Status quo   یعنی جیسا ہے ویسے ہی چلنے دو والی صورتحال کی طرف تیزی سے گامزن ہے عمران خان جوStatus quo توڑنے کی بات کرتے تھے اب ان کی اس بات میں دم نہیں رہا ملک میں تواتر سے رونما ہونے والے واقعات صاف بتارہے ہیں کہ اب کوئی اور تبدیلی نہیں آئی گی سوائے حکومتی تبدیلی کے۔مجرموں اور ملزموں کی ضمانتوں پر رہائی سے لے کر نیب دائرہ اختیار میں کمی پارلیمینٹ سے آئینی  اور قانونی ترامیم سے متعلق بلزکی واپسی،آئی ایم ایف اور بزنس مافیا کے دباؤپر اقدامات حکومت کی حالات کے ساتھ سمجھوتے کی نوید ہے  ایک بڑا سیاسی عمل متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالدمقبول صدیقی کا وفاقی کابینہ سے علیحدگی کا اعلان ہے اور حسب روایت اور حسب توقع وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر ایم کیو ایم سے رابطہ کرکے معاملات حل کرنے کی ہدایات بھی جاری کردیں تین رکنی کمیٹی بھی بنادی یہ صورتحال ماضی کا وہ تسلسل اور روایت ہے جب بات استعفوں سے شروع ہوکر اتحاد ختم ہونے تک جاتی تھی اور انجام حکومتوں کی تبدیلی ہوتا تھا، ایم کیو ایم کی حکومتوں شمولیت اور ان سے علیحدگی کی تاریخ32  برسوں محیط سے ایم کیو ایم کا ہر سیاسی حکومت کے ساتھ شمولیت اور علیحدگی کا تعلق رہا ہے  چینلز پر نمودار ہونے والے بعض ”تجزیہ کار“اپنی سوچ کے مطابق یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کا تو وتیرہ ہی یہی ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ حکومتوں نے بھی یہی وتیرہ رہا ہے کہ کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتے ایم کیو ایم ہی نہیں دوسری اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی یہی رویہ ہے حکومتیں بنانے اور وزارت عظمٰی اور صدارت کے ووٹ کے لیے آنکھ بند کرکے سارے مطالبات مان لیے جا تے ہیں تحریری معاہدے بھی کرلیے جاتے ہیں بعد میں اسلام آباد کی روایت کے مطابق سب کچھ بھلادیا جاتا ہے ایم کیو ایم دو مرتبہ پیپلز پارٹی اور دو مرتبہ مسلم لیگ ن کے ساتھ حکومتوں میں شریک ہوئی درجنوں نکات پر مشتمل معاہدے بھی کیے لیکن ان معاہدوں پر عمل نہیں ہوایوں یہ اتحاد برقرار نہیں رہے  اب پی ٹی آئی کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے وجوہات بھی وہی ہیں جو ان پہلی حکومتوں کے ساتھ تھیں۔

معروضی صورتحال کے مطابق ایم کیوایم کے کنوینرنے وفاقی کابینہ سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے لیکن  ملک میں جاری صورتحال کے تناظر میں اگر تجزیہ کیا جائے  پتہ چلتا ہے ڈیڑھ سال میں پی ٹی آئی کی حکومت بھی سابقہ سیاسی اتحادی حکومتوں کی طرح کراچی کے لیے اعلانات اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں کرپائی کراچی اور حیدرآباد میں گو کہ گزشتہ عام انتخابات میں ایم کیو ایم کو کم سیٹیں ملیں کس طرح سیٹیں کم ہوئیں اس پر بہت بحث ہوچکی ہے سیٹیں ضرور کم ہوئیں ہیں لیکن سیاسی قیادت آج بھی ایم کیو ایم کے ہی نام ہے پی ٹی آئی نے زیادہ سیٹیں لے لی مگر سیاسی قیادت نہیں لے سکی لوگ آج بھی توقعات ایم کیو ایم سے ہی وابستہ کیے ہوئے ہیں  اور جب ان کی توقعات پوری نہیں ہوتیں تو ان کا دباؤ ایم کیو ایم کی قیادت پر آتا ہے ایم کیو ایم یہ دباؤ اتحادی حکومت پر بڑھاتی ہے شنوائی نہ ہونے پر حکومت سے باہر آتی ہے ان کے پاس یہی ایک اختیارہوتا ہے جو وہ استعمال کرتے ہیں موجودہ صورتحال اسی نوعیت کی ہے۔اس سے اگلا قدم کیا ہوگا اس کو مولانا فضل الرحمٰن کے ان بیانات اور دعووں کے ساتھ جوڑا جارہا سے جس کے مطابق مولانا کا کہنا ہے کہ انھیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ انتخابات اسی سال ہوں گے حکومت کی اتحادی جماعتیں ایک ایک کرکے بد دل ہورہی ہیں ایم کیو ایم نے تووزارت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے بی این پی مینگل کے تحفظات بھی دور نہیں ہوئے ہیں ان کا بھی ایسا ہی فیصلہ کسی بھی وقت آسکتا ہے ادھر مسلم لیگ ق کی نظریں پنجاب کی وزارت اعلٰی پر ہیں،ایک طرف اتحاد کی ضرورتیں ہیں وعدے وعید ہیں جن پر عمل نہیں ہورہا دوسری طرف وزرا اور پی ٹی آئی کے راہنماؤں کے رویے ہیں جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے کہا جارہا ہے کہ ان میں بعض لوگ تو کسی کے اشارے پردانشتہ ایسی کوشش کرتے ہیں  جس سے حکومت بدنام اور کام آسان ہو۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کو جن یقین دہانیوں کے بعد ختم کرایا گیا تھا لگتا ہے اس وقت شروع ہوچکا ہے آرمی چیف کی تقرری  سے متعلق آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل مجرموں اور ملزموں کی ضمانتوں پر رہائی جیسے اقدامات، نیب قوانین میں نرمی،تاجر اور صنعت کاروں کو نیب کے دائرے سے باہر کرنا،آئی ایم ایف کی شرط پر بجلی،گیس،پٹرول جیسی زندگی کی لازم ضروریات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کرنا اور ذخیرہ اندوازوں کو کھلی چھوٹ دے کرکھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کا عام آدمی کی پہنچ سے دور کردینا ایک کمزورحکومت  کی علامت سمجھا جاتا ہے اور شاید یہی وہ عوامل ہیں جن پر کہا جارہا ہے کہ مولانا کو دی گئی یقین دہانی پر عمل شروع ہوگیا ہے لیکن ان سب سے ہٹ کر ایک بڑا اور اہم عنصر پیپلز پارٹی کا ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دینا ہے جو درحقیقت مولانا فضل الرحمٰن کو کرائی گئی یقین دہانیوں پر عمل درآمد سے روکنے کے مترادف ہے کیوں کہ اس سال انتخابات پیپلز پارٹی کے حق میں بہتر نہیں ہوں گے اسی لیے پیپلز پارٹی کے راہنما ہر اس اقدام سے دور ہیں جو مولانا کرنے جارہے ہیں یہ روایت بھی ہے اور حالات بھی ایسے ہی ہیں کہ ایم کیو ایم اگر وفاقی حکومت میں نہیں رہتی تو دوسرے اتحادیوں کو بھی شہہ ملے گی یوں نئے انتخابات کا راستہ ہموار ہوگا اور پیپلز پارٹی یہ نہیں چاہے گی لہٰذا پیپلز پارٹی نے کئی باراتحاد ٹوٹنے اور ایک دوسرے کو منہہ بھر کر برا بھلا کہنے کے باوجود  ایم کیو ایم کوحکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے تاکہ صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ آئے، کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن مارچ تک یقین دہانیوں کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کا انتظار کریں گے۔

ٹاپ اسٹوریز