پش پندر کا بھارت

آوازہ

پش پندر کا بھارت

پشپندر کمار ایک بھارتی صحافی تھے، تھے میں نے اس لیے لکھا ہے کہ ان دنوں خود کو وہ صحافی کے بجائے ”پبلک فگر“ کہلوانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں کولیگ بھی رہے، اُن دنوں وہ نئی دلی میں ایک پاکستانی نیوز چینل کے نمائندہ ہوا کرتے تھے۔ وہ سیفما کے رکن تھے، کئی بار دلی پریس کلب کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ اْس زمانے میں وہ جب بھی کبھی بھی پاکستان آئے، ان سے بے تکلفی کے ساتھ گپ شپ ہوا کرتی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یار، پاکستان اور بھارت کے بیچ جو جھگڑے ہیں، وہ سب سیاست دانوں کے پیدا کردہ ہیں، ورنہ فی الاصل جھگڑا تو کوئی نہیں۔ اس لیے آئیں،مل بیٹھیں۔ وہ صرف ایسا کہتے نہیں، ہمارے ساتھ مل بیٹھتے اور خوش دلی کے ساتھ گوشت کھاتے، حتیٰ کہ گائے کا گوشت بھی۔ ہم لحاظ کرتے اور گائے کے گوشت سے اجتناب کرتے تو اصرار کرکے منگواتے۔ وہ کہا کرتے، ہندوؤں کے ہاں گائے کا گوشت کھانے پر کوئی پابندی نہیں، اگر ہوتی تو مقدس کتابوں میں یہ کیوں لکھا ہوتا کہ گائے کا سر فقط برہمن کا حق ہے۔ وہ اس طرح کی گفتگو کر کے یقین دلا دیتے کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں، اصل بھارت وہی ہے۔ وہ ہم سے کہا کرتے، آگے بڑھو، اس بھارت کے ہاتھ میں ہاتھ دو۔

”یار، بھارت کے باب میں ہمارے تجربات بہت تلخ ہیں“۔

ہم میں سے اس قسم کا کوئی سوال اٹھاتا تو کہتے، یہ اگر مگر چھوڑو۔ تمھارے ذہنوں پر تو ہر وقت اکھنڈ بھارت کا بھوت سوار رہتا ہے، ہم پر اعتماد کیوں نہیں کرتے؟

بھارت میں شہریت کا متنازع بل منظور ہوا تو اپنا جانا پہچانا پشپندر کماربہت یاد آیا، نیز اس کی اپنائیت بھری باتیں۔ آج اگر اس کی فیس بک کا سرورق دیکھیں تو اس پر لکھا ہے، اگر کوئی پاکستانی اپنی فوج کی بہادری کا دعویٰ کرے تو اسے پلٹن میدان یاد دلاؤ۔ کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر ہی ان کی ایک تقریر سننے کو ملی، اس تقریر میں انھوں نے مسلمان کو بخشا، اسلام کو اور نہ قرآن کو۔ پرانے اچھے دنوں جب ان سے ہلکا پھلکا بحث مباحثہ اور چھیڑ چھاڑ ہوا کرتی تھی، میں نے ایک بار ان سے کہا کہ پشی! تمھاری باتیں سر آنکھوں پر لیکن صدیوں کے تجربے نے اعتماد کا جو بحران پیدا کر دیا ہے، اس سے ہمت پیدا نہیں ہوتی۔ ایسی باتوں پر وہ ہمارا مذاق اڑایا کرتا۔ آج وہ پشپندر خواب و خیال ہو چکا ہے۔ اس کی کایا کلپ پر وہ سہانے دن اور اس کی دل کو چھو لینے والی باتیں یاد آئیں تو میں نے اسے ایک پیغام بھجوایا کہ اے پبلک فگر! وہ پرانا پشپندر کیا ہوا؟

یکن اس کی طرف سے کوئی جواب ابھی تک موصول نہیں ہوا۔

اب چاہے کوئی کچھ بھی کہے، بھارتی قیادت یا کسی عام آدمی کی طرف سے میٹھی میٹھی باتیں سننے کو ملتی ہیں تو تحریک آزادی کے دن یاد آجاتے ہیں، خاص طور پر کانگریسی حکومت کے دن جب انگریز کی موجودگی کے باوجود رام راج کے شدت پسندانہ نظام کے قیام کی سر توڑ کوششیں کی گئی، یہاں تک کہ مسلمان طلبہ کو بندے ماترم پڑھنے اور ہندوؤں کے مذہبی عقیدے ڈنڈوٹ پر بھی مجبور کیا گیا۔ یا پھر نہرو سمیت وہ تمام کانگریسی یاد آتے ہیں جن کی شدت پسندی سے تنگ آکر ہندو مسلم اتحاد کے سفیر قائد اعظم ؒبھارت کی تقسیم کے قائل ہو گئے یا موہن داس کرم چند گاندھی یاد آتے ہیں جو زبان سے تو اہنسا کی مالا جپتے لیکن بہار میں مسلمانوں کے قتل عام پر مکر بھری خاموشی اختیار کر لیتے۔ یہی طرز عمل تھا جس نے برصغیر کے اتحاد پر یقین رکھنے والوں پر چودہ طبق روشن کردیے نیز یہ بھی واضح کیا کہ سر سیدؒ نے مسلمانوں کے اتحاد اور تعلیم کی بات کہی یاعلامہ اقبال ؒنے دو قومی نظریہ اور مسلمانوں کے علیحدہ اقتدار کا تصور پیش کیا تو اس کے پس پشت کیا حکمت کارفرما تھی اور وہ ایسی کیا بات جانتے تھے جو مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے پیرو کاروں کی سمجھ میں نہ آسکی۔

دراصل یہ تنگ نظر ہندو قیادت ہی تھی جن کی عاقبت نا اندیشی اور تنگ دلی نے ہندو اور غیر ہندو کے درمیان تمیز میں شدت پیدا کر کے بھارت کو میدان جنگ بنا دیا۔ یہ تنگ نظری آج محض زندہ نہیں ہے بلکہ ایک عفریت بن کر عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ ہمارے ہاں نہ جانے کیوں ہندو مہاسبھا کی وارث بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس میں فرق کیا جاتا ہے،ہر دو کی فکر ایک ہی ہے بس حکمت عملی اور طریقہ واردات کا فرق ہے۔ بھارت کیا صرف بی جے پی کے دور ہی میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرتا ہے؟ ہرگز نہیں، بھارتی قیادت کا یہ طرز عمل ڈاکٹر من موہن سنگھ کی کانگریسی حکومت کے زمانے سے جاری رہا ہے۔ آج جب بھارت نے کشمیر کے سلسلے میں حتمی قدم اٹھا لیا تو سمجھ میں آیا ہے کہ یہ سب ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا جو ایک تسلسل کے ساتھ جاری تھی۔

یہ جو شہریت بل میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہے، یہ بھی تقسیم ہند سے پہلے کی ہندو ذہنیت ہی کا تسلسل ہے جس کا واحد مقصد یہ ہے بھارت میں ہندو عصبیت کا جن بیدار کر کے نام نہاد اکھنڈ بھارت کے خواب کی تکمیل کی جا سکے۔ مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی اقدام، بابری مسجد کے مسئلے انصاف کے خون اور شہریت کا متنازع قانون، یہ سب کچھ اسی ایک نا آسودہ خواہش کی تکمیل کی کوششیں ہیں جو انشا اللہ نا آسودہ ہی رہیں گی۔ اس لیے بھارت سے کوئی گلہ کرنے کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنا عالمی، خاص طور پر علاقائی سیاست کا تناظر درست رکھا جائے۔ آخر میں پاکستانی دوستوں سے ایک گزارش کرنی ہے کہ ازراہ کرم وہ دو قومی نظریے کے غلط یا درست ہونے کی بحث میں الجھنے کے بجائے ذرا بھارت پر توجہ مرکوز فرما لیا کریں اور غور کر لیا کریں کہ ہندو انتہا پسند قیادت ہی ہے جس کی تنگ نظری نے ماضی میں بھی تباہی کا راستہ ہموار کیا اور بھی اس کے طرز عمل میں کوئی فرق نہیں آیا۔

ٹاپ اسٹوریز