بچوں کی حفاظت کیسے کریں؟

میں ابھی ایک بچے کے حوالے سے خبرپڑھ کر کچھ لکھنے کی ہمت کررہی ہوتی ہوں کہ ایسی ہی دوسری کوئی خبر میرے دل و دماغ پر برف جمادیتی ہے۔ کیا کریں، کس سے شکوہ کریں، کس طرح سے یہ مسائل حل ہوں گے، کم از کم میری فہم تو اس مقام تک نہیں جا پا رہی ۔

ابھی تھانہ شاہدرہ کی حدود میں سات سالہ انعم کے ساتھ زیادتی بات ہورہی تھی کہ مانسہرہ کے 10سالہ بچے کے ساتھ 100 بار زیادتی کا واقعہ سامنے آگیا اور ابھی اس زخم پر کھرنڈ بھی نہیں آئے تھے کہ سوشل میڈیا پر نوشہرہ کی عوض نور۔۔۔۔۔ایک حسین اور کمسن شہزادی کی تصویر وائرل ہونا شروع ہوگئی ۔۔۔۔۔اور ایسا لگا کہ قلم اُٹھانے، سوچنے سمجھنے کی طاقت سلب ہوکر رہ گئی ۔

آٹھ سالہ عوض نور ‘ایسی خوبصورت اور معصوم بچی کے ساتھ کوئی ایسا کیسے کرسکتا ہے ؟ اس کے نرم و نازک گلے پر دباﺅ ڈالتے ہوئے ظالم کا دل نہیں کانپا ہوگا؟

شایدا یسے ہی لوگوں کے دلوں پر مہر لگائی گئی ہے۔ خود پر کی گئی زیادتی کا بدلہ لینے کیلئے ایک معصوم کے ساتھ زیادتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچی یقینا اس کو پہنچاتی تھی اسی لئے تو 18سالہ جلاد اسے بوتل پلانے کا لالچ دے کراپنے ہمراہ کھیتوں میں لے جانے میں کامیاب ہوا ہوگا، ہوش اسے اس وقت بھی نہ آیا جب بچی نے چیخ و پکار شروع کردی بلکہ گھبرا کر اس اس نے بچی کا گلا دباکر اس ظالم دنیا کی قید سے آزاد کردیا ۔ ملزم کی گرفتاری بھی عمل میں آگئی اور جب ملزم ابدار ولد عبد اللہ شاہ سکنہ پیر سچ زیارت کاکاصاحب اور شریک جرم 35سالہ رفیق کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تو ابدار نے عدالت کے روبرو اپنے جرم کا اعتراف کر دیا اور کہا کہ اس نے بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا، اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو بھی عدالت نے جیل بھیج دیا۔

میں نے بچی کے چچا ریاض علی شاہ کا ایک بیان پڑھا جس میں انہوں نے بچی کی تلاش کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ جب ہم بچی کو تلاش کررہے تھے تو ملزم بھی ہمارے ساتھ مل کر بچی کو تلاش کرتا رہا ۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ملزم کے اس رویے کو بے خوفی کہا جائے یا خوف ۔۔۔۔ پھر میں نے اس مردود شخص کو اقرار جرم کرتے ہوئے بھی دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ لوگ اردگرد کھڑے ہوئے اس کی مووی بنارہے ہیں‘ ایک نے اس کا گریبان تھام رکھا ہے لیکن مجھے اس کے چہرے پر موت کا خوف نظر نہیں آیا۔اس کی ایک بہت بڑی وجہ ہے یعنی اسے پتا ہے کہ اسے چند سالوں کی سزا ہوگی، پھر وہ باہر آجائے گا اور یہی بنیادی سبب ہے اس مسئلے کی اس قدر شدت کا ۔ اگر زینب کے قاتل کو چوک پر پھانسی دے دی جاتی تو آج عوض نور اپنے گھر والوں کے ہنسی کھیلتی نظر آتی۔

بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم”ساحل“ نے سال 2019 ءکے حوالے سے جو رپورٹ شائع کی ہے اس کے مطابق جنوری سے جون 2019 ءتک بچوں کے ساتھ زیادتی کے 1304 واقعات سامنے آئے جن میں سے 614 کیسوں میں زیادتی کرنے والا بچے کا رشتہ دار ثابت ہوا۔ رپورٹ کے مطابق 203 واقعات میں بچوں کو ان کے اپنے ہی گھر میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 300 واقعات میں رشتہ دار وں نے بچوں کو اپنے گھر میں زیادتی کا نشانہ بنایا، 12 بجے مدرسے میں زیادتی کا نشانہ بنے، تین کو ملزم نے اپنے کام کرنے والی جگہ پرنشانہ بنایا جبکہ 162 واقعات کھلی جگہ جیسا کہ کھیت‘گلیوں اور جنگلوں میں پیش آئے۔

یادش بخیر ملک میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات، اغوا اور گمشدگی کے کیسوں کا موثر طریقے سے تدارک کرنے کے لئے یکم اکتوبر 2019 کو وزیر اعظم عمران خان نے ”میرا بچہ الرٹ“ کے نام سے دو ہفتوں کے اندر ایک خصوصی ایپلی کیشن تیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی تاکہ کسی بھی بچے کی گمشدگی کی صورت میں اس ایپلی کیشن پر کوائف کے اندراج کی صورت میں تمام تفصیلات صوبوں کے آئی جیز اور دیگر سینئر افسران تک فوری طور پر پہنچ سکیں اور فوری کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔ بتایا گیا تھا کہ یہ ایپلی کیشن ”پاکستان سٹیزن پورٹل“سے منسلک ہوگی تاکہ کسی بھی واقعے میں بچے کی برآمدگی اور کیس میں پیش رفت پر نظر رکھی جا سکے لیکن تین ماہ کے بعد بھی اس اپیلی کیشن کا کوئی اتا پتا نہیں ہے جو حکومتی سطح پر ایسے حساس معاملے کی غیر سنجیدگی کا ثبوت ہے ۔

اگر بات خیبر پختونخوا کی کریں تو یہاں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2010 ءسے موجود ہے لیکن اس کے تحت اضلاع میں بننے والی چائلڈ پروٹیکشن کمیٹیاں غیر فعال ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ ان کمیٹیوں کے تحت بننے والے تحصیل اور گاو ¿ں کے درجے کی کمیٹیاں سرے سے ہیں ہی نہیں۔ ایسے میں زیادتی اورجرائم کے بارے میں لوگوں تک آگاہی پہنچنا ممکن ہی نہیں۔

اس ضمن میں حکومتی کوتاہیاں اپنی جگہ ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں لوگ جنسی تعلیم یا آگاہی کو بے شرمی سے تعبیر کرتے ہوئے اس کا نام سننے کو تیار نہیں، اس ضمن میں کوئی بات کی جائے تو بہت سے لوگ شور مچانے لگتے ہیں اور نہ ہی اسکولوں کی سطح پر بچوں کو اس حوالے سے کوئی رہنمائی فراہم کی جاتی ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگرلوگوں کو جنسی تعلیم کے نام سے مسئلہ ہے تو چائلڈ پروٹیکشن ایجوکیشن نام رکھ کر بچوں کو اپنے بچاﺅ کے حوالے سے رہنمائی دی جاسکتی ہے۔

ہماری معاشرت اور ثقافت میں والدین اپنے بچوں سے ایسے موضوع پر بات کرنا معیوب سمجھتے ہیں جو نہایت غلط طرز عمل ہے۔ ماﺅں کو اپنی بیٹیوں اور باپ کو بیٹوں سے اس حوالے سے اپنے، اپنے طریقے سے بات کرنی چاہئے اور بچوں سے دوستی کریں تاکہ وہ اپنی ہر چھوٹی بڑی بات آپ تک پہنچائیں۔والدین کے سخت رویے کی وجہ سے اگر بچے اس طرح کے کسی فعل کے حوالے سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے خوفزدہ رہتے ہیں اور حادثات رونما ہوجاتے ہیں۔

بات تھوڑی سی تلخ ہے لیکن قریبی رشتہ داروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا بھی نہایت ضروری ہے۔ بچوں کو رکشہ والوں کے ساتھ اور اسکول وینوں میں بھیجنا مجبوری ہے تو بچوں کو محتاط کریں، انہیں اچھے اور برے لمس سے آگاہ کریں اور گاہے بگاہے ان سے دریافت بھی کرتے رہیں۔

یاد رکھیں کہ بچوں کیلئے ہر وہ جگہ غیرمحفوظ ہے جہاں وہ تنہا ہوں۔ اعدادوشمار سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ گھروں میں ہونے والے واقعات میں زیادہ تر ماموں، چچا، قاری صاحب، اسکول وین کے ڈرائیور اور قریبی عزیز ملوث ہوتے ہیں، لہٰذا اعتبار کرنے میں احتیاط کریں ۔

یاد رکھیں کہ اگر ہم اپنے بچوں کی جانب سے لاپرواہی برتتے ہیں تو دنیا کا کوئی قانون اورآئین ہمارے بچوں کو محفوظ نہیں کرسکتا ۔ اگر اپنے بچوں کی حفاظت اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہ ہم ہیں ۔ اپنی دلچسپیوں اور مصروفیات کو بچوں پر ترجیح نہ دیں۔اس حوالے سے ہر سطح پر، ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے خواہ وہ حکومت ہو‘ میڈیا ہو یا سول سوسائٹی۔ اس معاشرتی ناسور کو اکھاڑ پھینکنے کیلئے ہر ایک کو ایک قدم آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا تب ہی کچھ بہتری کے آثار رونما ہوسکیں گے۔

 

 

ٹاپ اسٹوریز