تبدیلی معدوم، روایت برقرار

خبر ہونے تک

روایتی سیاست او روایتی حکومت نہ صرف شروع ہوچکی ہے بلکہ مستحکم بھی ہوچکی ہے، تبدیلی اور انقلابی تبدیلی کی باتیں اس روایتی سیاست اور روایتی حکومت کے بھاری پتھر کے نیچے کچلی جا چکی ہیں، بری حکمرانی، مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ صوبوں اور وفاق کے جھگڑوں کی روایت بھی عروج پر پہنچی ہوئی ہے ہمارے ملک کی ایک روایت یہ رہی ہے کہ وفاق اور کسی ایک صوبے کی حکومت آمنے سامنے ہوکر تصادم کی سی صورتحال سے دوچار رہی ہیں۔ بظاہرکبھی مالی معاملات ابھرے تو کبھی افسران کے تبادلے وجہ تصادم بنے لیکن حقیقت کچھ اور ہی رہی جس کی وجہ سے حکومتوں کے خلاف تحاریک عدم اعتماد لائی گئیں جو کبھی کامیاب تو کبھی ناکام رہیں۔ مقصد صاف تھا کہ ہر پارٹی نے بلا شرکت غیرے اکیلے ہی حکمرانی کے خواب دیکھے اس خواب کی تعبیر میں اتحادیوں کو بھی لارے لیے دیے جاتے رہے، یہی کچھ اب بھی ہورہا ہے۔

سیاستدانوں کی موجودہ نسل گزشتہ 30 برسوں سے یہی کچھ کررہی ہے، ان کے درمیان کچھ نہیں بدلا، حکومت بنانے کے لیے بدترین مخالفین کو ساتھ ملانا، پھر ان سے لاتعلق ہوجانا، پھر جب حکومت ڈگمگائے تواتحادیوں کے در کے چکر لگانا سیاستدانوں کا وتیرہ رہا ہے۔ دوسرا اہم وتیرہ اپنے مخلص اوردل جمعی سے کام کرنے والے ساتھیوں کو نظر انداز کرنا اوربستہ بند قسم کے بدعنوان لوگوں اور ”لوٹا قسم کے سیاست دانوں“کو حکومتوں میں شامل کرنا رہا ہے نتیجہ خراب حکمرانی،امن وامان کا مسئلہ،بدعنوانی میں اضافہ،قومی اثاثوں میں کمی،اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں ایسا اضافہ کہ عام آدمی ترس جائے۔ یہ سب کچھ گزشتہ تیس سال سے ہو رہا ہے، ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں حکومتوں کا حصہ رہی ہیں، کوئی ایک دعوٰی نہیں کرسکتی کہ ان کے دور میں مہنگائی ایک روپیہ بھی کم ہوئی ہو یا بدعنوانی کو روکا جا سکا ہو۔ آج ملک اور تین صوبوں میں پی ٹی آئی کی مخلوط حکومتیں ہیں پی ٹی آئی ملک سے بدعنوانی کے خاتمے،روزگار کی فراہمی،مہنگائی روکنے کی سب سے بڑی دعویدار تھی۔ افسوس کہ اسی دور میں مہنگائی آسمان کو چھونے لگی اور روزگار ڈھونڈنے سے نہیں مل رہا سابقہ حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی اتحادیوں سے لاتعلق،افسران کے تبادلوں کے جھگڑے صوبائی حکومت ختم کرنے کی کوششوں میں لگی نظر آتی ہے۔

تن تنہا حکمرانی کا خواب یوں تو قیام پاکستان سے ہی دیکھا جانا شروع ہوگیا تھا لیکن سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد یہ خواب خواہش میں تبدیل ہوگیا اور پھر ہر ہتھکنڈہ اختیار کرکے خواہش پوری کی جانے لگی۔ 70 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں اس وقت نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) کی سردار عطاء اللہ مینگل اور کے پی اس وقت صوبہ سرحد میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے مولانا مفتی محمود کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومتوں کو ختم کر کے گورنر راج لگا دیا، ملک میں طویل مارشل لا اور جمہوریت کے لیے طویل جدوجہد کے بعد 1988 میں وفاق اور تین صوبوں میں بینظیر بھٹوشہید کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومتیں بنیں اور پنجاب میں میاں نواز شریف کی سربراہی میں صوبائی حکومت قائم ہوئی۔

شروع دن سے ہی وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما رہیں یہاں تک کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو کو پنجاب پہنچنے پر وزیراعلٰی نوازشریف کی جانب سے پروٹوکول نہیں دیا جاتا تھا دوسری طرف پیپلز پارٹی کے اتحادی خوش نہیں تھے، سندھ میں تواتحادی پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم جتھہ بند ہوکر آمنے سامنے آ گئے، کرپشن کی نت نئی کہانیوں کا آغاز بھی ہوا۔ آئی جے آئی بالخصوص مسلم لیگ ن کے سربراہ پنجاب کے وزیراعلٰی نواز شریف نے وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظم کی۔ گو کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی لیکن چند ماہ بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بھی ختم ہوگئی۔ 1990 کے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومتیں وجود میں آئیں لیکن پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ کی سیاسی جنگ جاری رہی، سندھ میں پیپلز پارٹی کو اکثریت کے باوجود حکومت نہیں بنانے دی گئی۔ جام صادق کو حکومت بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے مدد کی دوسری طرف پنجاب میں غلام حیدر وائیں کی حکومت گرانے میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کے خلاف میاں منظور وٹوکی مدد کی۔

1993 میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت بنی پنجاب میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں بننے دی اور مسلم لیگ ج کے میاں منظور وٹو کی حکومت بنانے میں ان کی مدد کی جبکہ کے پی میں مسلم لیگ ن کی سید صابر شاہ کی سربراہی میں حکومت بنی لیکن چند ماہ بعد ہی پیپلز پارٹی سید صابر شاہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئی اور آفتاب شیرپاؤ کی سربراہی میں اپنی حکومت بنالی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان یہ محاز آرائی آج تک جاری ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ان کی حکومتوں کا حصہ بھی رہی ہیں اور ان کے ساتھ متصادم بھی رہی ہیں۔ ہر جماعت نے دوسری جماعت پر سوائے الزامات لگانے کے کوئی مثبت کام نہیں کیا، ملک عالمی سطح برے سے برے نمبرحاصل کرتا جا رہا ہے لیکن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سیاسی روایت اب بھی جاری ہے۔

آج 30 سال بعد بھی ایسی ہی صورتحال ہے، آج بھی صوبے اور وفاق آمنے سامنے ہیں، صوبائی حکومتیں گرانے کی باتیں ہورہی ہیں، آج بھی اتحادیوں کے درمیان دراڑیں پڑتی نظر آرہی ہیں اور آج بھی وزیراعظم اپنی حکومت بچانے کے لیے اتحادیوں کے در پر دستک دے رہے ہیں۔ وفاق کے علاوہ پنجاب اور کے پی کے بعد اب بلوچستان کے اتحادیوں کی دراڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ سندھ میں وسائل کی تقسیم سے شروع ہونے والے اختلافات آئی جی سند ھ کے تبادلے تک گہرے ہوگئے، اب چیف سیکریٹری کے تبادلے کی بات ہورہی ہے جبکہ گاہے بگاہے سندھ میں گورنر راج کی گونج بھی سنائی دینے لگتی ہے۔ پنجاب میں وزیراعظم عمران خان وزیراعلٰی بوزدار کے ساتھ ہیں جبکہ ان کے بڑے اتحادی جنھوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے اور نواز شریف کے معاملے پر عمران حکومت کا ساتھ دیا وہ پنجاب میں شدید ناراض ہیں، پی ٹی آئی کا ایک گروپ بھی بوزدار کی تبدیلی پر زور دے رہا ہے.

کے پی کے وزیراعلٰی بھی ارکان اسبملی کی خواہش کے بغیر وزیراعظم کی مدد سے بیٹھے ہیں, کے پی کے دووزرا کی برطرفی نے ساری صورت حال عیاں کردی, بلوچستان میں بھی اتحادی اپنا رنگ دکھا رہے ہیں, چاروں جانب کے اس روایتی دباؤ نے وزیراعظم عمران خان کو بھی روایتی حکومت کرنے پر مجبور کردیا, اپنی حکومت بچانے کے لیے ایک جانب انھوں نے ایک وفد ایم کیو ایم کے مرکز بہادرآباد بھیجا تو دوسری طرف اختر مینگل سے بھی مذاکرات شروع کیے، سندھ کے وزیراعلٰی کو بھی ملاقات کا دیا اور اپنے اتحادی جی ڈی اے کے سربراہ پیر صاحب پگارا سے ملاقات کے لیے ان کے گھر بھی گئے۔ یہ سب وہ روایات ہیں جو ماضی کی حکومتوں کے سربراہان بھی اپنی حکومتیں بچانے کے لیے کرتے رہے ہیں لیکن پھر بھی ان کی حکومتیں بچ نہیں پائیں،تاہم روایت بر قرار رہی۔

ٹاپ اسٹوریز