صرف بالغان کیلئے

دنیا کے بہت سارے ممالک میں فلموں اور ٹی وی پروگرامز کو نشر کئے جانے سے پہلے انہیں پرکھا جاتا ہے اور یہ طے کیا جاتا ہے کہ وہ کس عمر کے ناظرین کے لیے موزوں ہیں۔ اس جانچ پڑتال یا سنسر کے لیے کمیٹیاں موجود ہوتی ہیں جو یہ تعین کرتی ہیں کہ کس عمر کے ناظرین یہ مواد دیکھ سکتے ہیں اور یہ مواد اگر ٹی وی پر نشر ہونا ہے تو اس کے لیے کونسا وقت مناسب رہے گا۔

اس جانچ پڑتال میں عام طور پر تین حوالوں سے پروگرام یا فلم کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
پہلی چیز یہ دیکھی جاتی ہے کہ اس پروگرام میں پر تشدد مناظر تو نہیں۔
دوسری چیز یہ کہ اس میں برہنگی نا ہو یا پھر جنسی تعلقات کے مناظر نہ ہوں
تیسری چیز یہ دیکھی جاتی ہے کہ اس میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس میں کتنے برے الفاظ یا گالیاں استعمال کی گئی ہیں۔

اگر کسی فلم یا پروگرام میں تشدد، قتل و غارت، برہنگی، جنسی مناطر اور نازیبا الفاظ ایک خاص حد سے زیادہ ہوں تو اسے ۔۔۔صرف بالغوں کے لیے۔۔۔ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اگر یہ چیزیں کم ہوں تو اٹھارہ سال سے کم عمر لوگ اسے دیکھ سکتے ہیں اور اگر یہ چیزیں بالکل نہ ہوں تو یہ پروگرام ہر ایک کے لیے موزوں قرار دیا جاتاہے۔

پاکستان میں ٹی وی پر نشر ہونے والوں پروگراموں کے حوالے سے ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے جو کہ اس طریقے سے پروگراموں کی جانچ پڑتال کرے اور ان کی عمر کے لحاظ سے درجہ بندی کرے۔اس لیے جو کچھ بھی ٹی وی چینلز پر چلتا ہے وہ سب ہی دیکھتے ہیں۔ فلموں اور ڈراموں میں تو کانٹینٹ کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس عمر کے لیے ہے لیکن جب نیوز چینلز پر قومی اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو تو پھر کوئی یہ نہیں سوچ سکتا کہ اس میں بھی کچھ مسئلہ ہو سکتا ہے۔

گزشتہ دو دنوں سے میں قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی دیکھ رہا ہوں اور یہ سوچ رہا ہوں اس اجلاس میں جو کچھ ہوا، کیا ہو ٹی وی پر دکھانے کے لائق تھا۔ اگر تھا تو کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ اس پر ۔۔۔صرف بالغان کے لیے۔۔۔ لکھ دیا جاتا۔ عام طور پر اسمبلی کے اجلاس میں جب مخالفین ایک دوسرے کے خلاف تقاریر کر رہے ہوتے ہیں تو اکثر ایسے الفاظ یا جملوں کا استعمال کرتے ہیں جو غیر مناسب ہوتے ہیں اور پھر یہ الفاظ کاروائی سے حذف کر دیئے جاتے ہیں لیکن اس اجلاس میں جو ہوا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ صرف بالغان والے پروگراموں کے تمام معاملات یعنی برے الفاظ، جنسی استعارے اور تشدد، اس اجلاس میں سب کچھ تھا۔

نازیبا الفاظ اور گالم گلوچ سے شروع کرتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں عمران خان کو ایک چھوٹا آدمی کہا۔۔جب انہیں یہ الفاظ کہنے سے منع کیا گیا تو پھر وہ مسلسل عمران خان کو بہت بڑا آدمی کہتے رہے۔ نا اہل اور نالائق کے الفاظ بھی ان کی تقریر میں شامل تھے جو کہ ان کی پارٹی کے اکثر رہنما گاہے بگاہے استعمال کرتے رہتے ہیں۔

تحریک انصاف کے مراد سعید نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں اس وقت کتوں کا راج ہے۔اور ہم ان کتوں کو پکڑیں گے جو روزانہ سندھ کے شہریوں کو کاٹتے ہیں۔ کتوں کا لفظ استعمال کر کے انہوں نے سندھ میں کتوں کے کاٹنے کو واقعات اور سندھ حکومت، دونوں کو ایک ساتھ ہی نمٹا دیا۔

جنسی استعاروں کے استعمال میں پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل نے اپنی دھاک بٹھائی۔ پہلے انہوں نے مراد سعید کی پیٹھ اسپیکر کی طرف ہونے پر کہا کہ ایسے پوز میں نہ کھڑے ہو کیونکہ مجھے کچھ ہوتا ہے۔ پھر انہوں نے مراد سعید کے حوالے سے ہی زوروشور سے کہا کہ جس قسم کی محنت یہ شخص کر کے اسمبلی میں آیا ہے، وہ محنت اللہ کسی سے نہ کرائے۔ یہ بات انہوں نے خدا کی قسم کھا کر کہی جیسے وہ ان واقعات کے عینی شاہد ہوں جو ریحام خان نے اپنی کتاب میں لکھے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ ان کے اس جملے پر ایوان میں موجود پیپلز پارٹی کے مرد و زن ڈیسک بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے۔

اور سب سے آخر میں معاملہ مار دھاڑ تک پہنچا جب حکومتی وزیر عمر ایوب نے آصف زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا۔ پیپلز پارٹی کے ممبران اپنے قائد سے اپنی محبت کا عملی ثبوت دینے کے لیے جذباتی انداز میں عمر ایوب کی طرف شور مچاتے ہوئے لپکے۔ آغا رفیع اللہ گتھم گتھا ہو گئے۔ تحریک انصاف کے ممبران نے درمیان میں بیچ بچاؤ کروایا۔ اسپیکر نے کچھ اپنی کوشش کی اور یوں یہ ایکشن سین اپنے اختتام کو پہنچا۔

میرا سوال سادہ سا ہے۔ اگر یہ سب کچھ کسی فلم میں ہوتا تو یقینی طور پر صرف بالغان کے لیے ہوتی۔ لیکن جب یہی مناظر اسمبلی اجلاس میں ہیں تو وہ سب کے لیے کیوں۔ پیمرا کو اس بات کا بھی نوٹس لینا چاہیئے۔

ٹاپ اسٹوریز